میں آپ سے کہہ تو دیتا ہوں کہ آج اتوار ہے۔ دوپہر کے کھانے پر اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں۔ بہوؤں اور دامادوں کے ساتھ بیٹھیں۔ ان کے سوالات کے جوابات دیں۔ اندر سے میں جانتا ہوں کہ یہ کتنا مشکل کام ہے۔ حالات کتنے نازک ہوتے جارہے ہیں۔ مجھے جواب دینے مشکل ہورہے ہیں۔ نواسہ پوچھتا ہے۔ جڑانوالہ میں ہم نے اپنے غیر مسلم ہم وطنوں کے چرچ اور گھر کیوں جلائے ؟ پوتا سوال کررہا ہے کہ نگراں وزیراعظم نے دو درجن افراد پر مشتمل کابینہ کیوں بنائی ہے۔ نواسی دور سے ہی کہہ رہی ہے۔ نانا یہ ڈالر اتنا مہنگا کیوں ہورہا ہے۔ بڑی پوتی کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ یہ پیر ایسے ہوتے ہیں، دس سال کی بچی کو مار دیتے ہیں۔
آپ کیلئے بھی یقینا ًیہ مرحلہ بہت دشوار ہوتا ہوگا۔ مگر یہ معمول ناگزیر ہے۔ آپس میں تبادلۂ خیال ذہن سے بوجھ ہٹانے کیلئے۔ ورنہ نفسیاتی اعتبار سے بچے بزرگ اپنے آپ کو لق و دق دشت میں محسوس کرنے لگتے ہیں۔
’’خزاں کا موسم اس شدت سے آیا کہ پتے پتے کی جوانی جل گئی۔ چمن میں ہر طرف خاموشی بکھری پڑی تھی کوئل کی کوک تھی نہ بلبل کے چہچہے چمن میں یہ خاموشی کیوں نہ ہوتی کہ پھول تھے نہ تتلیاں، نہ کلیاں نہ ان کا رس چوسنے والے بھنورے، اتنے میں قریب ہی کہیں سرگوشیاں سنائی دینے لگیں خزاں کے ہاتھوں خشک درختوں کے پتے، بے جان پھول اور سوکھی ٹہنیاں، سرد آہیں بھرتے ہوئے اپنے حسین ماضی کو یاد کررہے تھے،آہ وہ باد بہاری، پھولوں اور خوشبوؤں کی پکی یاری، مستیاں، شوخیاں، شادمانیاں، کامرانیاں، صبحیں اور شامیں، شہد کی مکھیوں کی محنت، بھنوروں کی جفا، ’شبنم کے آنسو یہ اور ان جیسے اور کتنے تحفے تھے، کتنے ہنگامے تھے، جو بہار کے موسم کے ساتھ ہی ختم ہوگئے۔‘‘
(کتاب۔ منتخب ہندکو افسانے۔ انتخاب و ترجمہ سید ماجد شاہ۔ ’ افسانہ میرا چمن میری بہار‘ افسانہ نگار۔ ش۔ شوکت ناشر۔ اکادمی ادبیات پاکستان)
پشتو اور ہندکو کو ادب میں احباب کے توسط سے اتنا سرمایہ مل رہا ہے کہ لکھتے جائیں۔ بات پوری نہ ہو۔ ایک دلچسپ اتفاق یہ ہوا ہے کہ جدید پشتو۔ ہندکو شاعری کو سوشل میڈیا کا خوبصورت اور تیز رفتار سہارا مل گیا ہے۔ قراقرم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی وساطت سے ملنے والے حقائق میں کہا گیا ہے کہ پشتو پٹی کے اکثر کم پڑھے لکھے ان پڑھ نوجوان خلیجی ممالک میںمزدوریاں کرتے ہیں۔ ان کو اپنے پیاروں سے بات کرنے کے لیے ٹیپ ریکارڈر کے کیسٹ کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ لیکن دل کی باتیں پرائیویسی کی وجہ سے ممکن نہیں ہوتی تھیں۔ گزشتہ دس پندرہ سال سے پشتون معاشرے میں دوسرے معاشروں کی طرح موبائل فون عام ہوگیا ہے۔ اب کھل کر باتیں ہوتی ہیں۔ آج سے دو عشرے پہلے تک جتنی رومانی شاعری ہوئی ہے۔ اس میں گودر، ریبار، بام کی اصطلاحات بہت ملتی تھیں۔ بام، چھت پر آنا محبوب اور عاشق کے درمیان مختصر سی جھلک کا سبب بنتا تھا۔ اب موبائل کے بعد بام کی ضرورت نہیں رہی۔ گودر، پانی بھر کر لانے کی جگہ کو کہا جاتا تھا۔ ’ترنجن‘ کا متبادل ۔ مقام ملاقات۔ یہ بھی اب شاعری سے نکل رہا ہے۔’ریبار‘ نامہ بر کے لیے ، موبائل نے ریبار ماما کا کردار بھی ختم کردیا ہے۔
اکادمی ادبیات پاکستان کی پیشکش۔ پشتو ادب کی تاریخ۔ (1947۔ تاحال) ڈاکٹر حنیف خلیل کی تحقیق ہے۔ جس میں ناول، افسانہ،ڈراما، سفر نامہ، رپورتاژ نگاری، انشائیہ نگاری، خاکہ نگاری، تحقیق، تنقید، نظم نگاری، غزل کے حوالے سے جدید ترین لکھنے والوں سے بھی تعارف ہورہا ہے۔ پشتو کی جدید غزل نائن الیون کے واقعے سے بہت متاثر ہوئی ہے۔ سیف الرحمن سلیم مرحوم کے آخری مجموعۂ کلام کا نام ملاحظہ کیجئے۔’’ دوا و ورد خدایا نودی بندہ کرم‘‘ ( اے خدا میں ترے چھوٹے چھوٹے خداؤں کا بندہ بن گیا ہوں‘‘۔ ایک غزل کا شعر۔ ’’میری قوم کا ہر فرد جب قتل ہوتا ہے تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں ہی مررہا ہوں۔‘‘ علی اکبر سیال کا بھی نائن الیون کے حوالے سے خصوصی ذکر ہوتا ہے۔ ’’ وہ اپنے وطن میں تو جنگ کے وعظ نہیں کرتے۔ مگر اس ذلت کو میرے گھر لے آئے ہیں۔ وہ لوگ جو تسبیح کے دانوں پر خدا کی توصیف کرتے تھے۔ آج کل انسانوں کے سروں کا کاروبار کرتے ہیں۔ میں تو ہر انسان کا سر سلامت چاہتا ہوں اپنے لیے بھی اور تمام جہاں کے لیے امن کا خواہاں ہوں میں جنگ کے شعلوں کو ہوا نہیں دیتا۔ مجھے فرنگیوں کا یہ کام نہیں کرنا۔‘‘ کوئٹہ کے شاعر درویش درانی کیا خوب کہتے ہیں۔’’ دوسروں کو جنگ کی ترغیب دیتے وقت قرآن کی قسم بھی دیتے ہو۔ مگر خود اس نیک کام میں حصّہ نہیں لیتے۔ جنگ جیتنے کیلئے میرے بھائی سے لڑاتے ہو۔ مگر اصل دشمن کو صحیح سلامت ہمارے درمیان سے نکال دیتے ہو۔ ہر طرف سے زخموں ہی زخموں کی خبر آتی ہے اس لیے درویش خدا سے ملتجی ہے کہ اس وطن کو ان سرخ پرندوں سے نجات مل جائے۔‘‘ خیبرایجنسی کے نامور شاعر مقدر شاہ مقدر، سوات کے شہاب انڑیز ے، رحمان اللہ درد، کراچی میں رہائش پذیر ، ریاض تسنیم، قیصر آفریدی اور طاہر بونیری نے بھی نائن الیون سے پیدا صورت حال کو غزل کا پیرہن دیا ہے۔ یہ تصویریں، رحمت زلمے مندوخیل، عبدالرحیم رومانی، صوابی کے بخت شیر اسیر،امیر صاد ، ’حلبی دال‘، پشاور کے سلطان محمد سلطان کے ہاں بھی نظر آتی ہیں۔ غزل کے ساتھ ساتھ آزاد نظم، ہائیکو اور تنقید میں بھی پشتو اور ہندکو ادب مالا مال ہیں۔ کالم میں سب ناموروں کا ذکر بہت مشکل ہوتا ہے۔ پھر بھی کچھ نقادوں۔ ڈاکٹر شیر زمان طائزی، ڈاکٹر سہیل انشا، ڈاکٹریار محمد مغموم، صاحب شاہ صابر، ڈاکٹر اظہار اللہ کے نام لائق ذکر ہیں۔غزل میں رب نواز مائل، عمر گل عسکر، سرور سودائی، سہیل جعفر، محمود ایاز۔ بلوچستان سے صدیق پسرلے، سلیمان لائق، عبدالباری جہانی، حبیب اللہ رفیع کی شاعری میں مزاحمت اور رومان دونوں کا امتزاج ہے۔
عبدالمالک فداکہتے ہیں۔’’اس سر زمین سے عبدالمالک فدا کی مٹی کو ہٹادیں۔ جس کا نام غلامستان رکھا گیا ہے۔‘‘….اب ہم بلوچی اور براہوی ادب میں جدید ترین تخلیقی کاوشوں کا رُخ کریں گے۔ وہاں سے بھی ہمیں اپنے احباب سے بہت خوبصورت تحائف مل رہے ہیں۔
اکادمی ادبیات پاکستان نے پاکستان کی مرکزی قومی زبان اُردو کے ساتھ ساتھ قومی زبانوں۔ پنجابی،سرائیکی، سندھی، پشتو، ہندکو، بلوچی براہوی میں نئی پرانی آوازوں سے روشناس کیا ہے۔ ڈاکٹر یوسف خشک نے ڈائمنڈ جوبلی کے حوالے سے پاکستانی ادب سے متعلق تفصیلات یکجا کرنے کا حق ادا کردیا ہے۔ اب ڈاکٹر نجیبہ عارف پہلی خاتون چیئرمین کی حیثیت سے مسند سنبھال چکی ہیں۔ امید کرنی چاہئے کہ اُردو میں قومی زبانوں کے جدید شاعروں، افسانہ نگاروں، ناول نویسوں نقادوں کو متعارف کروانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ