پاکستان کی اصل بیماری! …. تحریر : انصار عباسی


جڑانوالہ واقعہ نے دل اداس کر دیا۔ بحیثیت مسلمان، بحیثیت پاکستانی اور بحیثیت انسان جس نظر سے بھی اس واقعہ کودیکھیں دل رنجیدہ ہوتا ہے۔ ہم تو مودی کے بھارت کے بارے میں کہتے تھے کہ وہاں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑتوڑے جا رہے ہیں، پر ہمارے اپنے پاکستان میں یہ کیا ہو گیا۔ چند افراد پر گستاخانہ عمل کا الزام لگا، اطلاعات کے مطابق پولیس نے ایف آئی آر بھی درج کرلی لیکن ایک ہجوم کو اکسا کر باہر نکالا گیا جس نے بغیر سوچے سمجھے پندرہ بیس چرچ جلا دیے، علاقے کی مسیحی برداری کے گھروں کو تباہ کر دیا۔ جیسا کہ محترم مفتی تقی عثمانی نے اس موقع پر کہا کہ یہ واقعہ پوری قوم کے لیے شرمناک ہے اگر کسی نے کوئی گستاخی کی تو اس کا قانونی راستہ موجود ہے لیکن اس کے ردعمل میں گرجا گھروں کو جلانا یا پرامن مسیحی شہریوں کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا انتہائی قابل مذمت ہے اور اسلام میں ایسی حرکتوں کی کوئی گنجائش نہیں۔

جب سوئیڈن، ڈنمارک یا کسی دوسرے مغربی ملک میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے کوئی گستاخانہ عمل کیا جاتا ہے تو ہمارا دل کتنا دکھتا ہے، ہم کتنی تکلیف میں ہوتے ہیں اور ایسے واقعات کی مذمت اور انکی روک تھام کے مطالبہ کے ساتھ ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا دین تو ہمیں دوسروں کے مذاہب یا ان کے ماننے والے کے ساتھ کسی ایسے رویے کی اجازت نہیں دیتا اور یہی سچ ہے۔لیکن اس سچ کے باوجود جڑانوالہ کا واقعہ کیوں پیش آیا؟؟ یہ پہلا واقعہ نہیں، ایسا ماضی میں بھی ہو چکاہے۔ ہم نے کیوں مودی کے بھارت کے ساتھ اپنے آپ کو لا کھڑا کیا ،جب کہ ہمارا اسلام تو ہمیں اقلیتوں ، ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت اور ان کے حقوق کی فراہمی کی تعلیم دیتا ہے۔ اب ہم کس منہ سے بھارت میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بات کریں گے؟ جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو حکومت اور دوسروں کی طرف سے یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ ایسا عمل اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اس موقع پر اسلامی تعلیمات کا حوالہ بھی دیا جاتاہے لیکن جو کام کرنا چاہیے، ہم میں موجود جس بڑی بیماری کا علاج ہوناچاہیے، وہ نہیں کیا جاتا۔وہ بیماری ہے معاشرے میں تربیت اور کردار سازی کا نہ ہونا ،جس کی وجہ سے ہم ایسے بگاڑ کا شکارہیں جسے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی اور جس کی وجہ سے ہمیں بدترین اخلاقی اورمعاشرتی زوال کا سامنا ہے اور آئے روز وہ وہ کچھ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ انسانیت شرما جائے۔جن اسلامی تعلیمات کی بات کی جاتی ہے ان کی تعلیم اور تربیت کا نظام کیا ہمارے معاشرے میں موجود ہے؟ کیا ہماری ریاست، حکومت، سیاست، جمہوریت، تعلیمی ادارے، مدارس، مساجد، خاندان، معاشرہ، میڈیا کو ذرہ برابر بھی احساس ہے کہ تربیت اور کردار سازی کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم جس اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو چکے ہیں یہ دراصل وہ بیماری ہے جو ہماری ہر خرابی کی جڑ ہے۔ رانی پور میں ایک معصوم کمسن ملازمہ پر جو ظلم ہوا کیا وہ کسی ایسے معاشرے میں ممکن ہے جہاں اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ تربیت اور کردار سازی کا رجحان ہو؟ جہاں حسن سلوک، احسان اور چھوٹوں پر شفقت کی تعلیم دی جاتی ہو اوراس بنیاد پر معاشرے کی تربیت کا نظام موجود ہو وہاں جج یا اس کا خاندان تو کیا کوئی عام فرد بھی کم عمر ملازمہ کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا سکتا ہے۔؟ جہاں تربیت اور کردارسازی کے نہ ہونے کی وجہ سے ہر قسم کی خرابیاں عام ہوں، برائیاں اور جرائم پھیل رہے ہوں وہاں اگر جزا اور سزا کانظام بھی ناکارہ ہو تو پھر اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جس کا ہمیں پاکستان میں سامناہے۔ہمارا بھی کیا معاشرہ ہے ،جہاں اعلی تعلیمی اداروں میں ہماری بچیوں کی عزتیں محفوظ نہیں، عورت باہر نکلے تو اس کو ہراساں کیا جاتا ہے، بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیس عام ہیں، ہر قسم کی بے ایمانی، ملاوٹ، سفارش، ر شو ت ، دھونس دھاندلی رواج پا چکی ہے ، یہاں ظالم محفوظ اور مظلوم غیر محفوظ ہے، جھوٹ، دغا بازی پر کوئی شرم نہیں۔ایسے میں بس ایک کے بعد ایک سانحے کا انتظار ہوتا ہے۔ نہ ظالم کو سزا ملتی ہے نہ معاشرے کی اصل بیماری کے علاج کے بارے میں کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے اور یوں ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ پستی کے سفر پر گامزن ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ