بھارت دشمن سرگرمیوں کے باعث ڈاکٹر عبدالحمید فیاض کی ضمانت منظور نہیں کی جا سکتی مقبوضہ کشمیر ہائی کورٹ


 سری نگر— مقبوضہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے جماعت اسلامی مقبوضہ جموںو کشمیرکے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض کی کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید کے حکم کو برقرار رکھاہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے جسٹس ایم اے چودھری نے  ڈاکٹر عبدالحمید فیاض کی اہلیہ کی طرف سے ان کی درخواست  ضمانت کی سماعت کی۔ عدالت نے  دائر عرضداشت کو مسترد کرتے ہوئے گزشتہ سال 16 ستمبر کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ شوپیاں کے احکامات کو برقراررکھا۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہاکہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر فیاض ایک اعلی تعلیم یافتہ شخص ہیں اور انہوں نے کشمیر یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔

وہ کالج کی زندگی سے ہی جماعت اسلامی سے وابستہ تھے اور بعد ازاں انہیں سال 2018میں جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے امیرکے طورپر بھی منتخب کیاگیا۔ریکارڈ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر فیاض کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے ایک مضبوط حامی ہیں اور وہ بھارت سے آزادی اور پاکستان کے ساتھ جموںو کشمیر کے الحاق کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔

جسٹس ایم اے چودھری نے کہا کہ ڈاکٹر فیاض کو بھارت کی سالمیت کے خلاف مہم چلانے کے علاوہ عام لوگوں کو   بھارت  دشمن پروپیگنڈے کے لیے اکسانے اور تحریک دینے کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔

ڈاکٹر فیاض نے  ایک بااثر شخص ہونے کے ناطے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو  بھارت کے خلاف  اکسایا   جس کا مقصد ریاست جموں و کشمیر کو ہندوستان سے آزاد کرانا اور اس کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا تھا۔

یاد رہے  پبلک سیفٹی ایکٹ ( پی ایس اے ) قانون کے تحت کوئی بھی پولیس اہلکار کسی بھی شہری کو گھر یا باہر سے محض شک کی بنیاد پر گرفتار کر سکتا ہے اور گرفتار کیے گئے شہری کے اہل خانہ کو اطلاع نہیں دی جاتی نہ ہی اسے قانونی امداد حاصل کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔پی ایس اے کے تحت بغیر عدالتی سماعت کے کم سے کم دو سال تک کسی کو بھی بلا لحاظ عمر قید کیا جا سکتا ہے۔

جموں وکشمیر  میںمتعدد کمسن بچوں کو بھی اب تک اس قانون کے تحت قید کیا جا چکا ہے۔ بھارتی حکومت نے  فروری2019 کو جماعت اسلامی مقبوضہ جموںو کشمیر کو کالعدم قراردے دیا تھا جبکہ جماعت کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض سمیت جماعت کے چار سو سے زیادہ کارکنوں اور رہنماوں کو گرفتار کر لیا تھا