ہم ہر سال 14 اگست کوپاکستان کا یوم آزادی بڑے جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں مگر کچھ عرصہ سے اس میں جوش و جذبے کم اورپاگل پن،بیہودگی اور فضول خرچی زیادہ ہو گئی ہے۔جشن آزادی منانے والوں میں سب سے زیادہ جوش و خروش بچوں میں دیکھنے کو ملتا ہے،سبز ہلالی پرچم،سبز سفید ملبوسات،جھنڈیاں،ٹوپیاں،بریسلٹس،آتش بازی،میوزک کیساتھ اب کچھ عرصہ سے پٹاخے اور عجیب و غریب قسم کے باجے بھی یوم آزادی کا حصہ بن گئے ہیں۔یوم آزادی پرایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ جشن آزادی نہیں بلکہ دو دشمن ممالک کے بارڈز پر جنگ کا سماں ہوجہاں ایک دوسرے پرخوب بمباری کی جا رہی ہو۔جیسے ہی اگست کا مہینہ شروع ہوتا ہے۔ہمارے بچے ہاتھوں میں پٹاخے،ماچس یا لیٹرلیے گلیوں اور چوراہوں پر ایک دوسرے پر پٹاخے اور کانوں میں باجے بجاتے نظر آتے ہیں۔یہ ہجوم پاکستانی شہری کم اور مینٹل ہسپتال کے بپھرے ہوئے پاگل زیادہ لگتے ہیں جو ایک دوسرے پر شوروغل سے حاوی ہونے کی کوشش کر رہے ہوں۔
حواس باختہ یہ ہجوم سوچنے،سمجھنے اوردیکھنے کی صلاحیت سے قاصر ہی لگتا ہے،انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ کسی گھر میں کوئی رات کو دوا لے کر سورہا ہے یا کسی کا لخت جگر سارا دن محنت مشقت میں رہنے کے بعد آرام کی نیت سے لیٹا ہوگا،کسی گھر میں دن بھر کی تھکی ہاری ماں رات یہ سوچتے ہوئے بستر پرگری ہو گی کہ شکر ہے کہ آرام کیلئے رات تو ملی یاکوئی بزرگ رات جلدی کھانے کھا کر اس غرض سے جلدی سویا ہو گا کہ اِسے نماز تہجد کیلئے اٹھنا ہے مگر آرام کہاں !ان ”شرارتی بونوں”کے ہوتے ہوئے آرام کسے نصیب ۔بات صرف پڑوسیوں ،محلے داروں کو تنگ کی نہیں بلکہ یہ ”مخلوق”تو اپنے والدین کے محنت سے کمائے ہوئے پیسے کا بھی ضیاع کرتی نظر آتی ہے۔ہوا کے گھوڑے پر سوار یہ”بونے”صرف ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میںدل کھول کر پٹاخے،باجے اور پتہ نہیں کیا کیا آئٹمزبننے کی کوشش کرتے ہیں۔قصورصرف ان ”بونوں” کا نہیں بلکہ ان کے والدین کا بھی ہے۔جو انہیں پیسے اور اجازت دیتے ہیں۔
یوم آزادی منانے میں ہماری نوجوان نسل بھی کسی سے پیچھے نہیں۔اپنے اڑن کھٹولوں(موٹر سائیکلز)پرسوار یہ نوجوان جشن آزادی نہیں بلکہ اپنی موت کی راہ پر گامزن لگتے ہیں،کہیں بغیر سلنسرکے پھڑ پھڑ کرتے موٹر سائیکلز،تو کہیںعقل سے عاری یہ نوجوان ”شیطان کی سواری ”(موٹر سائیکل)پرون ویلنگ اور کرتب دکھاتے نظر آتے ہیں ۔ایسے لگتا ہے کہ ان کو جشن آزادی نہیں بلکہ اپنے زندگی سے آزادی چاہیے۔ایسامحسوس ہوتا ہے کہ انہیں والدین کوخوشیاں دینے کی بجائے بوڑھے ماں باپ کو دکھ دینے کی زیادہ جلدی ہے۔گزشتہ روز14اگست کو بھی ملک بھر میں موجود نام نہاد جشن آزادی کے دیوانوں کی دیوانگی کے باعث 2 افراد جاں بحق اور85افراد زخمی ہوئے۔شہر قائد کراچی میں ایک خاتون ہوائی فائرنگ کی زد میں آ گئی۔خاتون کو ہسپتال منتقل کیا گیا مگر وہ جاںبر نہ ہو سکی ۔دوسری واقعہ میں چھت پر سویا ہوا شخص ہوائی فائرنگ کے نتیجہ میں گولی لگنے سے جاں بحق ہو گیا۔85زخمیوں میں بیشتر تعداد بچوں اور نوجوانوں کی ہے۔بعض اس ”قوم کے بیٹے”13 اگست کی پوری رات رنگ رلیاں،نشے میں مست جھومتے نظر آتے ہیں اور کہیں ہمارے”غیرت مند”بیٹے اوربھائی دوسروں کی ماؤں بہنوں کو”تاڑتے”ملتے ہیں،ایسے تہواروں پربازاروں میں کچھ”صنف نازک ”بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتیں۔
ہماری سوسائٹی کے نوجوان طبقے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے۔جن کا ایک الگ ہی لیول ہے۔یہ جشن آزادی کے نام پر ایسی تقریبات منعقد کرتے ہیں کہ ایک عام پاکستانی یہ فرق نہیں کر پاتا کہ یہ یوم آزادی کی تقریب ہے یا نائٹ کلب۔جہاں ملک سے حب الوطنی کا پرچار کم اوررقص و سرورزیادہ دکھائی دیتا ہے۔نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے یومِ آزادی کا جشن منانے کے نام پر بلند آواز سے میوزک بجاتے ہیں،ہوائی فائرنگ،ون وِیلنگ کرتے ہیں،منشیات میں دھت ہوکراودھم مچاتے دکھائی دیتے ہیں جس کی شریعت اِجازت دیتی ہے اورنہ ہی ملکی قانون۔”حقیقت تو یہ ہے کہ ہمار ایسا کوئی تہوار نہیں بچا کہ جہاں اس معاشرے کے باسی فضول خرچی،بیہودگی کی منادی کرتے نظر نہ آئیں”۔جس پاک سرزمین کیلئے ہمارے اسلاف نے اپنی جان ومال ،اولادیں،عزتیں لوٹائیں۔آج اسی وطن عزیز کے یوم آزادی پر یہ نوجوان نسل پیسے،اپنی صحتیں اورعزتیں پامال کرتی نظر آتی ہے۔یہ کیسا جشن آزادی ہے؟
راقم آپکی خدمت میں آج ایک سوال رکھناچاہتا ہے،اگر پورے پاکستان میں جشن آزادی،نئے سال سمیت دیگر مذہبی و ریاستی تہواروں کے موقع پر سروے کروایا جائے اوراس سروے میں ایک سوال پوچھا جائے کہ آج آپ نے اُس دن یا تہوار کی مناسبت سے امت مسلمہ،اپنے ملک و قوم کی ترقی اور اپنے اسلاف کیلئے کتنی دعائیں کیں تو اس”یاجوج ماجوج نما”نئی نسل میں سے بہت کم ایسے ہوں گے کہ جنہوں نے اس دن کے حوالے سے ملک و قوم،اس کی ترقی کیلئے دعائیں کرنے کی زحمت کی ہو گی بلکہ ایسے مذہبی،ریاستی تہواروں پر ایسے نوجوانوں کوسب سے زیادہ فکر کس چیز کی ہوتی ہے؟کیا آپ بتا سکتے ہیں،ذرا سوچیں،اپنے آپ سے یہ سوال کیجیے۔
یقینا زیادہ تر قارئین میری رائے سے اتفاق کریں گے کہ ان”اقبال کے شاہینوں”کو اس دن کی قدر و قیمت اور اہمیت کی اتنی فکر نہیں ہوتی جتنی انہیں اپنے”مال پانی”(منشیات)کی فکرکھٹکتی ہے۔یہ حواس باختہ مخلوق اُسی کے بندوبست کے چکر میں رہتی ہے کہ اچھے سے اچھا”مال پانی”ہاتھ لگ جائے اوردوستوں میں واہ واہ ہو جائے اور یہ مست ہو کر ہواؤںمیں جھومتے پھریں۔اگر بات کی جائے لڑکیوں کی توان”دیش بھگت ناریوں”کوبھی یہی فکر لاحق رہتی ہے کہ کیسے ملبوسات،میک اپ اور”لُک”میں جشن آزادی منانا ہے۔سبز اور سفید کپڑوں کیساتھ کونسے میچنگ جوتے پہننے ہیں یہاں تک کہ لیپسٹک کے رنگ کا فیصلہ بھی کسی مشکل امتحان سے کم نہیں ہوتا۔باقی رہی سہی کسرسوشل میڈیا پوری کر دیتا ہے۔جشن آزادی پر ایسا لگتا ہے کہ یہ پاکستان کا جشن آزادی نہیں بلکہ اپنے اسلاف کی عزت ووقار،اقدار ،روایات، اﷲ اور اس کے رسول کے احکامات اور حلال و حرام سے آزادی کا جشن منایا جا رہا ہے۔یہ گمان ہوتا ہے کہ جیسے اس دن انہیں پوری آزادی ہے کہ ان کاجو من چاہے کرتے پھریں،کسی کو تکلیف دیں،ٹریفک کے قوانین کو اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے نیچے روندتے پھریں۔منشیات کا بے دریغ استعمال،بیہودہ پارٹیں کریں ۔ان کو بنا روک ٹوک کے پوری آزادی حاصل ہو،کتنے شرم کا مقام ہے۔
ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ جشن آزادی،نئے سال سمیت دیگر تہواروں پر پٹاخے،آتش بازی،منشیات سے بھرپور پارٹیاں پر وقت اور وسائل صرف کرنے کیلئے ہمارے پاس وسائل موجود ہوتے ہیں مگر وطن عزیز اور اسکی غریب عوام پر خرچ کرنے کیلئے ہم غریب بن جاتے ہیں۔اگر یہی وقت اور وسائل ہم اپنے ملک و قوم اور اس کی ضرورت مند عوام پر خرچ کریں تو شاید ہم اپنے ملکی حالات ،حکومتی مدد کے بغیر ہی ٹھیک کر سکتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر یوم آزادی کے دن ہم اپنے آپ سے یہ عہد کریں کہ ہم سادگی،کفایت شعاری،ایمانداری،خلوصِ نیت کے جذبے کیساتھ اپنا وقت،جان و مال اپنے وطن عزیز کی خدمت و ترقی پر لگائیں گے ۔غیر ضروری عیاشیوں کو ختم کر کے اپنے وسائل ملکی ترقی و نچلے طبقے کی مدد کیلئے استعمال کریں گے،زیادہ نہیں تو اپنے اردگردکے لوگ ،پڑوسی،غریب عزیز و اقارب کی ہی باز پرسی اپنا مقصد بنا لیں تو ہم اپنے معاشرے کو بہت حدتک ٹھیک کر سکتے ہیں۔کسی بھی معاشرے میں جب ہر فرد دینے والا بننے کی کوشش کرتا ہے تو ایک وقت آتا ہے کہ اس معاشرے میں لینے والے بہت کم رہ جاتے ہیں۔مگر افسوس یہاں معاملہ ہی الٹ ہے۔غریبوں کی فکر کرنا تو بہت دور کی بات ہم اپنے وطن عزیز کیساتھ ہی دھوکہ کرتے ہیں۔ٹیکس چوری،کرپشن،بددیانتی،نا انصافی،جھوٹ،فریب کو ہم نے اپنا اشعائربنا لیا ہے ۔یہ قوم اب قوم نہیں بلکہ صرف ایک ہجوم بن کر رہ گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے اسلاف بھی ایسے ہی جشن ِآزادی منایا کرتے تھے؟ پاکستان کا قیام صرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا گیا بلکہ اس کا مقصد ایک ایسی آزاد رِیاست تھا جہاں مسلمان اپنے اﷲ اوراس کے حبیب ۖ کی تعلیمات کی روشنی میں پرامن زندگی گزار سکیں۔قیامِ پاکستان کے وقت ہر طرف ایک ہی نعرہ تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا اِلہ اِلااللہ لیکن افسوس! کہ آج ہم پاکستان کے قیام کا مقصد نظر انداز کر چکے ہیں،جس وطن کو آزادی سے عبادت کرنے کے لئے حاصل کیا گیا تھا اسی کے رہنے والے اﷲ او رسول کے احکامات کی نافرمانی کرتے نہیں گھبراتے۔وطن سے محبت کاتقاضا یہ ہے کہ ہم اِس کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔جھوٹ، رشوت، سود،دھوکہ بازی،مِلاوٹ، ذخیرہ اندوزی،چوری،ڈکیتی،کرپشن وغیرہ سے توجہ اور پرہیز کرکے جہاں ہم گناہوں سے بچیں گے وہاں وطنِ عزیز کو بھی فائدہ پہنچائیں۔یہ آزاد وطن اﷲ کی نعمت ہے،اس کی قدر کیجئے۔آخر میں قارئین کیلئے ایک سوال چھوڑے جا رہا ہوں کہ کیا واقعی ہم آزاد ہیں بھی؟؟؟
Load/Hide Comments