14اگست کو ہر سال ہم یوم آزادی مناتے ہیں۔ آزادی کیا ہوتی ہے، اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو غلام رہا ہو یا جس نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی ہوں مگر شاید ہم بھول گئے کہ اس آزادی کیلئے جو جمہوری جدوجہد1857 میں شروع ہوئی تھی، اس کو کچلنے کیلئے بغاوت جیسے قوانین لائے گئے جن میں ایک آفیشل سیکریٹ ایکٹ بھی تھا۔ قیدی بدل گئے، سزا دینے والے بدل گئے، قوانین آج بھی لاگو ہیں، بس فرق اتنا ہے کہ کل تک ان قوانین کی مخالفت کرنے والے آج اس کا دفاع کررہے ہیں۔ ایوان صدر کی راہداریوں میں جو کچھ ہوا اور ہورہا ہے وہ محض ایک اتفاقیہ واقعہ نہیں پوری ایک داستان ہے، نہ جانے کب تماشہ ختم ہوگا۔ اہم بات یہ نہیں کہ قانون کیسے بنا بلکہ قانون کیا بنا۔ آئین1973خداحافظ،ہائبرڈ جمہوریت کا بول بالا ہے اسلام آباد میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت قائم ہوگئی ہے۔جہاں ان کیمرہ ٹرائل ہوگا اور یوں ہم ایک نئی تاریخ لکھنے جارہے ہیں، جمہوری مارشل لا کی۔
محترم عارف علوی صاحب پیشہ کے اعتبار سے دانتوں کے ڈاکٹر ہیں مگر صدر بننے کے بعد وہ چلے تھے کینسر کا علاج کرنے، اب نسخہ کہیں کھوگیا ہے تو پہلا سوال تو انہی سے بنتا ہے کہ آخر نسخہ میں لکھا کیا تھا، کمپاؤڈر کون تھا۔ ہٹ وکٹ تو وہ ہوگئے ہیں، تھرڈ ایمپائر کے فیصلے کا انتظار ہے۔ معاملات زیادہ بگڑے تو کہیں وہ خود اسی قانون کی زد میں نہ آ جائیں۔ جب تک وہ صدر ہیں مقدمات سے بچے ہوئے ہیں مگر وہ وقت بھی آن پہنچا ہے۔ 9 ستمبر کو اپنے عہدہ سے ریٹائر ہورہے ہیں، آئین و قانون کے لحاظ سے وہ تب تک صدر رہ سکتے ہیں جب تک نئے صدر کا انتخاب نہیں ہوجاتا، جس میں تاخیر کا امکان ہے، اب اگر کھیل لمبا ہے تو ان کا وکٹ پر رہنا مشکل ہے، ویسے بھی ہمیں آئین اور قانون پر چلنے کی عادت نہیں۔
حضور جس ملک میں اقتدار مقبولیت نہیں قبولیت کی بنیاد پر دیا جاتا ہو وہاں پارلیمنٹ نے ایسے قوانین منظور کیے ہیں جو دراصل ان کے اپنے وارنٹ گرفتاری ثابت ہوں گے۔ جن دوستوں کا خیال ہے یہ ہائبرڈ ماڈل2018 کی پیداوار ہے، وہ غلط فہمی دور کرلیں۔ یہ سب سے پہلے لاگو ہوا 1988 کے انتخابات کے بعد جب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید مقبولیت کے عروج پر تھیں مگر قبولیت نہیں ہورہی تھی، اس وقت معاملہ ایوان صدر میں اپنا صدر لانے کا تھا۔ الیکشن جیتنے کے بعد ان کو ایک فہرست تھما دی گئی، جس پر لکھا تھا صدر غلام اسحاق خان، وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب اور وزیر خزانہ، غالبا ڈاکٹر محبوب الحق، مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ISI کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے ان کا راستہ روکنے کیلئے اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا مگر پی پی پی نے پھر بھی الیکشن جیت لیا۔ اب سارا دباؤ اقتدار کی منتقلی کا تھا۔ ایوان صدر18ماہ سازشوں کا گڑھ رہا۔
جب محترمہ نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو شکست دے دی تو اسی ایوان صدر کی راہداریوں میں شاید اس لاڈویژن میں جہاں سے مبینہ طور پر ان دو بلوں کو تلاش کیا جارہا ہے جو کسی بل میں چھپ گئے ہیں، اس وقت ایک سمری تیاری کی گئی، محترمہ کی حکومت کو ختم کرنے کی۔ سخت ہدایت تھی کہ وزیراعظم کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ وہ بھی اگست کا ہی مہینہ تھا۔ 4اگست کی صبح ایک انگریزی اخبار دی نیشن میں جناب عارف نظامی مرحوم کی خبر تھی کہ آج بے نظیر حکومت کا خاتمہ ہونے جارہا ہے۔ محترمہ صدر صاحب سے مل کر آئیں تو خاصی مطمئن تھیں اور شاید انہوں نے نظامی صاحب سے بات بھی کی تھی کہ خبر غلط ہے اور آپ نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ شام سے پہلے ہی ان کی حکومت چلی گئی (B) 58-2 کے تحت۔
بات اگر یہیں پر ختم ہوجاتی تو غنیمت تھا، پھر اسی ایوان صدر میں ایک الیکشن سیل بنایا گیا جو ابتدا تھی مشہور زمانہ اصغر خان کیس کی، جس کے انچارج مبینہ طور پر اسحاق خان کے پرانے ساتھی اور بیورو کریٹ روئیداد خان صاحب تھے۔ اس کیس کی فائل بھی کہیں کھو گئی ۔ اب بھی ہماری بدقسمتی ہے کہ جو کچھ ہمارے حکمران اپنے سیاسی مخالفین کیلئے کرتے ہیں، اس کا شکار بعد میں وہ خود ہوجاتے ہیں۔ اس سیل کا قیام1974 میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کو دبانے کیلئے کیا تھا، جس کو استعمال آنے والے وقتوں میں جنرل ضیا اور جنرل مشرف نے کیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
صدر فضل الہی چوہدری ہوں، رفیق تارڑ، فاروق لغاری یا عارف علوی انہیں قبولیت کے ساتھ ہی چلنا پڑتا ہے ورنہ تو بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اب ان دو بلوں پر آپ نے دستخط نہیں کیے تو وہ ہیں کہاں ؟اس فہرست میں کیوں نہیں شامل جو ایک درجن سے زیادہ بل واپس بھیجے گئے، دستخط کیے بغیر اور جن پر نہ کرنے کی غالبا وجوہات بھی لکھی گئی ہیں۔ وکٹ کے دونوں طرف کھیلیں گے تو کھیل سے آؤٹ ہوجائیں گے۔ یہ باتیں تو اس وقت سوچنے کی تھیں جب قبولیت ہوئی تھی آپ کی بھی اور آپ کے لیڈر کی بھی، مگر اہم بات یہ نہیں ہے کہ وہ بل کہاں ہیں، بلکہ وہ بل ہیں کیا اور کس نے منظور کیے اور آج لاگو بھی ہیں اور ماشا اللہ عملدرآمد بھی تیزی سے شروع ہوگیا، جس کے غالبا پہلے شکار عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر سمیت کچھ پی ٹی آئی کے لوگ توہیں ہی مگر پشتون تحریک کے رہنما علی وزیر بھی ہوگئے، ان کے ساتھ بھی عجیب سلوک ہورہا ہے کئی سال سے۔ شاید یہ ساری کارروائیاں مسلم لیگ (ن) یا پی ڈی ایم یا پی پی پی کے رہنماؤں کیلئے مسرت کا باعث ہوں کیونکہ خان صاحب نے ان کے ساتھ بھی یہی کیا تھا، البتہ دونوں یہ بھول گئے ہیں کہ آنے والے وقت میں کیا ہونے والا ہے۔ اس قبولیت کے چکر میں1973 کے آئین کو خدا حافظ کہہ دیا گیا ہے۔
میں تو14اگست کے حوالے سے40سال بعد ہی سہی شاہی قلعہ میں بدترین ٹارچرکا شکار ہونے والی فرخندہ بخاری پر لکھنا چاہتا تھا جنہیں پہلی بار کوئی تمغہ تو ملا، وہ الگ بات کہ جب23مارچ کو یہ انعام ملے گا تو وہ وصول کرنے کیلئے دنیا میںموجود نہیں۔ ایک فرخندہ ہی کیا انعام کی مستحق بہت سی ایسی ہی خواتین موجود ہیں شاہدہ جبیں جن کا دو ہفتہ پہلے انتقال ہوا۔ عابدہ ملک، نصرت تارڑ، کنیز یوسف وغیرہ۔
ایسی جمہوریت کا انتظار رہے گا جب بعداز مرگ ہی سہی ملک میں جمہوری جدوجہد کے پہلے سپاہی اور شہید حسن ناصر کو بھی تمغہ ملے۔ آج بھی اٹک قلعہ، اٹک جیل، کوٹ لکھپت، اڈیالہ جیل اور کراچی سے خیبر تک جیلوں میں سیاسی قیدی موجود ہیں جو نہیں وہ لاپتہ ہیں عرفان صدیقی صاحب کے بل اور سیکرٹ ایکٹ کی طرح۔
بشکریہ روزنامہ جنگ