جموں و کشمیر سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ میں جاری سماعت : تحریر افتخار گیلانی


وزیر اعظم نریندر مودی حکومت کی طرف سے اگست 2019میں جموں و کشمیر کی آئینی خود مختاری ختم کرنے اور ریاست کو تحلیل کرکے دو مرکزی زیر انتظام علاقے بنانے کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر فی الوقت بھارتی سپریم کورٹ روزانہ سماعت کر رہی ہے۔ اس وقت تک آٹھ دنوں کی سماعت مکمل ہو چکی ہے۔ پیر اور جمعہ کے بغیر بقیہ دن یعنی ہفتہ میں تین دن سپریم کورٹ کا پانچ رکنی آئینی بینچ صرف اسی مقدمہ کی اس وقت سماعت کر رہا ہے۔ 2اگست کو جب سماعت شروع ہوئی، تو چیف جسٹس جسٹس دھننجے یشونت چندرا چوڑ نے اعلان کیا کہ اس ایشو پر کل 60گھنٹے کی سماعت ہوگی۔ جس میں اب تقریبا45گھنٹے کی سماعت مکمل ہو چکی ہے۔ اس لئے بظاہر لگتا ہے کہ اس ماہ کے آخر تک پوری سماعت مکمل ہونے کا امکان ہے۔ اس مقدمہ کا فیصلہ جو بھی ہو مگر وکیلوں کے دلائل، ججوں کے سوالات اور کورٹ میں دائر کیا گیا تحریری مواد، کشمیر کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے علاوہ قانون و سیاست کے کسی بھی طالب علم کیلئے ایک بڑ ا خزانہ ہے۔ عدالت میں 13,515صفحات پر مشتمل دستاویزات کے علاوہ 28جلدوں پر مشتمل 16,111صفحات پر مشتمل کیس فائلز دائر کی گئی ہیں۔ کئی شہرہ آفاق کتابیں Oxford Constitutional Theory, The Federal Contract اور The Transfer of Power by V P Menonبھی کورٹ کے سپرد کر دی گئی ہیں اور وکلا دلائل کے دوران ان کو ریفر کر رہے ہیں۔ لیکن جس ایک کتاب کے حوالوں کو سب سے زیادہ عدالت اور وکلا نے سوالات یا دلائل کے دوران استعمال کیا ہے وہ شہرہ آفاق مصنف اے جی نورانی کی مدلل کتاب Article 370: A Constitutional History of Jammu and Kashmir ہے۔ نورانی صاحب اس وقت خاصے علیل ہیں۔ بطور ایک ریسرچر کے اس کتاب کے ساتھ منسلک ہونے کا مجھے فخر حاصل ہے۔ ابھی تک آٹھ نامور وکلا نے اپنے دلائل مکمل کر دیئے ہیں۔ ان میں کپل سبل، گوپال سبرامنیم، راجیو دھون، دشانت دوئے، شیکھر ناپھاڈے، دیمشیش دیویدی، ظفر شاہ اور چندر ادھے سنگھ شامل ہیں۔ ابھی نو اور وکلا اگلے چند روز میں دلائل پیش کریں گے۔ ان میں پرسانتو چندر سین، سنجے پاریکھ، گوپال کرشن نارائینن، مینیکا گوروسوامی، نتیا راما کرشنن، منیش تیواری، عرفان حفیظ لون، ظہور احمد بٹ، پی وی سریندر ناتھ ہیں۔ اس کے بعد سرکاری وکلا جوابی دلائل پیش کر یں گے۔ اس طرح یہ سماعت اختتام کو پہنچ جائے گی۔ چیف جسٹس چندرچوڑ کے علاوہ پانچ رکنی بنچ میں جسٹس ایس کے کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گاوائی اورجسٹس سوریہ کانت شامل ہیں۔ معروف وکیل کپل سبل نے 2اگست کو بحث کا آغاز کرتے ہوئے ججوں کو یاد دلایا کہ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کیس کی سماعت میں عدالت کو پانچ سال لگے۔یہ اس لیے بھی تاریخی ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں، جموں و کشمیر میںکوئی نمائندہ حکومت نہیں ہے۔ اس کے بعد، سبل نے تاریخوں کی ایک فہرست پڑھی، جس میں ان عوامل کی طرف نشاندہی کی گئی کہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ کیوں دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کیلئے ایک الگ د ستور ساز اسمبلی تشکیل دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ خود کو دستور سا ز اسمبلی میں تبدیل نہیں کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار جب آئین منظور ہو جاتا ہے، تو ہر ادارہ اس پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ انہوں نے 1846 کے معاہدہ امرتسر سے لیکر 1947 کی دستاویزالحاق کی شقوں کو بنیاد بنا کر تقریبا ڈھائی دن تک بحث کی۔ انہوں نے گورنر جنرل لارڈ مانٹ بیٹن کا وہ خط بھی پڑھا، جس میں انہوں نے الحاق کے سوال کو عوامی رائے کے ذریعے طے کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان دستاویزات کے مطابق بھارت کی دیگر ریاستوں کے برعکس جن کے لیے ”بقیہ اختیارات” یونین یعنی وفاق کے پاس ہیں، جموں و کشمیر کے لیے بقایا اختیارات ریاست کے پاس ہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا: ”میرا نقطہ یہ ہے کہ حکومت ہند اور ریاست کے درمیان ایک مفاہمت تھی کہ ان کی ایک آئین ساز اسمبلی ہوگی جو مستقبل کے لائحہ عمل کا تعین کرے گی۔ سبل نے کہا کہ آرٹیکل 370 ایک عارضی انتظام اس لئے تھا کیونکہ یہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کو طے کرنا تھا کہ وہ اس کو مستقل بنیادوں پر رکھنا چاہتی ہے یا منسوخ کرنا چاہتی تھی۔ اس دوران چیف جسٹس نے بار بار پوچھا کہ آئین ساز اسمبلی تو سات سال کی مدت ختم کرنے کے بعد اس دفعہ پر کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ہی تحلیل ہوگئی، تو ا ب اس دفعہ کی ترمیم وغیرہ کیلئے کیا طریقہ کار ہے؟ سبل نے استدلال پیش کیا کہ چونکہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا وجود ختم ہو گیا ہے، اس لیے آرٹیکل 370 کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا، آرٹیکل 370 کی شق (3) ناقابل اطلاق ہو جاتی ہے۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر سبل کی طرف سے پیش کردہ استدلال کو مدنظر رکھا جائے تو آرٹیکل 370، جو کہ ایک ”عبوری پروویژن” ہے، مستقل پوزیشن کا کردار ادا کرتا ہے کیونکہ اب کوئی آئین ساز اسمبلی موجود نہیں ہے۔ جسٹس کانت نے یہ بھی استفسار کیا کہ آرٹیکل 370 کو کیسے عارضی سمجھا جا سکتا ہے جب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس دفعہ کو کبھی منسوخ نہیں کیا جا سکتا؟ جسٹس کھنہ کے مطابق جس مسئلے پر توجہ دینا باقی ہے وہ یہ ہے کہ کیا آرٹیکل 370 کی عارضی نوعیت جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی موروثی عارضی نوعیت سے ہم آہنگ ہے؟یعنی، ایک بار جب جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا وجود ختم ہو گیا، کیا آرٹیکل 370 کی شق (3)، جو آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کی اجازت دیتی ہے، ناقابل عمل بن جاتی ہے۔بحث کے دوسرے د ن سبل نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 370(1) کی شق (b)(i) بھارتی پارلیمنٹ کے وفاق کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کے اختیارات کو محدود کرتی ہے اور بھارتی آئین کے ساتویں شیڈول کی کنکرنٹ لسٹوں میں الحاق کی دستاویز میں مذکور مضامین کے سلسلے میں جموں و کشمیر حکومت کی ”مشاورت” کا لفظ درج ہے۔ دوسری طرف، آرٹیکل 370(1) کی شق (b)(ii)، پارلیمنٹ کو یونین کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کے اختیار میں توسیع کرتی ہے اور آئین کے ساتویں شیڈول کی ہم آہنگ فہرستیں معاملات کا احترام کرتی ہیں۔اس سماعت کے آغاز میں، چیف جسٹس نے آرٹیکل 370 پر چند مشاہدات پیش کیے: ”آرٹیکل 370(1) کی شق (b) پارلیمنٹ کو ریاست جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کا اختیار نہیں دیتی۔ یعنی قانون بنانے کااختیار آرٹیکل 370(1)کے علاوہ کہیں اور ہے۔اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے جسٹس کول نے کہا کہ آرٹیکل 370(1) کی شق (b) ایک محدود شق ہے۔ جسٹس کول نے مزید کہا کہ آرٹیکل 370(1) کی شق (b)(i) کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کی بھارتی پارلیمنٹ کی طاقت دو چیزوں پر محدود ہے۔سب سے پہلے، پارلیمنٹ کا دائرہ جموں و کشمیر پر لاگو قوانین بنانے کا اختیار صرف ”یونین اور کنکرنٹ لسٹ” کے معاملات تک محدود ہے۔دوسرا، ”حکومت جموں و کشمیرکے ساتھ مشاورت” یونین اور کنکرنٹ لسٹوں میں ایک شرط ہے جو دستاویز الحاق کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ یعنی جموں و کشمیر سے متعلق کسی بھی معاملے میں ریاستی حکومت کی آمادگی اور رائے کی ضرورت ہے۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز