انتخابات کب ہوں گے ؟ : تحریر مزمل سہروردی


قومی اسمبلی اپنی مدت سے پہلے جا رہی ہے۔ آئین کے مطابق نوے دن میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ لیکن آئین میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب نئی مردم شماری کے نتائج منظور ہو جائیں تو پھر انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہوںگے۔

اب آئین کی کس شق پر عمل ہوگا اور آئین کی کس شق پر عمل نہیں ہوگا، یہ بڑا سوال بن گیا ہے۔ کیا نئے انتخابات نئی مردم شماری کے تحت کرانے کی شق نوے دن میں انتخابات کرانے کی شق سے کم اہم ہے؟ اگر ہے تو کیوں؟

اگر مردم شماری کے نتائج منظور ہو جائیں تو پھر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں نئی مردم شماری کے مطابق ہونی چاہیے، ملک میں انتخابی حلقہ بندیاں نئی نشستوں کے مطابق ہونی چاہیے۔ لیکن قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کو نئی مردم شماری کے مطابق کرنے کے لیے بھی آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔

ہمارے آئین کے مطابق سیٹوں کی تعداد میں کمی یا اضافہ آئینی ترمیم کے بغیر ممکن نہیں۔ الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ نئی مردم شماری کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کا نوٹیفکیشن کر دے، نہ ہی یہ اختیار حکومت کے پاس ہے۔

قومی اسمبلی کی نشستوں میں ردو بدل اور ان کو نئی مردم شماری کے مطابق کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 51کے سیکشن 3میں ترمیم کرنا ہوگی۔

اس کے بغیر سیٹوں میں ردو بدل ممکن نہیں۔ کس صوبے میں قومی اسمبلی کی کتنی نشستیں ہوںگی، یہ آئین میں لکھا ہے، اس لیے آئین میں ہی ترمیم کرنا ہوگی۔ اسی طرح کس صوبے کی صوبائی اسمبلی میں کتنی سیٹیں ہوںگی، یہ بھی آئین کے آرٹیکل 106میں درج ہے۔

نئی مردم شماری کے نتائج کے مطابق صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں ردو بدل کے آئین کے آرٹیکل 106میں ترمیم کرنا لازمی ہے۔ اس کے بغیر یہ بھی ممکن نہیں۔ ایک طرف تو نئی مردم شماری کے نتائج قومی مفادات کونسل نے متفقہ طو رپر منظور کر لیے ہیں، لیکن اس کے بعد نئی حلقہ بندیوں اور ان نتائج کے مطابق سیٹوں کی تقسیم کے لیے آئینی ترمیم نہیں ہوئی ہے۔

اب کیا ہوگا؟سب کہہ رہے ہیں کہ انتخابات میں تاخیر اس لیے ہوگی کہ نئی حلقہ بندیاں ہونی ہیں۔ میرا سوال ہے کہ آئینی ترمیم کے بغیر حلقہ بندیاں کیسے ہوںگی؟ یہاں تو آئین کی شقیںآپس میں ٹکرا گئی ہیں۔

ایک طرف آئین میں لکھا ہے کہ جب نئی مردم شماری کے نتائج آجائیں تو انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق ہوںگے دوسری طرف آئین میں ہی رکاوٹ ہے کہ بے شک نئی مردم شماری کے نتائج آبھی جائیں پھر بھی جب تک آئین میں ترمیم نہ ہو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں کسی بھی سیٹ کا ردو بدل ممکن نہیں۔ اب یہاں بھی آئین کی کونسی شق چلے گی؟

کیا نئی مردم شماری کے نتائج آنے کے بعد بھی ہم پرانی مردم شماری کے مطابق سیٹیوں کی تقسیم کے مطابق ہی انتخابات کرائیں گے جو آئین کی خلاف ورزی ہوگی؟ کیا ہم الیکشن کمیشن کو کہیں گے کہ اب جب نئی مردم شماری کے نتائج آگئے ہیں تو پھر وہ نئی مردم شماری کے نتائج کے مطابق حلقہ بندیاں کرے جو کسی بھی آئینی ترمیم کے بغیر آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔

اس لیے آئین کی خلاف ورزی ہونا تو تقریبا طے ہی ہوگیا ہے، اب کونسی شق کی خلاف ورزی کرنی ہے اور کونسی شق کی خلاف ورشی نہیں کرنی ہے، یہی طے کرنا باقی ہے۔

اب ایک صورتحال یہ ہے کہ الیکشن نئی مردم شماری کے مطابق ہوں لیکن سیٹوں کی تقسیم پرانی مردم شماری کے مطابق ہی رہے ۔

اس طرح آئین کی دونوں شقوں کی پاسداری ہو جائے گی۔ لیکن نوے دن میں انتخابات کا کیا کریں گے، اس کی خلاف ورزی تو ہونی ہی ہے۔ لیکن یہ سب آئین سے کھیلنا ہے۔ یہ سب آئین کو مرضی کے مطابق استعمال کرنا ہے۔

دوستوں کی رائے میں معاملہ سپریم کورٹ چلا جائے گا۔ لیکن کب؟ موجودہ چیف جسٹس کے دور میں جائے گا یا اگلے چیف جسٹس کے دور میں۔ دونوں میں بہت فرق ہے۔

موجودہ چیف جسٹس شاید دلیرانہ فیصلہ نہ کرپائیں جب کہ اگلے چیف جسٹس مضبوط ہوںگے، میری رائے میں وہ فوری فل کورٹ بنا دیں گے اور سپریم کورٹ کے فل کورٹ سے جو بھی فیصلہ آجائے گا وہ سب کو ماننا پڑے گا۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ آئینی تشریح کے معاملے پر جناب جسٹس قاضی فائز عیسی کا رویہ بہت سخت ہوگا۔ وہ انتخابات میں تاخیر کی کسی بھی صورت اجازت نہیں دیں گے۔

اس لیے عین ممکن ہے کہ سپریم کورٹ ملک میں بروقت انتخابات کا حکم دے دے اور میرے دوست جو ملک میں انتخابات کی تاخیر کا جو اندازہ لگائے بیٹھے ہیں، ان کے تمام اندازے غلط ثابت ہو جائیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن نے جب سیٹوں میں ردو بدل نہیں کرنا تو نئی حلقہ بندیاں کون سی کرنی ہے جس کے لیے تاخیر ہوگی۔

یہ تو ممکن ہے کہ کچھ ووٹرز کو ایک حلقہ سے نکال کر دوسرے حلقہ میں ڈال دیا جائے۔ لیکن کوئی نئے حلقہ نہیں بنانے ہیں۔ یہ کام نئے حلقہ بنانے سے کہیں کم ہے۔ اس لیے اگر نوے دن میں انتخابات ہونے ہیں اور یہ ووٹرز کو ادھر ادھر کرنے کا کام بھی شامل کرلیں تو چار چھ ہفتے اور لگ سکتے ہیں۔ پھر بھی انتخابات اسی سال ہو جانے چاہیے۔ اس سے آگے کیسے جائیں گے؟ کیا دلیل ہوگی؟

دوستوں کی رائے ہے کہ میں عجیب بات کر رہا ہوں جب پنجاب اور کے پی کے انتخابات میں اتنی تاخیر ہو گئی ہے اور کوئی کچھ نہیں کر سکا۔ تو پھر آگے بھی انتخابات میں تاخیر ہو جائے گی تو کوئی کچھ نہیں کر سکے گا۔ اس لیے کچھ دوستوں کی رائے میں دو سال انتخابات نہیں ہوںگے جب کہ کچھ دوستوں کی رائے میں مارچ تک بالکل نہیں ہوںگے۔

میری عرض ہے کہ پنجاب اور کے پی کے انتخابات کسی اسٹبلشمنٹ نے نہیں روکے۔ قومی اسمبلی نے پنجاب اور کے پی کے انتخابات کے لیے پیسے دینے سے انکار کیا۔ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس قومی اسمبلی کے اس انکارکے آگے بے بس ہو گئے۔

قومی اسمبلی پر توہین عدالت نہیں لگ سکتی، جیسے سپریم کورٹ پر توہین عدالت نہیں لگ سکتی۔ جیسے سپریم کورٹ اگر آئین کی خلاف ورزی کرے تو کچھ نہیں ہو سکتا، اسی طرح اگر پارلیمان بھی آئین کی خلاف ورزی کرے تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک عجیب صورتحال تھی۔ لیکن آگے آئین میں تاخیر کے لیے کوئی پارلیمان موجود نہیں۔ اس لیے کس کو استعمال کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ اس کام کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔

یہ ممکن ہے کہ سپریم کورٹ انتخابات میں تاخیر کا کوئی حکم دے دے تو انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسا کوئی حکم ممکن نظر نہیں آرہا۔ اس لیے مجھے انتخابات میں کوئی طویل تاخیر ممکن نظر نہیں آرہی۔ چار چھ ہفتوں پر بات ہو سکتی ہے۔ لیکن اس سے زیادہ کیسے ممکن ہوگا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس