یوم آزادی کے فیصلہ کن تقاضے… تحریر : محمود شام


اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج 13 اگست کو آزادی کے 76سال پورے ہورہے ہیں۔ کل 14 اگست 2023 کو 77 واں یوم آزادی طلوع ہوگا۔ ہمارے ذہنوں کے افق پر 76سال پہلے کی سرحدوں، قصبوں، شہروں، شاہراہوں پر بہنے والے لہو کی سرخیاں بھی پھیلیں گی۔ غلامی سے آزادی کی طرف ٹرینوں سے ،بسوں سے، فوجی ٹرکوں سے ،پیدل چلنے والے بے کس بے بس انسان بھی نظر آئیں گے۔ کنوؤں میں کودتی ماؤں بہنوں کی چیخیں بھی سنائی دیں گی۔ پھر 1971-1965-1948میں سرحدوں پر وطن پاک کا تحفظ کرتے اپنے جوانوں کے تمتماتے چہرے بھی جگمگائیں گے۔ قانون کی حکمرانی، جمہوریت کی بحالی کے لیے تختہ دار پر سرفروش ۔ گلیوں سڑکوں پر اپنوں کی لاٹھیاں۔ آنسو گیس کھاتے، حوالات اورجیلوں میں اپنی جوانیاں نذر کرتے جوان بھی یادوں کی پگڈنڈیوں پر جھلملائیں گے۔ کارخانوں کی بنیاد رکھتے محب وطن صنعت کار،چمنیوں کا دھواں، مشینوں کو حرکت میں رکھتے مزدور۔ کھیتوں میں ہل چلاتے، ملک کو نقد فصلیں فراہم کرتے کسان۔ گندم،چاول، کھیتوں میں پیدا کرتے ہاری۔ پٹ سن کا سونا مارکیٹ میں لاتے مشرقی پاکستانی۔ یونیورسٹیوں، کالجوں، اسکولوں میں پڑھاتے اساتذہ کی نسلیں۔ سب کچھ 14 اگست کی خوشیوں کے ساتھ ہمیں یاد آئے گا۔

کامرانیاں کم ہوتی گئیں ناکامیاں بڑھتی گئیں۔ حقوق بہت تھوڑے ملے۔ محرومیاں دامن بھرتی چلی گئیں۔ ہمارے مشرقی پاکستانی۔ بنگالی بھائی بہنیں۔ ہم سے صرف 24 سال بعد بھری جوانی میں الگ ہوگئے۔ المیہ اپنی جگہ مگر وہ ہم سے بہتر حالات میں ہیں۔ وہ ملک کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ اگرہم اپنی قیادت انہیں کرنے دیتے تو وہ ہمیں بھی آگے لے جاتے۔ ہماری معیشت کو بہتر کردیتے۔

آج 76 سال بعد بہت سی مایوسیاں ہیں۔ بے کسی ہے۔ بے بسی ہے۔ لیکن امید کی ایک کرن ہے کہ کارواں کے دل میں احساس زیاں اجاگر ہے۔ پہلے بلوچستان کے دانشور اور نوجوان ملکی بد حالی کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرتے تھے۔ ہم نہیں مانتے تھے۔ سندھ کے قوم پرست۔ سندھ کے شاعر۔ کہانی کار واضح کرتے تھے کہ محرومیوں میں مبتلا کس نے کیا ہے۔ ہم اتفاق نہیں کرتے تھے۔ سرحد کے جانباز۔ نثر اور نظم میں نشاندہی کرتے تھے کہ معیشت کو پٹڑی سے کس نے اتارا۔ ہم تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اسی میں چھ دہائیاں گزر گئیں۔ اب ساتویں دہائی میں پنجاب سے بھی چھوٹے صوبوں کی طرح یہ احساس دلایا جارہا ہے کہ ہماری ناکامیوں کے اسباب کیا ہیں۔ یقینا یہ فیصلہ کن گھڑی ہے۔ ہم کسی کو سرحدی گاندھی کہتے رہے۔ کسی کو بلوچی گاندھی اور کسی کو سندھی گاندھی کا خطاب دیتے رہے۔ اپنی غلطیوں کی اصلاح نہیں کی۔ اپنے آپ کو عقل کل سمجھا ہے۔

اب ہم ایسے مقام پر کھڑے ہیں۔ جسے وجود و عدم کی سرحد کہا جاسکتا ہے۔ اب 77 ویں سال میں غلطیوں کی گنجائش بالکل نہیں ہے۔ اب ہر ایک لغزش۔ ہر غلط فیصلہ ہمیں ناکام ریاست کی طرف دھکیلے گا۔ اب ہم ماضی کا ماتم نہ کریں یہ بہت ہوچکا۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہمارے ہمسائے میں افغانستان ہم سے بہتر حالت میں ہے۔ ایران ساری عالمی پابندیوں کے باوجود اپنے شہریوں کی زندگی آسان کررہا ہے۔ بھارت اپنے تعصبات کے ہوتے ہوئے اپنی جنتا کو معیاری زندگی دے رہا ہے۔ اس کے زر مبادلہ کے ذخائر کہیں زیادہ ہیں۔بنگلہ دیش جسے گداگر کا کشکول کہا جاتا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا ہے۔ ملائشیا ہم سے بعد میں آزاد ہوا ہے۔ اسے مہاتیر نے استحکام دے دیا ہے۔ چین ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا ہے۔ وہ اب دنیا کی دوسری معیشت بن گیا ہے۔

ہم میں یہ احساس پیدا کردیا گیا ہے کہ ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔دوسری قومیں جو کرسکتی ہیں۔ ہم بھی کرسکتے ہیں۔ مگر ہمیں کرنے نہیں دیا جاتا۔

ہم امریکی سامراج کے 76 سال سے اتحادی ہیں۔ وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان آگے بڑھے۔ پاکستانی اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں۔ برطانیہ جس نے ہمیں اپنا غلام بنائے رکھا۔ اس نے کبھی نہیں چاہا کہ مسلمانوں کا یہ الگ ملک خود کفیل ہو۔ اس نے کشمیر کا مسئلہ پیدا کیا۔ سرحدوں کے تعین میں دانستہ ایسی سازشیں کیں ۔ بھارت کا دعوی ہے کہ پاکستان کی تخلیق اس کے جسم کو کاٹ کر کی گئی ہے۔ پھر ہمارے جاگیردار۔ سردار۔ خوانین۔ نئے سرمایہ دار۔ نئے ٹھیکیدار بھی یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک فرد کو اہمیت نہ ملے۔ ان کے رجواڑے۔ ریاستیں۔ قبضے جاری رہیں۔ وہ اپنی مرضی کے پولیس آفیسر۔ سول آفیسر۔ چیف سیکرٹری۔ سیکرٹری رکھواتے ہیں۔ اب تو اپنے خاندانوں سے نوجوانوں کو پولیس میں، سی ایس ایس میں بھیجتے ہیں۔ 76 سال میں ایک ملک کے شہریوں میں برابری قائم ہونے کی بجائے فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ مقتدر طبقے بھی اس جاگیرداری نظام کو برقرار بلکہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ پھر گدیوں والے ہیں۔مخدوم۔ پیر۔ آستانے۔ ان کے ساتھ زرخیز مربعے۔ یہ با اثر طبقے قانون کے یکساں نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ پولیس ہو کہ عدالتیں۔ سب ان کا حکم مانتی ہیں۔ آئین اور قانون کو سامنے نہیں رکھتی ہیں۔

اب 77ویں سال کے آغاز میں ہرپاکستانی چاہے وہ بلوچستان میں ہے، سرحد میں، سندھ میں اور پنجاب میں۔ اب باشعور ہے۔ سوشل میڈیا اس کے ہاتھ میں ہے۔ 76سال کی محرومیوں نے اسے نسل در نسل بہت کچھ سکھادیا ہے۔ اس عظیم مملکت میں بے حساب قدرتی وسائل اللہ تعالی نے ہمیں عطا کیے ہیں۔ جو ہماری نسلوں کی خود کفالت کیلئے بہت ہیں۔ ہمیں اب پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئے قرضوں کے حصول کی غلامانہ پالیسی کو الوداع کہنا ہوگا۔ یہ پرانے شکاریوں امریکہ، برطانیہ، فرانس، پرتگال کے نئے جال ہیں۔ ہمیں اپنے دست و بازو پر اپنے ریکوڈک، سینڈک، زمرد، خاصخیلی آئل فیلڈز، تھر کے کوئلے، اپنے زرخیز رقبوں پر انحصار کرنا ہوگا۔ اپنے شاہی اخراجات اور بے حساب مراعات کو ختم کرنا ہوگا۔ بڑی بڑی وفاقی اور صوبائی کابینائیں نہیں بنانا ہوں گی۔ ایک ہی محکمے میں نئے نئے اضافی شعبوں کو سمیٹنا ہوگا۔ 23 کروڑ میں سے 22 کروڑ تو اپنا پیٹ کاٹ کر ملک کے اخراجات میں اپنا حصہ دے رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اب پاکستان کو اگلے 30 سال یعنی 2053 تک معاشی روڈ میپ بناکر اہداف کو حاصل کرنا ہوگا۔ موجودہ طرز حکمرانی نہیں چل سکتا۔ یہ انتشار اور انارکی کا راستہ ہے۔

آئیے اب 77 ویں یوم آزادی پر معاشی غلامی سے آزادی کا عزم کریں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ