تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے توشہ خانہ کیس میں اپنی گرفتاری سے قبل ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی جو اُن کی گرفتاری کے بعد سامنے آئی۔ اپنے اس وڈیو پیغام میں عمران خان نے کہا کہ یہ پیغام پاکستان کے عوام کیلئے ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ جب یہ پیغام عوام تک پہنچے گا اُن کو گرفتار کیا جا چکا ہو گا۔ خان صاحب نے کہا میری عوام سے اپیل ہے کہ آپ نے گھروں میں چپ کر کے نہیں بیٹھنا۔ انہوں نے کہا کہ جو جدوجہد میں کر رہا ہوں وہ اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ عوام کیلئے اوراس قوم کے بچوں کے مستقبل کیلئے کر رہا ہوں۔اُنہوں نے عوام پر زور دیا کہ اگر آپ اپنے حقوق کیلئے کھڑے نہ ہوے تو ہمیشہ غلامی کی زندگی گزاریں گے، غلامی کی زنجیریں بغیر جدوجہد کے نہیں ٹوٹتیں،آزادی کوئی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیتا۔ خان صاحب کے اس خطاب کا اصل مقصد اپنے ووٹروں، سپوٹروں اور چاہنے والوں کو اپنی گرفتاری کے خلاف پرامن احتجاج کیلئے باہر نکالنا تھا بلکہ وہ پرامن احتجاج کا ایک سلسلہ چاہتے تھے۔ لیکن اُن کی گرفتاری کے بعد نہ کوئی احتجاج دیکھا گیا، نہ کوئی تحریک انصاف کا رہنما باہر نکلا۔ اگر کہیں کوئی نکلا تو درجن دو درجن سے زیادہ افراد کہیں نظر نہ آئے۔ عمران خان خود سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے لیکن اُن کو اپنی ریڈ لائن کہنے والے، اُن کیلئے اپنی جان نچھاور کرنے کا دعویٰ کرنے والے، اُن کے نام پر ووٹ لینے والےکہیں نظر نہ آئے۔ عمران خان کی اپیل کو سنا اَن سنا کر دیا گیا۔ وائس چیئرمین تحریک انصاف شاہ محمود قریشی کا ایک وڈیو پیغام عوام کیلئے سامنے آیا جس میں کہا گیاکہ عمران خان کی گرفتاری پر پرامن احتجاج کریں لیکن نہ وہ خود احتجاج کیلئےباہر نکلے نہ ہی اُن کے کہے پر کسی نے احتجاج کیا۔ تحریک انصاف کا کوئی دوسرا رہنما بھی پر امن احتجاج کیلئے باہر نہ نکلا۔تحریک انصاف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور عمران خان پاکستان کے سب سے پاپولر لیڈر ہیں لیکن خان صاحب کی گرفتاری پر احتجاج صرف سوشل میڈیا تک محدود رہا۔ خان صاحب کے کہنے کے باوجود سب اپنے اپنے گھروں میں چھپ کر کیوں بیٹھ گئے؟ خان صاحب نے تو پرامن احتجاج کی اپیل کی تھی۔ تحریک انصاف کے چھپے ہوئے رہنما اب اپنی گرفتاری سے کیوں ڈرتے ہیں جب اُن کا لیڈر جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا ہے۔یہ صورت حال عمران خان کیلئے کتنی مایوس کن ہو گی،جب اُن کو پتا چلے گا کہ اُن کی گرفتاری کے بعد نہ کوئی خاطر خواہ احتجاج ہوا ،نہ لوگ اُن کی توقع کے مطابق باہر نکلے ۔ مئی 9 کے پرتشدد احتجاج اور اُس کے بعد تحریک انصاف کے خلاف حکومتی آپریشن سے یقیناً تحریک انصاف کے رہنماؤں اور سپورٹرز میں ایک ڈر اور خوف پیدا ہوا لیکن عمران خان کی حالیہ گرفتاری پرتحریک انصاف کی پوری قیادت اور اُس کے ووٹر، سپورٹرز ایسے چھپ جائیں گے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ،شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ ردعمل اگر نظر آتا ہے تو تحریک انصاف کی کور کمیٹی کی زبانی کلامی باتوں میں۔ کور کمیٹی کے ذمہ دار بھی سامنے نہیں آتے ، بس ایک پریس ریلیز جاری کر دی جاتی ہے کہ کور کمیٹی نے یہ کہا، وہ کہا۔نہیں معلوم کہ عمران خان کو اس بارے میں بتایا گیا یا نہیں۔ وہ یہ بھی سن کر حیران ہوں گے کہ بیرون ملک بھی کسی جگہ تحریک انصاف اوورسیز کی طرف سے کوئی بڑا احتجاج نہیں ہوا۔ اوورسیز پی ٹی آئی کے حوالے سے اگر کچھ سامنے آیا تو وہ پاکستان دشمنی کےچند ایک واقعات تھے۔ ایک شخص پاکستانی پاسپورٹ پھاڑ رہا ہے تو دوسرا ایک پاکستانی قونصلیٹ سے قومی پرچم کر اتار کر تحریک انصاف کا جھنڈا لگا کر اپنی ویڈیو شئیر کر رہا ہے۔ ایک خاتون فوج اور فوج کی اعلیٰ قیادت کے خلاف گھٹیا زبان استعمال کر رہی اور ایک اور خاتوں اعلان کر رہی ہے کہ14اگست نہیں منایا جا ئے گا۔یہ عمران خان سے کیسی محبت ہے جس نے ان لوگوں کو اس حد تک گرا دیا کہ پاکستان دشمنی پر اُتر آئے۔ بیرون ملک رہنے والے ایسے تمام افراد کی پاکستان شہریت ختم کرنی چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اوورسیز کمیونٹی کو ایسےپراگندہ طبع لوگوں کی کھل کر مذمت کرنی چاہئے کیوں کہ یہ لوگ تمام اوور سیز پاکستانیوں کی بدنامی کا بھی باعث بن رہے ہیں۔ کچھ لوگوںکا کہنا ہے کہ ان پاکستان دشمنوں کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سے قطہ نظر کہ یہ سچ ہے یا جھوٹ، لیکن ان واقعات کے خلاف تحریک انصاف کے رہنما، اُن کی کور کمیٹی اور اوورسیز تنظیموں کی طرف سے کوئی آواز کیوں نہیں اُٹھائی گئی۔ تحریک انصاف کے کسی رہنما نے ان واقعات پر کوئی مذمتی بیان تک بھی جاری نہیں کیا!افسوس صد افسوس۔
بشکریہ روزنامہ جنگ