کیا خوشحال پاکستان ، سیاسی استحکام کے بغیر ممکن ہے؟ اگرچہ تاریخ میں ایسا کوئی سبق موجود نہیں، نامساعد حالات میں مثبت سوچ نعمت ِ غیر مترقبہ ہے ۔ نگران وزیراعظم کی تقریبِ حلف برداری میں محترم مجیب الرحمان شامی کی معیت میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے آمنا سامنا ہوا تو چیف صاحب نے شامی صاحب کو مثبت رویوں کو اپنانے اور ترویج کی تلقین کی۔ قطع نظر اس بات کہ محترم مجیب الرحمان شامی صاحب نے اپنے طور ساری زندگی ہمیشہ انتہائی نامساعد صورتحال میں بھی اُمید و بیم کی شمعیں جلائے رکھیں۔ بات خوش آئند کہ چیف صاحب نے اپنا اوڑھنا بچھونا پاکستان کے درخشاں مستقبل سے وابستہ کر رکھا ہے۔ میرے لیے حوصلہ افزا ضرور، چیف صاحب کی پہلی ترجیح پاکستان کو ساتویں آسماں پر دیکھنا ہے۔ میری سوچ کا زاویہ مختلف، سیاسی استحکام کی کوکھ سے خوشحال درخشاں شادآباد پاکستان نے جنم لینا تھا۔ سوال! کیا مملکت بالآخر عدم استحکام سے استحکام کی طرف بڑھ رہی ہے۔
اگرچہ موجودہ بحران کا بیج جنرل راحیل شریف دور میں ’’پروجیکٹ سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کی صورت میں بویا گیا۔ قومی بد قسمتی کہ ہمارے بیشتر فوجی سربراہ توسیع مدتِ ملازمت کے چکر میں ملک کو سیاسی عدم استحکام میں دھکیلنے میں حصہ بقدرِ جثہ ڈالتے رہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان کا کل یوٹیوب چینل پر انکشاف کہ ’’وزیر اعظم نواز شریف اگر جنرل راحیل کو توسیع دے دیتے تو اُنکی حکومت کو دوام بخشا جاتا‘‘۔ ماضی میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کی توسیع اور وطنی سیاسی استحکام لازم و ملزوم رہے۔ جنرل باجوہ نے اپنی توسیع کیلئے ریاست کیساتھ اپنے ادارے کو بھی بھینٹ چڑھا دیا۔ تکرار سے لکھتا رہا، عمران خان سیاست سے نابلد، عادات و اطوار کسی طور حکمرانی سے مطابقت نہیں رکھتے، اگر اقتدار میں آ گئے تو مملکت اور اپنی ذات دونوں کو ہلکان کر دیں گے۔ عمران خان نے اپنے 3 سال 7 ماہ 20 دن اقتدار میں، ایک لمحہـ ’’اٹک جیل‘‘ کا نہ سوچا ہو گا۔ شاید اقتدار سے علیحدگی کے بعد بھی ایک عرصہ تک صَرف نظر رہا۔ البتہ 29 نومبر اور پھر 9 مئی کے بعد اس یقین کیساتھ کہ اگر میری گرفتاری ہوئی تو ملک سنگین سیاسی بحران میں ہو گا، وارے میں تھا۔
جناب بھٹو صاحب 9مئی 1978ءکو راولپنڈی جیل منتقل ہوئے جہاں 5اپریل 1979ءکو پھانسی چڑھا دئیے گئے۔ اُن کے ’’آخری 323دنوں کی کہانی‘‘ کرنل رفیع الدین کی زبانی آخری دنوں کی مصدقہ دستاویز ہے۔ کرنل رفیع الدین بمطابق سرکاری حیثیت بھٹو صاحب سے میل ملاقات میں آزاد تھے۔ کیا عمران خان ’’عوامی حمایت‘‘ کے زُعم میں زندگی کے آخری 323دن اٹک جیل پر اکتفا کرنے پر تیار ہیں؟ بھٹو بے پناہ مقبول رہنما تھے، لیکن دائیں اور بائیں بازو کی لڑائی میں مخالف سیاسی جماعتوں کا اثر و رسوخ بھی عوام الناس میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ سرد جنگ کا زمانہ، امریکی مفادات پاکستان میں مطلق العنانی کیساتھ وابستہ، افغان جنگ میں ڈالروں کی بوچھاڑ، جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو خاطر خواہ سیاسی استحکام ملنے کی بے شُمار وجوہات تھیں۔ یقیناً پاکستان کے روشن درخشاں مستقبل کے بارے میں امدادی وعدے، وسائل کی بوچھاڑ چار سُو تذکرے موجود ہیں۔ یہ سب کچھ تب ہی موثر و میسر ہو گا اگر وطن عزیز سیاسی استحکام کا گہوارہ بنے گا۔ تاکہ سب کا سرمایہ اور امداد کار آمد و محفوظ رہے۔
عمران خان کو ایک مد میں بھٹو پر سبقت حاصل ہے۔ عمران خان کی سیاست اور پبلک سپورٹ اپنے محالفین کے مقابلے میںبہت زیادہ ہے۔ نواب احمد خان قتل کیس مقدمہ بھی سائفر کیس سے زیادہ مضبوط تھا۔ عمران خان کیخلاف انتہائی فیصلہ لینے کیلئے نگران سیٹ اَپ کو اَپ سیٹ کرنا پڑے گا۔ شاید مارشل لا کا سہارا ہی لینا پڑے کہ عدالتی نظام ماورائے آئین و قانون اقدامات میں وارے میں نہیں۔ سیاسی عدم استحکام کی دھجیاں بکھریں گی۔
2014 ءمیں’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ پروجیکٹ ‘‘ کا آغاز ہوا تو ’’پروجیکٹ عمران خان‘‘ کی تزئین و آرائش و تکمیل میں سیاست بھینٹ چڑھ گئی۔ سیاست زندہ درگور ہونے پر ریاست کا جاں بلب ہونا بنتا تھا۔ کئی ہفتوں پہلے انہی کالموں میں لکھ چُکا ہوں کہ الیکشن فروری میں ممکن اگر عمران خان کا مکو ٹھپ دیا گیا۔ مگر کیونکر اور کیسے؟ تو کیا تنگ آمد بجنگ آمد، مارشل لا کے امکانات برابر موجود؟ ایک کاوش دوسری کاوش کی مرہون منت اور پھرکاوشوں کا لا متناہی سلسلہ، نتیجتاً عدم استحکام کی عمیق دلدل حاصلِ اعمال بنتی ہے۔
چیف صاحب، ایک محب وطن کا معمولی مشورہ کہ ’’اقتدار کا وقتی استحکام تو ممکن رہنا ہے، آسودگی تسلی اور تشفی کے ڈنکے بھی بجنے ہیں۔ جاری اقدامات سے دیرپا سیاسی استحکام ناممکن رہنا ہے۔ عمران خان کی آخری خواہش کہ ’اگر میں نہ رہوں تو ریاست نہ رہے‘ کہ شاید اس طرح اداروں سے بدلہ چُکا یا جا سکے، حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ مجھے خدشہ کہ درخشاں پاکستان آپکا خواب ضرور، اس کاحصول کٹھن نظر آتا ہے کہ سیاسی استحکام کا سازو سامان دور دور تک میسر نہیں‘‘۔
تاریخ انسانی گواہ سیاسی عدم استحکام کی موجودگی میں بے شُمار مملکتیں وجود کھو بیٹھیں۔ سیاسی استحکام کیلئے آئین قانون کی حکمرانی اولین شرط ہے۔ مملکت کی بد قسمتی کہ جن کے پاس طاقت آئین کی پامالی اور قانون کی بے حُرمتی میں سب سے آگے ہیں ۔
آرٹیکل 10 (A) قاتل، سیکس ورکرز، ڈاکو، چورہر ایک کو حقِ دفاع گارنٹی کرتا ہے۔ پولیس گرفتار کر سکتی ہے مگر 24 گھنٹے میں عدالت میں پیش کرنے کی پابند بھی ہے۔ دوسری طرف ہر جُرم کی ایک سزا متعین ہے، شاید اداروں کے وارے میں نہ ہو۔میرا بیٹا بیرسٹرحسان نیازی 13اگست کو’’اُٹھا‘‘لیا گیا۔ بے شُمار مثالیں، گرفتاری کے بعد ’’اداروں‘‘ نے چند دن، چند ہفتے، چند مہینے، غیرمعینہ مدت کیلئے اپنے قبضہ میں رکھا تاکہ ادارے’’اپنے آپ کو انصاف‘‘دِلا سکیں ۔کہ آئین اور قانون ہمارے اداروں کو انصاف دلانے سے قاصر ہے۔ اس تگ و دو اور انصاف کے حصول میں ہر ناگہانی امکان موجود ہے۔ حتی کہ کچھ عرصہ بعد ’’انجر پنجر کھڑکا‘‘ یامردہ حالت میں پہنچا کر مطلع کر دیا جاتا ہے۔ کچھ سال پہلے ذہنی معذور صلاح الدین کو ایک ادارہ پولیس سے لے گیا اوردو دن بعد اُس کی لاش پولیس کےحوالے کی کہ یہ توپتہ چل گیا کہ وہ بھارتی جاسوس نہیں بلکہ مسکین صلاح الدین تھا۔ یہ علیحدہ بحث کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کوجو انسانی اور عدالتی حقوق پاکستان میں حاصل ہیں اُسکی حسرت ہم پاکستانیوں کو ہے۔ کل پشاور ہائی کورٹ نے حبس بے جاکی پٹیشن پر حسان خان کو جمعہ کو پیش کرنے کا حکم دیا تو آج (جمعرات) ڈویژن بینچ ہی توڑ دیا گیا۔ میرے لیے میرا اللہ ہی کافی ہے اور حضرت یعقوب کی یہ دُعا، ’’اے اللہ! میں بے بس ہوں میری مددفرما‘‘،مجھے میرے بیٹے کیلئے انصاف دے۔(آمین)
بشکریہ روزنامہ جنگ