باپ رے باپ‘ ہمارے حکمراں : تحریر مظہر عباس


شاعر محسن بھوپالی مرحوم نے برسوں پہلے ہماری سیاست کو اس خوبصورت قطعہ میں سمو دیا تھا

جمہوریت کی خیر ہو، اس مملکت کی خیر

جو وقت کے غلام تھے لمحوں میں بک گئے

چشم فلک نے دیکھا ہے ایسا بھی ماجرا

لاکھوں کے ترجمان کروڑوں میں بک گئے

مجھے یہ قطعہ اس دن بہت یاد آیا جب 2018 میں چیئرمین سینٹ کا انتخاب تھا دونوں امید واروں کا تعلق بلوچستان سے تھا ایک طرف موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی تھے جنہیں سابق وزیراعظم عمران خان، اس وقت کے مقتدر حلقہ اور اسی سال معرض وجود میں آنے والی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی حمایت حاصل تھی تو دوسری طرف اس وقت کی اپوزیشن کے متفقہ امیدوار اور صوبہ کے سابق گورنر میرغوث بخش بزنجو کے فرزند میر حاصل بزنجو مرحوم تھے۔ اپوزیشن کے پاس واضح اکثریت تھی جس کو انہوں نے اجلاس میں کھڑے ہوکرد کھایا بھی مگر جب بیلٹ باکس کھلا تو حاصل ہار گیا اور سنجرانی جیت گئے۔ باپ رے باپ اور خود حاصل کے بقول، میرا مقابلہ سیاستدان سے نہیں فیض سے تھا مجھے تو ہارنا ہی تھا۔ شاید اس وقت کی اپوزیشن بھی اپنی قبولیت کا انتظار کررہی تھی اس لیے انہوں نے اپنے اندر سے دبک جانے والوں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جبکہ اصولوں پر یقین رکھنے والے کپتان اور ان کے حواریوں نے اسے سینیٹرز کی ضمیر کی آواز کہا۔ ساڑھے تین سال بعد وقت نے کروٹ لی ضمیر پلٹ گیا اور خان صاحب کو جو لوگ لائے تھے انہوں نے ہی گھر بھیج دیا اس بار اسے ضمیر کے مطابق ووٹ دینے والوں نے کپتان کے خلاف ووٹ کہا۔

جو کچھ 2018 میں سینٹ میں ہوا وہ ہماری سیاست میں اسی سینٹ میں پھر ہوا اور اس بارتو خفیہ کیمرے نے اسے محفوظ بھی کیا مگر نہ کوئی تحقیق نہ کوئی کارروائی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی قومی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود سینیٹر بھی بنے، چیئرمین سینیٹ کے امیدوار بھی اور پھر قائد حزب اختلاف بھی۔ سنجرانی پھر جیت گئے۔ باپ رے باپ، ہماری سیاست۔ لفظ احساس محرومیکا بھی خوب استعمال ہوتا ہے۔ ایک بار میں حاصل بزنجو کے ساتھ انکے والد کا انٹرویو کرنے کراچی میں ان کے دوسرے بیٹے بیزن کے گھر گیا میں نے پوچھا میر صاحب بلوچستان کا احساس محرومی کیسے دور ہوسکتا ہے۔ ان کا جواب تھا جب ہمارے حکمرانوں کو محرومی کا احساس ہوگا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کا تعلق پنجاب سے تھا مگر 2013 کے الیکشن کے بعد انہوں نے بلوچستان کے حوالے سے ایک انتہائی مثبت سیاسی فیصلہ کیا اور مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہونے کے باوجود اپنے اتحادی بلوچستان کی ہی ایک معتبر سیاسی شخصیت اور نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیراعلی نامزد کیا مسلم لیگ کے صوبائی صدر ثنا اللہ زہری کی مخالفت کے باوجود ۔میں اس دن مری میں ہی تھا جب یہ اجلاس چل رہا تھا میاں صاحب کی موجودگی میں شہباز شریف نے بڑی مشکل سے انہیں منایا مگر انہوں نے مشروط حمایت کی، ڈھائی۔ ڈھائی سال کی وزارت اعلی کے فارمولہ پر۔ ابھی ثنا اللہ جو 2018 میں وزیراعلی تھے ڈاکٹر مالک کے بعد کی مدت پوری نہیں ہوئی تھی کہ ان کے خلاف پارٹی میں بغاوت ہوگئی جس میں بیشتر وہ لوگ شامل تھے جنہوں نے عام انتخابات سے قبل باپ بنائی، باپ رے باپ کیا سیاست اور کیا ہمارا سیاسی مستقبل۔

سینیٹر انوار الحق کاکڑ ہمارے کئی سیاستدانوں کی طرح جماعتیں بدلتے رہتے ہیں ویسے بھی اس صوبہ سے تعلق رکھنے والے منتخب ہوں یا نگراں باپ کے احترام میں ہر فیصلہ قبول کرلیتے ہیں ویسے بھی اس ملک کی سیاست اس وقت بھی اور پہلے بھی بزرگوں کے پاس ہی رہی ہے۔ مگر انوار الحق پڑھے لکھے انسان ہیں اور گوکہ وہ اسکول میں بھی پڑھا چکے ہیں اور بلوچستان یونیورسٹی میں بھی اور تعلیمی مسائل کو بخوبی سمجھتے ہیں مگر کیا وہ اس مختصر وقت میں اس سمت میں کوئی اقدامات کر سکتے ہیں شاید نہیں، ویسے بھی ان کی تمام تر توجہ 90 روز میں عام انتخابات کروانے پر ہونی چاہئے۔انہوں نے احسن فیصلہ کیا اپنی پارٹی اور سینٹ کی سیٹ سے استعفی دے کر ورنہ تو ہمارے حکمرانوں نے ایوانوں کو اپنی اپنی جماعتوں کا گڑھ بنالیا ہے چاہے وہ ایوان صدر ہو، وزیراعظم ہاؤس ہو، گورنر ہاؤس ہو یا وزیراعلی ہاؤس۔ جب آپ وزیراعظم، صدر، گورنر یا وزیر اعلی بنتے ہیں تو آپ ملک یا اپنے صوبہ کے باپ کا درجہ رکھتے ہیں پارٹی کے حصار سے نکل کر لوگوں کی بلا امتیاز خدمت کرنی ہوتی ہے ۔نگراں وزیر اعظم تمام سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف کو ایک ٹیبل پر بیٹھا کر میثاق سیاست پر بات چیت کا آغاز کرسکتے ہیں۔ سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو ایک غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والی اسمبلی کی نمائندگی کرتے تھے مگر انہوں نے ملک کی بڑی جماعتوں کو جو اس نظام کو قبول نہیں کرتی تھیں وزیر اعظم ہاؤس میں دعوت دی اور افغانستان جیسے حساس معاملے پر اعتماد میں لے کرجنیوا گئے اور ایکارڈ کیا۔ آج کی صورتحال میں شاید یہ کام اتنا آسان نہیں خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب سابق وزیراعظم عمران خان اٹک جیل میں تین سال کی قید اور پانچ سال کی نااہلی بھگت رہے ہیں اور ان کی جماعت کے ہزاروں کارکن جیلوں میں ہیں۔ کیا کاکڑ صاحب بہت زیادہ نہیں تو خاں صاحب کو اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل کرواسکتے ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کے قیدی جن پر 9 مئی یا سنگین مقدمات قائم نہیں ہیں ان کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ کیا وہ بحیثیت نگراں جونیجو کی طرح شہری آزادیوں، میڈیا کی آزادی اور الیکشن میں تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلینگ فیلڈ دلواسکتے ہیں۔

دوسرا بڑا کام جو شاید سب سے مشکل نظر آتا ہے وہ بلوچ قوم پرستوں، علیحدگی پسندوں، شدت پسندوں سے مذاکرات کا آغاز کریں۔ اگر طالبان سے بات چیت ہو سکتی ہے تو ان بلوچوں سے کیوں نہیں ۔ بات چیت سے ہی دروازے کھلتے ہیں گھر کے بھی اور دل کے بھی، لاپتہ افراد کا مسئلہ شاید ان کے کیا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اتنا مشکل نہیں جتنا ہم نے بنا دیا ہے۔ جو لوگ اٹھائے گئے ہیں وہ اسی ملک کے شہری ہیں اگر وہ سنگین جرائم میں ملوث ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کریں مقدمہ چلائیں اور سزا دیں، ان کے خاندان کے افراد کو ان سے ملنے دیں، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے وہ اگر ماورائے عدالت مارے گئے تو ان کے والدین اور رشتہ داروں کو اعتماد میں لیں۔ یہ صرف بلوچستان کا ہی نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے کراچی سے خیبر تک۔

کاش پاکستان بننے کے بعد اس ملک سے جاگیرداری اور سرداری نظام کا خاتمہ کردیا جاتا، جمہوریت کی صحیح سمت کا تعین ہوجاتا، نظریہ ضرورت، آمروں کے لیے نہیں جمہوریت کے لیے استعمال ہوجاتا تو آج نہ احساس محرومی کا سوال ہوتا نہ سیاسی محرومیوں کا۔ بلوچستان حساس صوبہ ہے اس کی حساسیت کا احساس کریں نگرانی نہیں اور مسئلہ حل کریں اور یہی کاکڑ صاحب کا کڑا امتحان ہے 90روز صرف 90 روز خدارا !

بشکریہ روزنامہ جنگ