پاکستان اور امریکہ کی جمہوریت میں مماثلت کیسی مزاحیہ لگتی ہے۔ ادھر اعظم خان دستانے پہن کر عمران خان کے خلاف گواہ بننے کی ایکٹنگ کرنے کے لیے، کہاں آرام کررہے تھے۔ وہ جو خود کو توپ رپورٹر کہتے ہیں، وہ بھی خاموش ہیں، کچھ عرصے بعد وہ بھی داستان امیر حمزہ اس طرح سنائیں گے ،جیسے امریکہ میں نائب صدر بھی وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں۔ میری یادداشت میں بھٹو صاحب کے خلاف مسعود محمود کے علاوہ بہت سے وزیر اور وردی والے، ریٹائر ہونے کے بعد کتابیں بھی دوسروں سے لکھواتے اور خود کو روئیداد خان صاحب کی طرح حق گو کہتے ہیں۔ آج کی پارلیمنٹ جو 5سال کے بعد،خود کو مسلسل بدنامی میں لپٹے 2دن میں 53 آرڈیننس پاس کرکے، وزیراعظم سے وزیر قانون تک، ان سب کو ایک ہی جملہ یاد ہے ’’یہ سب قومی مفاد میں کیا جارہا ہے‘‘۔ قیمتیں بڑھتی ہیں تو بھی یہی کہا جاتا رہا ہے، باقی آپ پہاڑے تو یاد ہی رکھتے ہیں پتہ نہیں تو کسی سے جاکے پوچھ لیں، بازارنہیں دفتر میں۔کوئی شک نہیں کہ ہر حکومت ہمسایوں سے اچھے تعلقات کی بات کرتی ہے۔تاہم جانتے ہوئے بھی کہ جو شخص لال قلعہ، کو شیو کا قلعہ اور مغل تاریخ کا بین کرتے ہوئے کشمیریوں کے علاوہ منی پور میں ظلم کی انتہا کئے ہوئے ہے۔ اس سے تعلقات بہتر کیسے بنائے جاسکتے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہےکہ یوکرین اور روس میں تعلقات، یا پھر فلسطین اور اسرائیل میں تعلق اور امن کا ترازو سامنے رکھ دیا جائے۔ یہ ناممکنات کو ممکن بنانے کو سعودی شہزادےسے آگے بڑھ رہے ہیں۔
مجھے لال قلعہ کے ذکر پر لکھنؤ بھی یاد آیا اور وہی انیسویں صدی کا کہ جب اردو ادب میں معرکہ آرا، ادب تخلیق ہورہا تھا۔ لکھنؤ کے زوال کی ایک شکل ریختی تھی۔ ویسے یہ وہ شاعر تھے جو خاتون بن کے شعر لکھتے تھے اور قابل ذکر اس لئے بھی نہیں رہے کہ تذکروں میں تو انکا حوالہ مل جاتا ہے مگر ادب اور اعلیٰ ادب میں یہ حوالہ نہیں ہے۔ کوئی مجموعہ بھی نہیں (کسی نے دیکھا ہو تو مجھے بھی دکھا دیں)۔
سیاست کے زوال پر لکھتے لکھتے مجھے ریختی کیوں یاد آئی۔ مستزاد یہ کہ ایک بہت سنجیدہ اور معروف شاعر، جو کالم بھی لکھتے ہیں اور کبھی کبھی چار بندوں کے اظہاریے میں بھی شامل ہوتے ہیں۔ وہ ہیں ہمارے دوست اظہارالحق۔ مجھے ان کی کتاب کے ٹائٹل ’’اے آسمان نیچے اتر‘ ‘نے اپنی جانب کھینچا۔ مجموعہ کلام میں ورق پلٹتے ہوئے مصرعوں نے رک جانے کو کہا کہ شعر تھا۔
اولاد میری سات سمندر کے اس طرف
اجداد میرے خاک کے نیچے پڑے ہوئے
آگے بڑھی تو انقلابی نہ کہیں مگر حقیقت پر مبنی مصرعوں نے قلم کو پکڑ کر لکھنے کو کہا ’اہل تسبیح بھی اشراف کے نوکر نکلے‘ پھر میرا قلم پکڑ کر کہا لکھو ’’چھیدوں بھرے مرے جوتے، میلی مری پوشاک‘‘۔ میں اظہار کو محبت کی شاعری میں کبھی کبھی اور نواسوں، پوتوں کے قافیوں کے ساتھ غزل دیکھ کر، آگے بڑھی ایک الگ ورق پر لکھا تھا ’’دلشاد نامہ‘‘۔ ایک شعر لکھوں تو آپکی سمجھ میں آجائے گا کہ میں نے بات ریختی سے کیوں شروع کی تھی۔ ’’میں عشق تو برملا کرونگی ‘‘اس مصرعے نے اظہار کے لہجے میں محبت، رفاقت کے ساتھ ساتھ نوحے کا رنگ کیسا نظر آیا، سب کرکے وضو کھڑے ہیں کب سے،لیجاؤ کہ اب نہاچکی ہوں‘ شادمانی اور فراق کا آہنگ پہلے صرف اجداد تک محدود تھا اس دلشاد نامے نے تو افسانہ ہجر و وصال سب لکھنؤ کی ریختی پہ دو حرف بھیج کر عشق اور مشک دونوں کو پہچان لیا ہے۔
گز رونگی میں کہاں کہاں سے کہ سامنے میرے حسن منظر کی ضخیم ڈائری ہے۔ میں نے کچھ دو سال میں شمالی نائیجریا میں پوسٹنگ کے دوران، ڈاکٹر کی حیثیت سے دیکھا معروف ناول نگار کی حیثیت سے وہاں معاشرت، تنگ دستی اور موسم کی بے رحمی کے باوجود لوگوں کو اچھے برے کی تمیز تھی، حسن منظر کے گھر جو ملازم تھا، اس کے ہاتھ میں بھی کتاب ہوتی تھی۔ یہاں سے ابھرنے والے اسکالر، انقلابی اور ملٹری لیڈر تھے۔ چونکہ ڈاکٹر تھے اس لئے ڈائری میں غریب عورتوں اور مردوں کے ساتھ وہی کچھ ہوتا تھا، جو ہمارےملک میں اب تک ہوتاہے۔ یہ ڈائری نہیں، ان علاقوں کا زندگی نامہ ہے۔ پہلے انہوں نے سعودی عرب میں ملازمت کی تھی۔ وہ ناول’ الصفہ ‘کے نام سے شائع ہوا تھا۔ یہ ڈائری فروری 1964ء سے شروع ہوکر 22؍مئی 1968ء تک ہی نہیں کہ بعد میں احوالِ ایڈنبرامیں کام کا تذکرہ ہے مگر ہر حال میں لکھتے رہنے کا جنون کہ کینسر کے باوجود، قلم اب بھی جوان ہے۔
حسن منظر کے بعد میں نے عمران خان کی ڈائری کھولی۔ سب کچھ دھندلا دھندا نظر آرہا تھا، بن پڑھے بند کردی۔ اب میں نے پارلیمنٹ کے پانچ سال کی ڈائری کھولی۔ وہ سب اپنے لئے اسلحہ کا لائسنس بنوانے اور وزیراعظم کی طرف سے بالکل ’’سادہ‘‘ کھانا کھانے میں مشغول تھے۔ کم از کم 25 ڈشز تھیں۔ رہا توشہ خانے کا مسئلہ تو یہ شوشہ خانہ، ہر اس شخص نے وصول کیا جس نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور اپنی صوابدید کے مطابق کچھ رقم خزانے میں جمع کرائی۔ گویا اس مجرمانہ حرکت میں سب گدی نشین شامل ہیں۔ اور ان کے جھولی چک افسر بھی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے پارلیمنٹ کی شمع گل کرنے سے پہلے اپنے مستقبل کے لئے ایک نہیں کئی ایک یونیورسٹیوں کو قائم کرنے کی منظوری لی۔ اب تک جو یونیورسٹیاں ہیں ان کی کارکردگی پہ تو ساری دنیا حرف گیری کرتی ہے۔ بلکہ وضاحت کروں تو جو بڑے بڑے نام ہیں اور لاکھوں میں فیسیں لیتے ہیں۔ گویا اس طرح تجارت کے لئے رضا ربانی کی مخالفت کے باوجود بل پاس ہوگیا۔ توشہ خانے میں عمران کو نہیں کہ اس مظلوم نے تو کسی کاغذ کسی فائل پر دستخط نہیں کیے۔ یہاں تو بی بی اور گوگی کو داخل زندان ہونا چاہئے،تہمتیں سب پر ہیں اور سب جانتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ