وقت کے منصف : تحریر محمد اظہر حفیظ


وقت کے منصف ہماری قسمتوں کےفیصلے بھی خود ہی کرجاتے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ ہمارے ملک میں ماپنے والے آلات کی ضرورت ہے بھی یا نہیں ۔ کچھ تو فالتو کے ترازو عدالتوں کے باہر بھی نصب ہیں۔ میری چھوٹی بیٹی پوچھتی ہے بابا جی یہ پیمانہ کیاہوتا ہے۔ شرمندگی سے جواب دیا بیٹا کم تولنے، کم ماپنے والے آلے کو پیمانہ کہاجاتا ہے۔
میں جب بھی کہیں ترازو دیکھتا ہوں خود ہی سوچ لیتا ہوں یہاں پورا نہیں تولا جاتا بے شک وہ عدالت کے باہر ہو یا کسی دکان پر۔ ہر جگہ اس کا کام کم تولنا ہی ہے۔ بے یقینی بھی ہمارا ایک قومی اور اجتماعی مسئلہ ہے۔ ہمیں ہر بات کے ساتھ یقین دلانے کیلئے قسم کھانا ضروری ہے۔ یقین پھر بھی کوئی نہیں کرتا۔ ہم اللہ باری تعالی کے احکامات کو بھی نعوذ باللہ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جب اللہ باری تعالی قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری لیتے ہیں تو پھر ہم کون ہیں ۔ جو اللہ کے کام میں مداخلت کرتے ہیں۔ اللہ پرمکمل یقین رکھیں وہ بہتر حفاظت کرنے والے ہیں۔ ہم نے بہت سے خود ساختہ پیر، فقیر مرشد پال رکھے ہیں جن کی ڈائریکٹ ڈائلنگ آسمانوں تک ہے۔ وہ ایسے واقعات کو نعوذباللہ کیوں نہیں روکتے کیوں کہ وہ اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ بے شک اللہ ہی دونوں جہانوں کا مالک ہے اور وہ ہی سب نظام چلاتا ہے۔ اللہ کے کام اللہ کو کرنے دیں پلیز اس میں مداخلت کرکے شرک نہ کریں۔
ایک ایسا ملک جہاں ہر چیز میں ملاوٹ ہے ہر ترازو کم تولتا ہے ۔ آن لائن آپ قبروں پر چادریں اور دیگیں چڑھا سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ ترقی یافتہ ملک کون سا ہوگا۔ اگر آپ عشق رسول صلی الله عليه وسلم کے دعویدار ہیں تو درخواست ہے نبی کریم صلی الله عليه وسلم کی تعلیمات پر مکمل عمل کیجئے، ان کے مطابق زندگی گزاریے، نئی رسومات کو پلیز دین مت سمجھئے ان بدعتوں سے بچئے۔ قرآن مجیدکی آیات کے اپنی ضرورت کے مطابق تراجم مت کیجئے۔ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے ۔ اس کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے مت استعمال کیجئے۔ عملی مسلمان بنئیے کہ غیر مسلم آپ کے عمل کو دیکھ کر اسلام کی طرف راغب ہوں۔
دینی تعلیمی اداروں کو جدید خطوط پر استوار کیجئے۔ امام مسجد صاحب کیلئے سی ایس ایس طرز کا امتحان بنائیے جو دینی اور دنیاوی علوم پر مبنی ہو۔ تاکہ فرقوں کی آگ کو بجھایا جا سکے۔
اگر صرف ترزاو کا استعمال بنیادی سطح سے ٹھیک کر دیا جائے سب کچھ ہر سطح پر ٹھیک ہو جائے گا اور پاکستان ٹھیک ہوجائے گا انشاء الله ۔
عوام اپنے آپ کو ٹھیک کرلیں پھر دیکھتے ہیں ادارے کیسے ٹھیک نہیں ہوتے۔ جب میں خود غلط ہوں تو کسی دوسرے کے ٹھیک ہونے کی میں کیسے خواہش کرسکتا ہوں۔ سب سے پہلے مجھے خود ٹھیک ہونا ہوگا۔ ابھی اسی وقت سے۔ تمام دینی اور دنیاوی کام صحیح طریقے سے انجام دینے ہوں گے سب ٹھیک ہوجائے گا۔ کسی کے بھی مذھبی جذبات کو مجروح کرنا نامناسب ہے اور اس حرکت پر اکسانے والے کو تو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ اس ملک میں سب سے زیادہ توہین عدالت کی ہوتی ہے کیونکہ وہ اس کے مواقع بھی سب سے زیادہ دیتی ہے۔ اگر عدالتی نظام اپنے آپ کو توہین سے بچانا چاہتا ہے تو اسے چاہیے اپنی حرکات درست کرے۔
مجھے یاد ہیں سردار نام سنگھ مرحوم ننکانہ صاحب والے ایک تقریب میں کہنے لگے، اسی سارے امن نوں لبھدے پھر دے آں اے کتھے گواچا اے اس نوں کدھی اپنے اندر لبھن دی وی کوشش کرو۔
امن زمانے وچ نہیں ساڈے اندر گواچ گیا جے اندروں لب لو تے دنیا وچ امن ہو جاؤ گا۔ وقت دے منصفو اگر تہانو بے انصافیاں نظر نہیں آندیاں تے مینوں بلا کے پُچھ لو بے شک میرے تے توہین عدالت یا مذھب لا دئیو سب تو سوکھا کم اے ای اے۔ تہانوں سب نوں رب پچھو جیڑا سب تو وڈا منصف اے۔ ڈرو یوم حساب توں۔ جس دن سب دا حساب برابر ہوے گا کوئی سفارش نہیں چلے گی۔