میں تو ہمیشہ یہ لکھتا اور کہتا آرہا ہوں کہ بڑے لوگ چھوٹے شہروں میں ملتے ہیں۔
گاؤں، قصبوں،چھوٹے شہروں میں اب بھی ضمیر زندہ ہیں، روایات برقرار ہیں، اقدار باقی ہیں، وہاں زیادہ وقت سڑکوں پر نہیں گزرتا۔ نوجوانوں میں اپنےکیلئے بزرگوں کیلئےمحبت اور عقیدت کے جذبات ہیں۔ چھوٹے بڑوں کا احترام کرتے ہیں۔ محلّے داری بھی ہے۔ مسجد کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ زبان بازاری نہیں ہوتی ۔ کمرشلزم نے ان علاقوں کو پوری طرح لپیٹ میں نہیں لیاہے۔
آئیے مل کر پہلے واہگہ سے گوادر تک ہم سب اہلِ وطن سرہاری کے عظیم انسانوں کی خدمت میں سلام پیش کریں۔ بہت کم آبادی والا یہ قصبہ دنیا بھر میں گزشتہ ہفتے نمایاں رہا ہے۔ شہید بے نظیر بھٹو ڈویژن، ضلع سانگھڑ اور تحصیل شہداد پور کی اس ٹاؤن کمیٹی کے لوگوں نے انصار مدینہ کی روایات کو تازہ کیا۔ ہزارہ ایکسپریس کی بوگیاں جب پٹڑی سے اتریں اور سرہاری والوں کو، سندھی ٹوپی اجرک والوں کو جب اپنے ہم وطنوں کی ابتلا کی خبر ملی تو وہ اپنے گھروں سے نکل آئے۔ ان کی حاضر دماغی دیکھئے کہ انہیں اندازہ تھا کہ جب کوئی ریل پٹڑی سے اترتی ہے تو اس کے مسافروں پر کیا گزرتی ہے۔ ان کو ہمدردی کے ساتھ ساتھ کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بھی ساتھ لارہے تھے۔ بچے بڑے عورتیں سبھی بکھری ہوئی بوگیوں تک پہنچ رہے تھے۔ آنکھوں میں والہانہ چمک تھی۔ ان کی پیشانیاں ایک عزم سے تمتمارہی تھیں۔ یہ مسافر کہاں جارہے تھے۔ کونسی زبان بولتے ہیں کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کیا مسلک ہے۔ وہ کس پارٹی کے حامی ہیں۔ ایسا کوئی خیال ان کے قریب نہیں پھٹک رہا تھا۔ ایک ہی جذبہ ہے کچھ انسان کچھ ہم وطن اس وقت سخت ابتلا کا شکار ہیں۔ انہیں مدد کی ضرورت ہے۔
بڑے شہروں میں کوئی حادثہ ہوجائے تو لوگ قریب سے گزرتے رہتے ہیں۔ زخمی تڑپتے ہیں۔ مدد کو پکارتے ہیں۔ شہر والے پولیس تھانہ کچہری سے گھبراتے ہیں۔ کمرشلزم حاوی ہے۔ حادثے پر رکنے سے کام رک جائیں گے۔ کاروبارمیں خلل پڑے گا۔ انسانی جان کی ان کے نزدیک اہمیت نہیں ہے۔ لیکن سرہاری کے یہ بڑے لوگ۔ یہ خوف خدا رکھنے والے ہم وطن، انسانیت کا درد رکھتے ہیں۔ مہذب ملکوں میں سب سے زیادہ اہمیت انسانی زندگی کی ہے۔ یہ سارے قوانین اس لئے بنتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں سارے بل اس لیے پیش ہوتے ہیں کہ ہر انسان کو زندگی کی آسانیاں فراہم کی جائیں۔ وہاں کی پولیس، فوج انسانی زندگی کے تحفظ کیلئےسرگرم رہتی ہے۔ انسانی جان کی قدر مہذب لوگ کرتے ہیں تو سرہاری کے نوجوان بزرگ ان مہذب ملکوں کی ترقی یافتہ قوموں کے برابر کا ذہنی معیار رکھتے ہیں۔
اہل سرہاری ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔ لائق تکریم ہیں۔ یہ شاہ لطیف کے سُروں میں بستے ہیں۔ شہباز قلندر کے چراغ ان سے روشن ہیں۔ سچل سرمست کے اشعار میں یہی لوگ سانس لیتے ہیں۔ جمہوریت کی روح یہی لوگ ہیں۔ جذبۂ سرہاری کو سلام۔ آج کے انتہائی بد ترین سماجی حالات میں، بداخلاقی اور سفاکی کے دَور میں سرہاری والوں نے پاکستان کی عزت رکھ لی ہے۔ کسی وقت سرہاری جانا پڑے گا۔
اس طرح کے ایک اور چھوٹے شہر متھرا نے بھی عالمی افق پر اپنا مقام بنالیا ہے۔ جب بہت زیادہ حبس ہو، اپنے بھی ساتھ چھوڑ رہے ہوں، مقتدر حلقے یہ گمان کرچکے ہوں کہ ان کی کامیاب حکمتِ عملی سے اب مطلوبہ ہدف حاصل ہوچکا ،اب کوئی اس کا نام بھی نہیں لے گا۔ جو اس وقت جیل میں ہے،ایک روز پہلے ہی اسے گرفتار کیا گیا ہے، سب دعویٰ کررہے ہیں کہ واہگہ سے گوادر تک کوئی باہر نہیں نکلا۔ حکومتی حلقے، طاقت ور ادارے، قانون نافذ کرنے والے محکمے اپنی حکمت عملی بنارہے ہیں کہ اس تحصیل کے چیئرمین کے الیکشن میں کسی طرح بھی انصاف کو فتح مند نہیں ہونے دینا ہے۔ نگراں وزیر اعلیٰ بھی اس شاہراہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ صوبے کے گورنر بھی اور اس وقت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے پی ٹی آئی کے منحرف نور عالم کا حلقہ بھی یہی ہے۔ پشاور سے 40کلومیٹر دور وارسک روڈ پر واقع اس چھوٹے سے قصبے کے غریب لوگوں نے انتہائی مایوس کن، مخالفانہ ماحول میں کامیاب حکمت عملی کی مثال قائم کردی ہے۔ یہاں سے کامیاب ہونے والے امیدوار انعام اللہ بہت غریب ہیں ۔ ان کے والد کسی جگہ چوکیدار ہیں۔ یہاں انتخابی رپورٹنگ کرنے والے ایک رفیق کار نے بتایا ہے کہ ایک روز پہلے ہی عمران خان گرفتار ہوئے۔ اس حوالے سے بھی کارکن مایوس تھے، علاقے کے بڑے لوگ روپوش بھی تھے، اس رات پارٹی کے کارکنوں کے گھروں پر چھاپے بھی مارے گئے، وہ گھروں پر نہیں تھے، لوگ غریب ہیں مگر پڑھے لکھے ہیں۔ شہر کے قریب ہونے کی وجہ سے گاؤں میں شہری سہولتیں ہیں۔ عام دیہات کی نسبت اسے ترقی یافتہ کہا جاسکتا ہے۔ یہاں طالبات کے کالج بھی ہیں، طلبہ کے بھی۔ یہاں کے باسیوں میں ایک جذبہ ہے آگے بڑھنے کا۔ پہلے چیئرمین کا تعلق جمعیت علمائے اسلام سے تھا۔ اب بھی یہاں سرکاری طور پر جے یو آئی کا اثر و نفوذ زیادہ ہے۔ میدان میں جماعت اسلامی بھی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی بھی، پی ٹی آئی نے 20735 ووٹ حاصل کیے ہیں جے یو آئی نے 15927 جماعت اسلامی 7641اے این پی نے 4112۔
معتبر ذرائع کہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کیلئےبھی یہ انتخاب آنے والے صوبائی اور قومی انتخابات کیلئےایک ورکشاپ، ایک ریہرسل کی حیثیت رکھتا تھا۔ جے یو آئی،اے این پی، جماعت اسلامی کیلئےبھی۔ طاقت کا استعمال کیا گیا۔ انعام اللہ کی انتخابی مہم غریب لوگوں نے چندہ جمع کرکے چلائی۔ وہ پی ٹی آئی کے پرچم لگاتے تھے۔ جو سرکاری کارندے اتار دیتے تھے۔ خیال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے روپوش بڑے لیڈروں نے حالات کا اندازہ کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو پہلے سے ایک انتخابی حکمت عملی بناکر دے دی تھی۔ جس کے ذریعے پولنگ سے پہلے کی سرکاری کوششیں بھی ناکام رہیں۔ متھرا کے پی ٹی آئی کے کارکنوں نے عزم کرلیا تھا کہ اس الیکشن کو جیت کر دکھانا ہے۔ چاہے اپنی ٹوپی کی جگہ دوسری پارٹیوں کی ٹوپیاں پہن کر پھرا جائے۔ اپنے کیمپ خالی کیے جائیں۔ ووٹروں کو دوسری پارٹیوں کے کیمپوں سے پولنگ بوتھ پر بھیجا جائے۔ پھر بعد میں گنتی کے وقت، نتیجے کا فارم حاصل کرتے وقت بھی خبردار رہا جائے۔
متھرا کے غریب باشندوں نے آئین اور جمہوریت کی سر بلندی کیلئےمزاحمت اور کوشش کی ایک مثال قائم کی ہے۔ جو لائق تحسین ہے۔ یہ آنے والے دَور کی ایک دھندلی سی تصویر ہے۔
سرہاری کی میزبانی۔ متھرا کی سیاسی بیداری پر ہم سب کو بلا امتیاز رنگ و نسل و جماعت فخر ہونا چاہئے کہ’’ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔‘‘
بشکریہ روزنامہ جنگ