ایمان دارانہ عاجزی سے یہ اعتراف کرنے کو مجبور ہوں کہ اپنی عمر تمام رپورٹنگ کی نذر کردینے کے باوجود میں یہ اندازہ لگانے میں قطعا ناکام رہا کہ بالآخر انوار الحق کاکڑ نگران حکومت کے وزیراعظم نامزد کردئیے جائیں گے۔خود کو تسلی دینے کے لئے محض یہ جواز ہی پیش کرسکتا ہوں کہ عرصہ ہوا عملی صحافت چھوڑ رکھی ہے۔عمران حکومت کے دوران ٹی وی سکرینوں کے لئے ممنوع قرار پایا تو گوشے میں قفس کے مزید آرام کرنے لگا۔کمر اور آنکھ کے مسائل نے جب ڈرائیونگ کے ناقابل بنادیا تو خبروں کا منبع تصور ہوتے افراد سے میل ملاقات بھی نہ رہی۔
اپنی کوتاہی پرواز تسلیم کرنے کے باوجود یہ سوال اٹھانا لازمی ہے کہ میرے وہ دوست بھی کاکڑ صاحب کی نامزدگی کی بابت لاعلم کیوں رہے جو سیاستدان ہی نہیںان کے بھی بہت قریب تصور ہوتے ہیں۔ ایسے دوستوں کے ساتھ پنجابی محاورے والا ہتھ مگر یہ ہوچکا ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے سوشل میڈیا پر مقبولیت کے چانے انہیں خبر ڈھونڈنے کی اذیت اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔خبر سے زیادہ اپنے گراںقدر خیالات کے ذریعے بیانیہ نامی شے تشکیل دیتے ہوئے مشہوری کماتے ہیں۔
بہرحال انوار الحق کاکڑ حیران کن انداز میں نگران حکومت کے وزیراعظم نامزد ہوچکے ہیں۔نظر بظاہر حال ہی میں اپنی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد تحلیل ہوئی قومی اسمبلی کے قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈر نے باہمی مشاورت سے انہیں چنا ہے۔ شہباز شریف اور راجہ ریاض ان کے نام پر کب اور کیسے رضا مند ہوئے اس کے بارے میں باخبر ترین تصور ہوتے صحافی بھی اگرچہ لاعلم ہیں۔ ذاتی طورپر میں کاکڑ صاحب کا پرانا شناسا ہوں۔مہذب مزاج کے دوست نواز آدمی ہیں۔ ہر ایک سے مسکراکرملتے ہیں۔حساس ترین موضوعات پر تندوتیز ہوئی بحث کے دوران بھی اپنی بات پھیپھڑوں کے زور سے نہیں دلائل کی بنیاد پر بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔تعلق ان کا بلوچستان سے ہے۔مجھ جیسے صحافی کئی برسوں سے اس صوبے کیساتھ ریاستِ پاکستان کے رویے کو دوستانہ محسوس نہیں کرتے۔ یہ سوچتے ہیں کہ بلوچستان کے باسیوں کو زبردستی قومی دھارے میں لانے کی کوشش ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہاں کے نوجوان مشتعل ہوکر ریاست کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں۔اپنی تحریروں اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے ہمیشہ یہ فریاد کی کہ بلوچستان کے نوجوانوں کے غصے کے اسباب جانتے ہوئے ریاست کو ان کے ساتھ مادرِ شفیق یا برادرِمہربان والا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
نسبتا نوجوان سیاستدان ہوتے ہوئے بھی انوار الحق کاکڑ مگر اس سوچ سے متفق نہیں۔وہ مصر ہیں کہ چند پشتون اور بلوچ سیاستدان احساسِ محرومی کا بیانیہ ریاستِ پاکستان کے کرتا دھرتا افراد اور اداروں کو بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔بلوچستان کی محرومیوں سے کاکڑ صاحب بھی انکار نہیں کرتے۔ اس کا ریاست کے علاوہ ذمہ دار مگر وہ بلوچستان کی مقامی اور ہمیں قوم پرست محسوس ہوتے قائدین کوبھی ٹھہراتے ہیں۔
ہم دونوں کے مابین واضح اور گہرے فکری اختلافات کے باوجود کاکڑ صاحب نے ہمیشہ مجھے پارلیمان کی راہداریوں یا کسی محفل میں دیکھ کر ازخود سلام دعا کا آغاز کیا اور پرخلوص احترام سے حال احوال کے بعد سیاسی موضوعات پر برجستہ گفتگو کی۔ان سے گفتگو کی بدولت مجھے بلوچستان کی سیاسی کے علاوہ تہذیبی تاریخ کے بے شمار اہم نکات سے آگہی میسر ہوئی۔اس کے باوجود یہ بات کبھی میرے ذہن میں نہیں آئی کہ ہماری ریاست کے طاقت ور ادارے انہیں نگران حکومت کی اس جوان سالی میں قیادت سونپنے کو تیار ہوں گے۔
مجھے گماں تھا کہ نگران حکومت کو حال ہی میں ہوئی قانون سازی کی بدولت باقاعدہ حکومت جیسا بااختیار بنانے کے بعد شہباز شریف صاحب جو مسلم لیگ (نون) کے صدر بھی ہوتے ہیں اپنی اتحادی جماعتوں کی قوت کے بل بوتے پر کوئی ایسا شخص نگران وزیراعظم نامزد کروانے میں کامیاب ہوجائیں گے جو بنیادی طورپر ٹیکنوکریٹ ہو۔ نگران حکومت میں ڈنگ ٹپا رویہ اختیار کرے اور بالآخر انتخابات ہوجائیں تو شہباز صاحب اور ان کے اتحادی ان کے نتائج کی بدولت دوبارہ حکومت بنانے کے قابل ہوسکیں۔یہ حقیقت دریافت کرنے میں مجھے بہت دیر لگی کہ نگران حکومت کو عاجلانہ قانون سازی کے ذریعے منتخب حکومت جیسا بااختیار بنانے کے بعد شہباز شریف اور ان کے کائیاں اور تجربہ کار ساتھی درحقیقت اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے غیرپا رلیمانی قوتوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ ملک کے دیرینہ مسائل کا مناسب حل ڈھونڈنے میں ناکام رہے ہیں۔ جوحل ان کے علم میں ہیں ان کا نفاذووٹ کی محتاج سیاسی جماعتوں کے بس کی بات نہیں۔بہتر یہی ہوگاکہ کوئی اور ہی غیر مقبول فیصلوں کی ذمہ داری اپنے سرلے۔ گزشتہ برس کے اپریل میں عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمی کے منصب سے فارغ کروانے کے بعد شہباز شریف صاحب کی قیادت میں بھان متی کا کنبہ دِکھتی جو حکومت قائم ہوئی اس نے پاکستان کو دیوالیہ سے بچانے کی خاطر اپنی سیاست قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ سیاست قربان کردینے کے بعد وہ اصولی طورپر وطن عزیز کے مستقبل کے نقشے بنانے کی سکت سے محروم ہوچکے ہیں۔ایسے حالات میں ان کے پاس نگران وزیر اعظم کے منصب پر اپنا بندہ لگانے کی سیاسی اور اخلاقی جرات وہمت ہی موجود نہ رہی۔ جنہوں نے آئندہ چھ ماہ تک ملک کو برق رفتاری سے نئی راہ پر دھکیلنا ہے انہوں نے راجہ ریاض صاحب کو انوار الحق کاکڑ کا نام سرگوشی میں پہنچادیا ہوگا۔ راجہ صاحب نے اسے شہباز صاحب کے روبرو رکھا تو وہ ترنت اسے تسلیم کرنے کو رضا مند ہوگئے۔روایتی سیاستدان کی چالاکی دکھانے سے مگر تب بھی پرہیز نہیں کیا۔ کاکڑ صاحب کی نا مزدگی کا اعلان راجہ ریاض کے ذریعے کروایا اور خود کو اس تناظر میں میڈیا سے دور رکھا۔
کاکڑ صاحب کی نامزدگی کے بعد مسلم لیگ (نون) کے لئے سوشل میڈیا پر Feel Goodیا اچھی خبریںپھیلانے کے عادی چند افراد نے البتہ ایک تصویر دریافت کرلی ہے یہ تصویر چند ماہ قبل ہوئی ایک ملاقات کوریکارڈ پر لاتی ہے۔ اس میں بلوچستان کے سابق وزیراعلی جام کمال انوار الحق کاکڑ کے ہمراہ مریم نواز صاحبہ سے خوش گوار دِکھتی ملاقات کررہے ہیں۔ مذکورہ تصویر کو دریافت کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر پھیلانے کا سبب غالبا یہ تاثر اجاگر کرنا ہوگا کہ کاکڑ صاحب اپنی نامزدگی سے قبل مسلم لیگ (نون) میں شمولیت کے لئے پرتول رہے تھے۔ میں اس ملاقات سے غافل نہیں تھا۔وہ مگر جام کمال کی قدوس بزنجو سے دوری کا شاخسانہ تھی۔ وہ اور کاکڑ صاحب اس کے بعد نئے راستے تلاش کررہے تھے۔ اس کے سوا مذکورہ ملاقات کا کوئی اور مقصد نہیں تھا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت