قائدِاعظم کے چودہ نکات: اتحاد کی آخری کوشش : تحریر الطاف حسن قریشی


نہرو رِپورٹ کی حتمی منظوری کے لیے 22 دسمبر 1928ء کو صدر کانگریس مسٹر موتی لال نہرو نے ایک کنونشن کلکتہ میں طلب کیا۔ قائدِاعظم کی رائے یہ تھی کہ نہرو رِپورٹ چند مناسب ترامیم کے ساتھ منظور کر لی جائے۔ اِس ضمن میں اُنہوں نے چند مصالحاتی نکات پیش کیے اور ساتھ ہی کنونشن کو متنبہ کیا کہ ایسا آئین جو اَقلیتوں کے اندر خوف اور بےاعتمادی پیدا کرتا ہو، اُس کا لازمی نتیجہ خانہ جنگی ہو گا۔ مسٹر ہیکٹر بولیتھو نے اپنی کتاب ’’حیاتِ قائدِاعظم‘‘میں لکھا ہے کہ کلکتہ کنونشن میں قائدِاعظم کی تقریر سننے والوں میں ایک پارسی جمشید نوشیروان جی بھی تھا جو جناح صاحب کا دوست اور اُن کا بڑا مداح تھا۔ اپنے دوست کی یاد تازہ کرتے ہوئے اُس نے بتایا کہ اُنہوں نے کنونشن میں مسلمانوں کے حق میں زوردار تقریر کی۔ مہاسبھا کے ایک عہدےدار نے اُن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں مسلمانوں کی طرف سے بولنے کا کوئی حق نہیں۔ اُس کی حمایت میں کچھ اور آوازیں بھی اٹھیں جو جناح صاحب پر بہت شاق گزریں اور وُہ اِجلاس سے اُٹھ کر ہوٹل چلے گئے۔ دوسرے دن صبح ساڑھے دس بجے وہ کلکتے سے بمبئی روانہ ہوئے اور مَیں اسٹیشن پر اُنہیں خدا حافظ کہنے گیا۔ وہ اَپنے فرسٹ کلاس ڈبے کے دروازے میں کھڑے تھے۔ اُنہوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا ’’جمشید! یہ سیاسی فراق کا آغاز ہے۔‘‘ مَیں نے دیکھا اُن کی آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے۔

قائدِاعظم نے نہرو رِپورٹ سے مایوس ہوجانے کے بعد مارچ 1929ء میں مسلم لیگ کا اجلاس دہلی میں طلب کیا اور اُس میں سیاسی مصالحت کی خاطر مسلمانوں کی کم سے کم شرائط چودہ نکات کی شکل میں پیش کیں۔ اُن میں ’’تجاویزِ دہلی‘‘ بھی شامل تھیں۔ مسلم لیگ نے اپنے اجلاس میں نہرو رِپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ایک قرارداد کے ذریعے چودہ نکات کی توثیق کی جن کے گرد سالہاسال مستقبل کی سیاست گھومتی رہی۔ وہ نکات درج ذیل تھے:

(1) آئندہ دَستور وفاقی ہوگا جبکہ صوبوں کے پاس تمام بقیہ اختیارات (Residuary Powers) ہوں گے۔ (2) یکساں خودمختاری تمام صوبوں کو دی جائے گی۔ (3) ملک کے تمام منتخب اداروں میں اقلیتوں کی مؤثر نمائندگی کا اصول اپنایا جائے گا اور کسی بھی صوبے میں اکثریت کو اَقلیت یا مساوی نمائندگی میں تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ (4) مرکزی قانون ساز اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی ایک تہائی سے کم نہیں ہو گی۔ (5) فرقہ وارانہ نمائندگی جداگانہ انتخابات کے اصول پر جاری رہے گی، البتہ تمام فرقوں کو مخلوط انتخابات کا آپشن استعمال کرنے کا اختیار بھی ہو گا۔ (6) اگر کسی وقت علاقائی ردوبدل کی ضرورت پیش آئے، تو بنگال، پنجاب اور صوبہ سرحد کے صوبوں میں مسلم اکثریت کسی بھی طور متاثر نہیں ہو گی۔ (7) مکمل مذہبی آزادی جس میں عقیدے کی آزادی، اُس کی اشاعت اور تبلیغ کی آزادی اور اُس پر عمل درآمد کی آزادی کی ضمانت تمام فرقوں کو دی جائے گی۔ (8) کسی بھی منتخب ادارے میں کوئی ایسا بِل یا ریزولیشن پاس نہیں کیا جائے گا جسے کسی فرقے کے تین چوتھائی ارکان اپنے مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہوں۔ (9) سندھ کو بمبئی پریذیڈنسی سے علیحدہ کیا جائے گا۔ (10) دوسرے صوبوں کی طرح شمال مغربی سرحدی صوبے اور بلوچستان میں سیاسی اصلاحات نافذ کی جائیں گی۔ (11) دستور میں ایسی شقیں رکھی جائیں گی جو حکومت اور مقامی اداروں میں مسلمانوں کو دوسرے ہندوستانیوں کے مقابلے میں ملازمتوں میں معقول حصّہ دلانے کی ضمانت دیں گی۔ (12) دستور میں ایسے اقدامات کا تعین کیا جائے گا جو مسلمانوں کی ثقافت کو تحفظ فراہم کریں گے، مسلم تعلیم کو فروغ دیں گے، مذہب اور پرسنل لا کی حفاظت کریں گے، مسلمانوں کے خیراتی اداروں کو تقویت پہنچائیں گے اور رِیاست جو اَیسے اداروں کو گرانٹ دیتی ہے، اُن میں مسلمانوں کو بھی جائز حصہ دیا جائے گا۔ (13) کوئی ایسی مرکزی اور صوبائی کابینہ تشکیل نہیں دی جائے گی جس میں مسلم وزیروں کی تعداد ایک تہائی سے کم ہو۔ (14) مرکزی مقننہ آئین میں کوئی ایسی تبدیلی منظور نہیں کرے گی جس میں وفاق میں شامل اکائیوں کی رضامندی شامل نہ ہو۔

چودہ نکات مرتب کیے جانے سے قبل ہندو قیادت نے قائدِاعظم کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ہم آپ کو سادہ چیک دیتے ہیں، لیکن قائدِاعظم نے اُن کے منافقانہ رویّوں کے بارے میں بیان دیا کہ ’’مَیں جب ہندوؤں کو کہتا ہوں کہ مسلمانوں کو میرے چودہ نکات دے دو، تو مَیں گناہگار بنتا ہوں۔ مَیں سفید کاغذ پر دستخط نہیں مانگتا جیسا کہ گاندھی اور پٹیل نے کہا تھا۔ مَیں چاہتا ہوں کہ وہ صرف میرے چودہ نکات پورے کر دیں۔‘‘

قائدِاعظم کے چودہ نکات میں اُن آئینی تحفظات کی تفصیل پیش کی گئی تھی جو مسلمان اپنا قومی تشخص قائم رکھنے کے لیے ہندوستان کے آئندہ دَستور میں شامل کرانا چاہتے تھے۔ اِن نکات میں مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت، مذہب اور شخصی قوانین کے تحفظ کی بات کی گئی تھی، لیکن اِس مرتبہ پھر ہندو قیادت اور ہندو پریس اُن کی مخالفت پر کمربستہ ہو گئے۔ اُنہوں نے سکھوں کو بھی ورغلا کر اَپنے ساتھ ملا لیا اور ہر سیاسی اجلاس میں چودہ نکات مسترد کیے جاتے رہے جو اِنتہائی معقول اور حددرجہ معتدل تھے۔ نہرو رِپورٹ نے بھی اتفاق کے تمام راستے بند کر دیے۔ اِس طرح باہمی اتحاد کا ہر امکان تقریباً ختم ہو گیا۔ اعلیٰ ہندو قیادت کی ذہنی کدورت کا اِس امر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پنڈت نہرو نے 27 ستمبر 1931ء کو ایک خط گاندھی کے نام لکھا کہ ’’اگر مجھے اپنے دوست مسٹر جناح کے چودہ نکات کی گواہی دینی پڑے، تو مَیں کسی ویران جزیرے میں جانا پسند کروں گا جہاں لوگ چودہ نکات کی جگالی نہیں کریں گے۔‘‘

قائدِاعظم ہندو قیادت کے منافقانہ طرزِ عمل سے اِس قدر دِلبرداشتہ ہوئے کہ 1929ء کے وسط میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے لیے لندن چلے گئے۔ اُنہوں نے اِس سے قبل لیبر پارٹی کے وزیرِاعظم جیمز ریمزے میکڈونلڈ کو خط لکھا تھا کہ اب ہندوستان کو برطانیہ کے وعدوں پر اعتماد نہیں رہا، اِس لیے برطانوی وزیرِ اعظم ہندوستان کے نمائندوں اور بااثر سیاسی رہنماؤں کی کانفرنس بلائیں جس میں سب مل کر مسائل کا ایک ایسا حل تلاش کریں جو سبھی کے لیے قابلِ قبول ہو۔ سائمن کمیشن نے بھی یہی سفارش کی تھی۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ