مولانا ابوالکلام آزاد کے انکشافات (دوسری قسط) : تحریر ذوالفقار احمد چیمہ


مولانا ابواکلام آزاد صاحب ہندوستان میں کس دبا اور گھٹن کے ماحول میں رہے، اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ وہ گاندھی، نہرو اور پٹیل کی جن پالیسیوں سے اختلاف رکھتے تھے، جیتے جی اس کا ذکر کرنے کی ہمت نہ کرسکے اور انھیں یہ وصیت کرنا پڑی کہ تنقیدی حصوں کو ان کے انتقال کے تیس سال بعد شایع کیا جائے۔

مولانا آزاد نے کئی جگہوں پر گاندھی کی پالیسیوں پر بھی تنقید کی ہے، وہ اس بات کو بھی برا سمجھتے تھے کہ گاندھی جی، محمد علی جناح صاحب کے ساتھ مفاہمانہ طرزِ عمل کیوں رکھتے ہیں۔

جناح صاحب سے مولانا کے بغض کا اندازہ ان کی اس تحریر سے لگایا جاسکتا ہے دوسری دہائی میں کانگریس سے علیحدگی کے بعد جناح سیاسی اہمیت خاصی حد تک کھو بیٹھے تھے۔
اس کی بڑی وجہ گاندھی جی کے بعض اقدامات اور فروگزاشتیں تھیں کہ جناح نے ہندوستان کی سیاسی زندگی میں اپنی اہمیت پھر سے حاصل کرلی۔ یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ یہ گاندھی جی ہی تھے جنھوں نے مسٹر جناح کے لیے سب سے پہلے قائداعظم کے خطاب کو رواج دیا۔ گاندھی جی کے کیمپ میں ایک بیوقوف لیکن نیک نفس خاتون تھیں جن کا نام امت السلام تھا۔

انھوں نے بعض اردو اخبارات میں جناح کا ذکر قائداعظم کے طور پر دیکھا تھا۔ جس وقت گاندھی جی ملاقات کے لیے جناح کے نام خط لکھ رہے تھے، اس خاتون نے گاندھی جی سے کہا کہ اردو اخبارات جناح کو قائداعظم لکھتے ہیں، چنانچہ گاندھی جی کو بھی ان سے اسی طرح خطاب کرنا چاہیے۔

اس اقدام کے مضمرات پر ایک لمحے کے لیے بھی غور کیے بغیر گاندھی جی نے جناح سے قائداعظم کے طور پر خطاب کیا، یہ خط جلد ہی اخباروں میں چھپ گیا۔ ہندوستانی مسلمانوں نے جب دیکھا کہ گاندھی جی بھی جناح کو قائداعظم کہتے ہیں تو انھوں نے سوچا کہ وہ سچ مچ قائداعظم ہیں۔

بغض اور عناد سے لبریز اور حقائق کے منافی اس قسم کی چھوٹی بات کی مولانا ابوالکلام آزاد سے ہرگز توقع نہیں تھی۔ ایک طرف تو وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ گاندھی نے ہی سب سے پہلے جناح صاحب کو قائداعظم کا خطاب دیا دوسری طرف وہ یہ لکھ کر خود ہی اپنے دعوے کی تردید کردیتے ہیں کہ امت السلام نے گاندھی جی سے کہا تھا کہ اردو اخبارات جناح کو قائداعظم لکھتے ہیں۔

بعض اوقات حسد، عناد اور مفاد کے باعث بہت بڑی شخصیات انتہائی پست سطح پر اتر آتی ہیں، مولانا آزاد کی شخصیت کا یہ پہلو دیکھ کر بہت افسوس ہوا ہے۔

اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ جب محمد علی جناح مسلمانانِ برصغیر کے مذہبی اور ثقافتی تشخص اور ان کے سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق کے تحفظ کے لیے میدان میں اترے تو پھر نہ ہندو کی چالیںاور سازشیں ان کا راستہ روک سکیں اور نہ انگریزی سلطنت کی بے پناہ طاقت انھیں ڈرا سکی۔

انھوں نے مسلمانوں کا مقدمہ اپنے اعلی کردار کے علاوہ اپنی ذہانت اور استقامت سے لڑا۔ جناح صاحب نے جب مسلمانوں کے حقوق کا پرچم اٹھایا تو پھر ان کے پاں کبھی نہیں لڑکھڑائے۔ کروڑوں مسلمانوں نے جب دیکھا کہ ان کا لیڈر مالی اور اخلاقی طور پر بے داغ اور ذاتی مفاد اور مصلحتوں سے بالا ہے۔

وہ سراپا اخلاص اور ایثار ہے اور اس کا عزم صِمیم غیر متزلزل ہے تو ان کے دل سے نکلا کہ یہ ہے ہمارا عظیم راہنما۔ کسی ایک جلسے میں مسلمانوں نے باآواز بلند پکارا قائداعظم تو پورا ہندوستان زندہ باد کے فلک شگاف جواب سے گونج اٹھا۔ اس خطاب کو گاندھی سے منسوب کرنا جھوٹ اور کینے کے سوا کچھ نہیں۔

1937کے انتخابات کے نتیجے میں کانگریس نے آٹھ ریاستوں میں اپنی حکومتیں بنائیں اور چند مہینوں میں ہی اس کا خفیہ ایجنڈا بے نقاب ہوگیا۔

انھوں نے تعلیمی اداروں میں گاندھی کے بت کی پوجا لازم قرار دی اور ہندوتوا کے نظریے کا عکاس بندے ماترم کا ترانہ اسکولوںمیں گایا جانے لگا۔ بہت سی ریاستوں میں اردو کی جگہ سنسکرت کو رائج کردیا۔ مسلمانوں نے اس پر سخت احتجاج کیا مگر ہندو لیڈرشپ نے ایک نہ سنی۔ مگر کانگریس کے اس وقت کے صدر ابوالکلام آزاد صاحب فرماتے ہیں مسلم لیگ نے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ غیرمنصفانہ برتا اور زیادتیوں کے جو الزامات لگائے تھے وہ مطلقا بے بنیاد تھے۔

مسلمانوں کے شدید تحفظات کو بے بنیاد قرار دینا intellectual dishonesty ہے۔ مگر انھیں یہ اعتراف ضرور کرنا پڑا کہ دو ایسے واقعات ہوئے جنھوں نے کانگریس کے رویے کی بابت ایک خراب تاثر قائم کیا۔ مجھے رنج کے ساتھ یہ اعتراف کرنا ہے کہ بہار اور بمبئی دونوں میں کانگریس اپنی قومیت کے امتحان میں سرخرو نہ ہوسکی۔

بمبئی میں مسٹرنریمان مقامی کانگریس کے مسلمہ لیڈر تھے۔ جب صوبائی حکومت کی تشکیل کا سوال اٹھا تو عام توقع تھی کہ اپنے مرتبے اور ریکارڈ کی بنا پر مسٹر نریمان سے قیادت سنبھالنے کو کہا جائے گا یعنی ایک پارسی کو وزیراعلی بنایا جائے گا۔ مگر کانگریسی لیڈروں نے یہ قبول نہ کیا اور ایک ہندو لیڈر مسٹر بی جی کھیر کو وزیراعلی بنایا گیا۔ پھر لکھتے ہیں کہ ایسا ہی ایک قصہ بہار میں ہوا۔

جس وقت انتخابات ہوئے ڈاکٹر سید محمود صوبے کے سب سے بڑے لیڈر تھے۔ وہ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سیکریٹری بھی تھے۔ کانگریس کو جب صوبے میں مکمل اکثریت حاصل ہوئی تو یہ طے تھا کہ ڈاکٹر سید محمود کو لیڈر چن کر بہار کا وزیراعلی بنایا جائے گا۔

مگر یہ ہوا کہ ہندو ممبران سری کرشن سہنا اور انوگرہ نارابن سہنا کو مرکز سے بہار بلایا گیا اور وزارتِ اعلی ایک مسلمان کے بجائے ہندو لیڈر کو دی گئی۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کانگریس جن مقاصد کی دعوے دار تھی ان پر عمل پیرا نہ ہوسکی۔

جناح صاحب مسلمانوں کے لیے جس علیحدہ ریاست کا مطالبہ کر رہے تھے اس کی بنیاد کس نظرئیے پر تھی؟ کیا وہ ایک سیکولر ریاست چاہتے تھے یا اسلامی ریاست؟ ان کے کٹر مخالف مولانا آزاد کی زبانی سنیے۔جیسا کہ اچھی طرح جانا جاتا ہے، مسٹر جناح کی پاکستان اسکیم ان کے دو قومی نظرئیے پر مبنی ہے۔

ان کی دلیل یہ ہے کہ ہندوستان میں دو بڑی قومیتوں، ہندوں اور مسلمانوں کے ایک دوسرے سے الگ قوم ہونے کی حیثیت سے، الگ الگ ریاستیں ہونی چاہئیں۔کیبنٹ مشن بلان کی منظوری پر مسٹر جناح پر طنز کیا گیا کہ اگر لیگ کیبنٹ مشن پلان کو قبول کرنے پر رضا مند ہی تھی جو ایک الگ ریاست بنانے کے مسلمانوں کے حق کی نفی کرتا ہے تو مسٹر جناح نے ایک آزاد اسلامی ریاست کے بارے میں اتنا ہنگامہ کیوں برپا کیا تھا؟ یعنی ان کے مخالف بجاطور پر سمجھتے تھے کہ جناح صاحب ایک آزاد اسلامی ریاستکے قیام کی جدوجہد کررہے ہیں۔

مولانا آزاد خیبر پختونخوا (اس وقت کا صوبہ سرحد) کے سرخپوش لیڈرو ں اور گاندھی کے قابلِ اعتماد ساتھیوں عبدالغفار خان اور ڈاکٹر خان صاحب کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ، یہ بھی قارئین کے لیے دلچسپی کا موجب ہوگا، لکھتے ہیں : سرحدی پٹھان اپنی میزبانی کے لیے مشہور ہے، وہ اپنی روٹی کا آخری ٹکڑا بھی مہمان کے ساتھ بانٹنے پر تیار رہتا ہے اور اس کا دسترخوان سب کے لیے کھلا ہوتا ہے۔

کسی پٹھان کو لوگوں سے کوئی چیز اس طرح الگ نہیں کرتی جتنی کہ کنجوسی اور فیاضی کا نہ ہونا۔ بدقسمتی سے یہی وہ معاملہ تھا جس میں خان برادران اپنے مقلدوں کی توقعات سے بہت کمتر ثابت ہوئے۔ خان برادران دولت مند تھے مگر وہ مشکل ہی سے کسی کو کھانے پر مدعو کرتے تھے۔

حتی کہ لوگ ان کے یہاں چائے یا کھانے کے وقت آتے، تب بھی انھیں کھانے کے لیے رکنے کو کبھی نہیں کہا جاتا تھا۔ عام انتخابات کے دوران کانگریس نے ان کے اختیار میں خاصی بڑی رقم دے رکھی تھی ، مگر خان بھائیوں نے اس میں سے بھی بہت کم خرچ کیا۔ اسی لیے بہت سے امیدوار انتخابات میں روپے کی کمی کے باعث ہار گئے۔

پھر انھوں نے خود لکھا ہے کہ جب خان برادران صوبہ سرحد کے عوام کو اپنا ہمنوا بنانے میں ناکام ہو گئے تو انھوں نے عزت بچانے کے لیے آزاد پختونستان کا نعرہ لگادیا۔ جب اس میں کامیابی نہ ہوئی تو پینترہ بدل لیا اور کہا کہ ہم نے تو پاکستان کے اندر رہتے ہوئے خودمختاری کا مطالبہ کیا تھا۔

اس خود نوشت سے ایک نئی چیز یہ معلوم ہوئی کہ جب حالات کو دیکھتے ہوئے پٹیل، نہرو اور گاندھی نے بھی پاکستان کے مطالبے کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور قیامِ پاکستان کو قبول کرلیا تو اس وقت بھی آزاد صاحب اپنی ضد پر قائم رہے اور مسلمانوں کی پناہ گاہ پاکستان کی آزادی کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوششیں کرتے رہے، آخری کوشش میں وہ گورنر جنرل ماونٹ بیٹن سے بھی ملے، اسے بھی قائل کرنے کی کوشش کی مگر بات نہ بن سکی۔

اگر خدانخواستہ مولانا آزاد اور کانگریس کی سازشیں کامیاب ہوجاتیں تو آج ہندوستان میں ساٹھ کروڑ مسلمان غلام ہوتے۔ اللہ تعالی کی کروڑوں رحمتیں نازل ہوں قائداعظم، علامہ اقبال اور ان کے ساتھیوں کی روحوں پر جنھوں نے ہمیں آزادی جیسی نعمت سے ہمکنار کیا ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس