انسان کی رہنما عقل ہے لیکن عقل کو کچھ بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ کبھی وہ تعصب کا شکار ہوجاتی ہے۔ کبھی اس پر محبت غالب آجاتی ہے۔ کبھی مفادات کے بندھنوں میں بندھ کر کند ہو جاتی ہے ۔ اس لئے اللّٰہ نے عقل کی رہنمائی کیلئے وحی نازل فرمائی۔ عقل جب وحی کی رہنمائی سے محروم ہوجاتی ہے تو پھر اچھے بھلے لوگوں کی سوچ بھی احمقانہ اور دلیل سے عاری ہو جاتی ہے اور یہ رجحان ان مسلمانوں میں زیادہ پایا جاتا ہے جو وحی( مذہب) کی اصلیت کو جانے اور اس پر عمل پیرا ہوئے بغیراس کو ذاتی یا سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
عمران خان اوران کے پیروکاروں کا شمار اسی طبقے میں ہوتا ہے ۔ اس لئے جھوٹ ان کا ثابت ہوگیا لیکن وہ دوسروں کو جھوٹا پکارتے ہیں ۔ تازہ ترین مثال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے بعض احمق مجھ سے میری مارچ 2022ءکی ایک ٹویٹ کی بنیاد پر خودکشی اور صحافت چھوڑنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔حالانکہ قصہ کچھ یوں ہے کہ مارچ کے پیریڈ لائن کے جلسے میں عمران خان سفید رنگ کا ایک کاغذ لہرا کر کہہ رہے تھے کہ یہ وہ سائفر ہے جس میں ایک مغربی ملک کی طرف سے میری حکومت گرانے کی دھمکی دی گئی ہے ،اس پر میں نے ٹویٹ کرکے کہہ دیا کہ یہ جھوٹ ہے اور اگر عمران خان یہ ثابت کردیں کہ یہ خط کسی امریکی یا مغربی عہدیدار کا دھمکی آمیز خط ہے تو میں شہریار آفریدی اور غلام سرور خان (غلام سرور اب عمران خان کو جھوٹا قرار دے کر پارٹی چھوڑ چکے ہیں) کی طرح خودکشی (ان دونوں نے اُن دنوں خودکشی کی دھمکیاں دی تھیں) تو نہیں کروں گا لیکن صحافت چھوڑ دوں گا۔ اب جب سے دی انٹرسپٹ (The Intercept) نے امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی طرف سے سائفر کی مبینہ تفصیل شائع کی ہے تو امریکہ اور برطانیہ ہی میں بیٹھے عمران خان کے نام پر چندے جمع کرنے والے چند دونمبری اور پاکستانی میڈیا میں ان کے کچھ کاسہ لیس یہ تاثر دے رہے ہیں کہ چونکہ میرا دعویٰ غلط ثابت ہوا ہے اس لئے اب مجھے صحافت چھوڑ دینی چاہئے۔ حالانکہ ان سب کے ماضی کے آقا اور سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اب میری بات کی تائید میں دو گواہیاں دے چکے ہیں۔ ایک یہ کہ سائفر کے اصل مفہوم کی بجائے عمران خان کے ساتھ مل کر انہوں نے کھیلنے (یعنی غلط معنی پہنانے )کا منصوبہ بنایا تھا ۔ اس کی گواہی کیلئے اعظم خان اور عمران خان کی آڈیو لیکس بطور ثبوت موجود ہیں اور دوسری اعظم خان اب یہ گواہی دے چکے ہیں کہ اگلے دن جب انہوں نے عمران خان سے سائفر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ اسے گم کر چکے ہیں ۔ اب پہلی بات تو یہ ہے کہ جب وہ گم ہوگیا تھا تو عمران خان اس کے کئی روز بعد جلسے میں کیا لہرارہے تھے؟کیا یہ میری اس بات کی تصدیق نہیں کہ وہ سائفر یا کسی امریکی عہدیدار کی دھمکی والا کاغذ نہیں تھا۔ واضح رہے کہ سائفر بھی کسی امریکی یا یورپی عہدیدار کی تحریر کردہ دھمکی نہیں تھی بلکہ وہ پاکستانی سفیر اسد مجید کی تحریر تھی جس میں انہوں نے ڈونلڈ لو کے ساتھ میٹنگ کی تفصیلات اور اس پر اپنا تبصرہ بیان کیا تھا ۔ سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ سائفر کا رنگ سفید نہیں ہوتا جبکہ عمران خان سفید کاغذ لہرایا کرتے تھے تو حقیقتاً وہ سائفر بھی نہیں تھا بلکہ اب تو اعظم خان کہہ چکے ہیں کہ عمران خان کے بقول وہ اسے گم کر چکے تھے ۔ یوں زیادہ سے زیادہ وہ اس سائفر کا وہ ٹرانسکرپٹ اور مفہوم ہوسکتا تھا جو انہوں نے خود اس سے کھیلنے کی غرض سے تیار کیاتھااور جو من پسند صحافیوں کو بھی دکھایاگیاتھا۔ اب وقت نے میرا دعویٰ درست ثابت کیا ہے لیکن امریکہ اور برطانیہ میں عمران خان کے نام پر مال ہڑپ کرنے والے کہہ رہے ہیں کہ میں جھوٹا ثابت ہوا ہوں اور دی انٹرسپٹ کی اسٹوری نے یہ بات سچ ثابت کردی ہے کہ ان کی حکومت امریکہ نے گرائی ہے۔
ارے عقل کے اندھو! اگر امریکہ نے آپ کے لیڈر کی حکومت گرائی ہے تو پھر اس امریکہ میں بیٹھے کیوں ہو؟ بیجنگ یا ماسکو چلے جاؤ۔ کچھ تو شرم کرو اور ان امریکی عہدیداروں سے تو اپنے آپ اور عمران خان کو بچانے کی بھیک نہ مانگو جنہوں نے بقول آپ کے ، آپ کے لیڈر کی حکومت ختم کی ہے۔ حالانکہ اس مبینہ سائفر میں بھی یہ بات ڈونلڈ لو نے کہی ہے کہ ان کی حکومت کا اصل ہدف اب چین ہے ۔ چین کے ساتھ معاملات سب سے زیادہ عمران خان کی حکومت نے خراب کئے تھے ۔ اس تناظر میں عمران خان امریکہ کا بہت بڑا اثاثہ ہیں اور شاید اس لئے ان کے حق میں ماسکو یا بیجنگ سے نہیں بلکہ زیادہ آوازیں امریکہ اور برطانیہ سے بلند ہورہی ہیں اور انکے سب بھگوڑے ساتھی اور ترجمان ان ممالک میں پناہ لے رہے ہیں ۔دوسری بات جو ان احمقوں کے بیانیے کے خلاف جاتی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی جگہ لینے والی حکومت نے چین کے ساتھ تعلقات میں دوبارہ گرمجوشی پیدا کی ۔ سی پیک کو تازہ کیا۔ روس سے تیل خریدا جبکہ امریکہ نے الٹا آئی ایم ایف سے اس کی ناک رگڑوائی ۔ ماضی میں آرمی چیف پہلے سعودی عرب اور پھر امریکہ جایا کرتا تھا لیکن موجودہ آرمی چیف سید عاصم منیر سعودی عرب کے بعد چین گئے ہیں جبکہ ابھی تک ان کا دورہ امریکہ نہ ہوسکا ۔ یہ احمق یہ بھی نہیں سوچتے کہ خود عمران خان بھی مانتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی فوج کے کنٹرول میں ہوتی ہے ۔اب کیا امریکی ان احمقوں جیسے احمق یا بے خبر ہیں کہ انہیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ اگر جنرل باجوہ نہ چاہیں تو عمران خان امریکہ یا روس کے ساتھ تعلقات میں کوئی ردوبدل نہیں کرسکتے ۔ امریکی یقیناً چین اور روس کے ساتھ پاکستان کی قربت پر ناراض ہیں اور اس سائفر میں بھی اسی ناراضی کا اظہار کیا گیا ہے لیکن اگر انہوں نے رجیم چینج کرنا ہوتا تو پھر عمران خان جیسے کٹھ پتلی کی بجائے جنرل باجوہ کے خلاف سازش کرتے اور ان کی جگہ جنرل عاصم منیر کی بجائے کسی امریکی چمچے کو آرمی چیف بنواتے ۔ حالانکہ زلمے خلیل زاد کی ٹویٹ اور مغربی ممالک سے جنرل عاصم منیر کے خلاف اور عمران خان کے حق میں مہم سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ کا مہرہ کون ہے اور مخالف کون ؟۔ جہاں تک پی ٹی آئی کے ٹرولز کی مہم کا تعلق ہے تو ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ زیادہ خوشیاں نہ منائیں کیونکہ جلد انہیں رونا ہوگا۔ کیونکہ رجیم چینج کا بیانیہ ابسلوٹ جھوٹ لیکن آفیشل سیکرٹ ایکٹ ابسلوٹ حقیقت ہے۔ نہ جی ایچ کیو یا ڈی جی آئی ایس آئی کا سائفر گم ہوا ہے اور نہ دفتر خارجہ کا ۔ اپنے سائفر کے گم ہونے کا اعتراف صرف عمران خان کرچکے ہیں اور بہت جلد پتہ چل جائے گا کہ کن دو گماشتوں کے ذریعے عمران خان نے کئی خفیہ راز امریکہ اور برطانیہ بھجوائے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ