5 اور 6 جون 1944 ء کی درمیانی شب تھی۔ چار برس قبل ڈنکرک سے انخلا کے بعد اتحادی فوج کو پہلی بار مغربی سرحد سے یورپ پر حملہ آور ہونا تھا۔ آئزن آور نے ایک برس اس حملے کی تیاری کی تھی۔ سات ہزار بحری جہازوں اور عارضی بجروں کے ذریعے 156000اتحادی فوجیوں کو خوفناک سمندری طوفان میں آبنائے انگلستان عبور کرکے نارمنڈی کے 80کلومیٹر طویل ساحل پر اترنا تھا۔ جرمن عقب میں 24ہزار چھاتہ بردار اتارے جانا تھے۔ ہزاروں ٹینک ساحل تک پہنچانا تھے جہاں جنرل رومیل 40لاکھ بارودی سرنگیں اور دیگر رکاوٹیں کھڑی کرکے 50ہزار جرمن سپاہ کیساتھ دفاع کیلئے تیار تھا۔ معاملہ ایک رات پہ آکے ٹھہر گیا تھا۔ اگر اتحادی فوج لڑتی بھڑتی ساحل پر قدم جما لیتی تو آئندہ دنوں میں 20لاکھ اتحادی کمک کی مدد سے برلن تک پہنچنا طے تھا۔ تجربہ کار رومیل حملہ آور اتحادی سپاہ کو ساحل ہی پر تباہ کرنا چاہتا تھا۔ رومیل نے اس حملے کو ’طویل ترین دن‘ کہا تھا۔ Ryan Cornelius نے یہیں سے 1959ء میں اپنی کتاب کا عنوان The Longest Day اخذ کیا تھا۔ 1962 ء میں اس کتاب پر بنی فلم کے ایک منظر میں فلائٹ آفیسر ڈیوڈ کیمبل (رچرڈ برٹن) فوجی بار میں داخل ہوتا ہے۔ ایک شناسا فوجی پوچھتا ہے ’تم نے جونی کو دیکھا ہے کہیں؟‘۔ ڈیوڈ جواب دیتا ہے ’وہ اب انگلش چینل کی تہ میں ہے‘۔ ایک لحظہ خاموشی کے بعد فوجی دکھی لہجے میں کہتا ہے ’گویا اس اسکواڈرن میں تم ایک ہی باقی بچے ہو جس نے 1940 ء میں جرمن ہوائی حملے کا دفاع کیا تھا‘۔ رچرڈ برٹن کا جواب آٹھ دہائیوں بعد ہماری حالیہ تاریخ کی لوح بن گیا ہے۔ وہ کہتا ہے۔ What’s always worried me about being one of the few is the way we keep on getting fewer. (میرا دکھ یہ ہے کہ ہم پہلے ہی تھوڑے سے تھے اور اب مزید کم ہوتے جا رہے ہیں۔)
ہماری معیشت اور سیاست 6 جون 1944 ء کے دہانے پر آپہنچی ہے اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم فلائٹ آفیسر ڈیوڈ کیمبل ایسے خوش قسمت نہیں ہیں۔ ہم آبنائے انگلستان کے غلط ساحل پر کھڑے ہیں۔ ہماری تیسری مسلسل پارلیمنٹ نے اپنی میعاد مکمل کر لی۔ 2008 ء میں منتخب ہونیوالی پارلیمنٹ کے خدوخال لیاقت باغ پنڈی کے باہر بینظیر بھٹو کے لہو سے مرتب ہوئے تھے۔ ورنہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے مطابق ایک بار پھر قاف لیگ کو کامیابی دلائی جانا تھی۔ پیپلزپارٹی نے اقتدار میں آکر بہت سے گناہ کئے۔ بنیادی فرد جرم میں اٹھارہویں آئینی ترمیم، کیری لوگر بل اور قومی اسمبلی کے فلور پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا ایک جملہ تھا۔ ’ریاست کے اندر ریاست برداشت نہیں کی جائے گی‘۔ اس جملے سے فنانشل ٹائمز میں منصور اعجاز کے مضمون نے جنم لیا۔ 30 اکتوبر 2011ء کو مینار پاکستان پر تحریک انصاف کا جلسہ ہوا۔ 2013ءکی انتخابی مہم شروع ہوئی تو پنجاب میں پیپلز پارٹی کو امیدوار ہی نہیں میسر تھے۔ اے این پی کے سینکڑوں کارکن اور رہنما طالبان کے ہاتھوں شہید کئے گئے۔ ایم کیو ایم کو بھی ایسی ہی مشکلات درپیش تھیں۔ اسکے باوجود مئی 2013 میں حسب خواہش نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ جہانگیر ترین نے مدت بعد نشان دہی کی کہ تحریک انصاف کے بیشتر امیدوار تو کہیں چوتھے اور پانچویں نمبر پر رہے تھے۔ تاہم چابکدست ہاتھوں میں تشکیل پانے والا کچی مٹی کا گھڑا بدستور موجزن رہا۔ ستمبر 2013ء میں سپریم کورٹ کے ایک حکم کی تعمیل کی پاداش میں لندن میں ملاقات ہوئی۔ 126 روزہ دھرنے کی نیو رکھی گئی۔ چار حلقے کھولنے کا مطالبہ ہوا۔ یہ مطالبہ فانے کا پتلا سرا تھا۔ بات نہیں بن سکی البتہ مشاہد اللہ خان کھیت رہے۔ پانامہ پیپرز کے436 نامزد افراد سے ایک نام منتخب ہوا۔ لغو قرار دی گئی درخواست کو جھاڑ پونچھ کر اٹھایا گیا اور پاناما سے اقامہ برآمد ہو گیا۔ سیرل المیڈا کی ایک خبر کی آڑ میں پرویز رشید کو قربان کیا گیا۔ 2018ء میں ہماری تاریخ کی سب سے غیر شفاف انتخابی مشق ہوئی۔ درجنوں کٹھ پتلیوں نے ترنگا طوق پہنا۔ آر ٹی ایس بیٹھ گیا۔ مویشی منڈی کی رونق جہازوں میں بھر کے اسلام آباد پہنچائی گئی۔ میڈیا فتح کرنے والوں نے قرآنی آیات ٹویٹ کر کے مفتوحہ رعایا کو کھلے پیغام دیے لیکن ایک صفحے کے دوغلے گھوڑے نے قدم اٹھانے سے پہلے ہی دانت نکال دیے۔ اپریل 2019 ء میں اسد عمر کو وزارت خزانہ سے فارغ خطی ملنا پہلا اشارہ تھا۔ کووڈ نے ایک برس کی مہلت بہم پہنچائی۔ 2022ءمیں قوم کو فروری 2021 میں ہونے والے ایک فیصلے سے مطلع کیا گیا۔ قوم لیکن جانتی ہے کہ معاشی، سیاسی اور سفارتی ناکامیوں کے باوجود دستور سے انحراف کا ’ون پیج‘ محلاتی سازشوں کے نتیجے میں چاک ہوا۔ مئی 2023ء میں پروجیکٹ عمران ختم ہو گیا لیکن کاروبارِ شب نگاراں بدستور جاری ہے۔ ہماری تاریخ عمران خان سے شروع ہوئی اور نہ ان پر ختم ہوسکتی ہے۔ طوفان اپنے پیچھے ملبہ چھوڑ گیا ہے۔ شہباز شریف ہائبرڈ ماڈل کی وکالت کرنا چاہتے ہیں مگر وکالت نامہ ان کے پاس نہیں۔ یہ دستاویز پاکستان کے عوام کی ملکیت ہے اور یہاں سے فلائٹ آفیسر ڈیوڈ کیمبل کا المیہ نمودار ہوتا ہے۔ 1977ءمیں زیر تعلیم بچے اب فیصلہ ساز مناصب کو پہنچ چکے۔ اس نسل کا سیاسی شعور مفلوج ہے۔ انکا اجتماعی ذہن کارپوریٹ فارمنگ کو اپنی سیاسی تاریخ اور معاشی مستقبل سے جوڑ کر دیکھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ پارلیمنٹ کو بے معنی اور ذرائع ابلاغ کو گنگ کر دیا گیا ہے۔ عدلیہ کی ساکھ پر سوال ہیں۔ خیمہ بدلنے والی مخلوق نے ترنگا طوق اتار کے وابستگی کی سرگوشی اوڑھ لی ہے۔ ایسے میں آئی ایم ایف کیا بھاڑ جھونکے گا۔ اختیار کا سرچشمہ عوام کو منتقل نہیں ہوا اور اس کا مطالبہ کرنے والے بھی باقی نہیں رہے۔ قافلہ حجاز میں حسین ؓکی تلاش کیا کیجئے، کوئی حسین ؓکا ہم نوا بھی باقی نہیں۔ ہم تھوڑے تھے، اب مفقود ہو چکے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ