آج سے 43 سال قبل 9 اگست 1980 کو سول اسپتال کراچی میں ایک تشدد زدہ لاش، پولیس اور قانون نافذ کرنےوالوں کی حفاظت میں لائی گئی، اس دوران اسپتال کے اردگرد سیکورٹی بڑھا دی گئی۔ جس ڈاکٹر نے موت کی تصدیق کی وہ خود اپنے زمانے میں NSF طلبہ تنظیم سے وابستہ رہا تھا۔ گو کہ پولیس نے مرنے والے کا نام کچھ اور بتایا مگر ڈاکٹر پہچان گیا کہ وہ نظیر عباسی ہی تھا جو حسن ناصر کا پیروکار یعنی بائیں بازو کے نظریہ پر ثابت قدم رہنے والا۔ ایک کودورِایوب میں شاہی قلعہ میں مار دیا گیا دوسرےکو جنرل ضیاء الحق کے دور میں۔
یہ دونوں اور ان جیسے ہزاروں سیاسی سوچ رکھنے والوں کو امید تھی کہ اس ملک میں کبھی تو جمہوریت کا وہ دور بھی آئے گا جس میں بہت زیادہ نہیں جمہور کے نصیب میں بھی کچھ آئے گا۔ بدقسمتی سے اس کی جو شکل اس وقت نظر آ رہی ہے وہ اس سے بہت زیادہ بھیانک ہے جس کی بھینٹ حسن ناصر، نظیر عباسی، ناصر بلوچ، ایاز سموں، حمید بلوچ اور ناجانےکون کون چڑھا، آج جو قومی اسمبلی تحلیل ہونے جا رہی ہے اس کے پانچ سال میں دو حکومتوں اور دو وزرائے اعظم ایک عمران خان حال ہی میں جیل گئے ہیں اور دوسرے وزیراعظم بننے سے پہلے۔ ایک بھائی 5 سال کیلئے نااہل قرار پائے دوسرے بھائی 2017سے نااہلی بھگت رہے ہیں۔ دونوں نے اپنے اپنے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا۔ آزادی اظہار کا قتل کیا اور اب تک یہ مشق سخن جاری ہے۔ کل بھی سیاسی کارکن اور صحافی لاپتہ ہوتے تھے اور آج بھی ۔ کل بھی کسی کی لاش ملتی تھی اور آج بھی ۔
موجودہ پارلیمنٹ نے اپنے آخری ایام میں جو قانون سازی کی ہے یقین جانئےیہ بات میں پورے اعتماد اور ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں وہ دورِ آمریت میں بھی نہیں کی گئی اور وہ بھی ان دوستوں کے ہاتھوں جو ہر دوسرے دن آئین اور قانون کی بالا دستی کی بات کرتےہیں۔ کاش وزیراعظم شہباز شریف ، وزیر قانون اور وزیر اطلاعات جاتے جاتے یہ تو بتا دیں کہ ہمارا ایک ساتھی عمران ریاض کہاں ہے، ارشد شریف کے قتل کا تو وہ کیا بتائیں گے۔ ابھی میں یہ کالم لکھ ہی رہا تھا کہ ہمارے ایک اور ساتھی عارف حمید بھٹی کا فون آیا کہ مجھے آف ایئر کر دیا گیا ہے اور میں سوچ میں پڑ گیاکہ پیمرا ترمیمی بل قانون کی شکل اختیار کرےنہ کرے۔ پیکا آرڈیننس کے تحت FIA کارروائی کرے نہ کرے اس نامعلوم سنسر شپ کا جواب ہے کسی کے پاس۔ کس کا نام لینا ہے کس کا نہیں کس کی آواز Mute ہونی ہے اور کس کو زیادہ پبلسٹی دینی ہے، کس کو نہیں۔ یہ ضیاء اور مشرف کی سنسر شپ سے کم نہیں۔
جنرل (ر) پرویز مشرف ایک آمر تھے ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء جیسے جن کی حکومت ہی غیر آئینی ہو ان کو حق حکمرانی کیسا۔ سنسر شپ، اظہار رائے پر پابندی خلاف توقع نہیں ہوتی ایسے ادوار میں۔ مگر اس دور میں کچھ ایسے قوانین بنے جسے آنیوالے جمہوریت پسندوں نے پسند کیا مثلاً خواتین اور اقلیت کی نشستوں میں اضافہ فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ، پریس کونسل کا قیام اور نجی چینلز کے لائنس (جس کا پس منظر کارگل میں میڈیا کے محاذ پر شکست بھی تھی۔) اس دور میں اگر صحافی حیات اللہ اور نہ جانے کتنے صحافی اور کیمرہ مین شہید ہوئے تو جمہوریت میں نہ ان کی تحقیقاتی رپورٹس منظر عام پر لائی گئیں نہ ایسے واقعات کو روکنےکیلئے خاطر خواہ انتظام ہوا۔ ایک صحافی کمیشن بنا تھا جو مرکز میں تو قانون سازی کے باوجود نہ بنا مگر کم از کم سندھ میں بغیر کسی بجٹ کے بن ہی گیا۔ اب اس دور جمہوریت کی قانون سازی پیش خدمت ہے ملٹری کورٹس سویلین کا ٹرائل کر سکتی ہیں (جائز قرار) آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ترامیم (جائز) جس کے تحت بلا وارنٹ کسی کو بھی 90روز سے 120 دن تک اٹھایا جا سکتا ہے یعنی تمام لاپتہ افراد کی گمشدگی(جائز)آرمی چیف کی توسیع(جائز)پرنٹ، الیکٹرونک اور ڈیجیٹل میڈیا پر مزید سختیاں (جائز) اور نہ جانے کون کون سے بل منظور کیے گئے ہیں جس کا پتا خود بل پیش کرنیوالے کو بھی شاید نہیں ہے۔ جیساکہ ایک بل کو شدت پسندی کے حوالے سے واپس لینا پڑا کیونکہ خود حکمران جماعتوں کے بعض اراکین کی چیخیں نکل گئیں یہ کہہ کرکہ خدارا بس کر دیں۔ افسوس ہے تو پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق، مولا بخش چانڈیو، خورشید شاہ اور ان بے شمار اراکین پارلیمنٹ یا پارلیمنٹ سے باہر بیٹھے جمہوریت پسندوں پر کہ ان کے سامنے اس طرح کی قانون سازی سے جمہوریت کو دفن کیا جا رہا ہے یا مضبوط کیا جا رہا ہے؟بقول ایک معتبر سیاستدان فرحت اللہ بابر کیا کسی وزیر اعظم کی نااہلی پر بھی مٹھائی کھائی جا سکتی ہے۔ کل نواز شریف نااہل ہوئے تو انصافین نے وہی حرکت کی جو آج لیگی کر رہے ہیں۔ یہی کچھ 80 اور 90کی دہائی میں ہوتا تھا جب 58-2(B) کی تلوار چلتی تھی، اس وقت بھی کہا تھا ۔
چراغ سب کے بجھیں گےہوا کسی کی نہیں
اب وزیر اعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ مجھے یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ میں اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہوں اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔ مجھے تو نہیں پتا کون یہ طعنہ دیتا ہے بس اتنا پتا ہے کہ دورِنواز شریف میں میاں صاحب کی مرضی سے یا بنا مرضی، شہباز صاحب اور گمنام سابق وزیر داخلہ چوہددی نثار علی خان کبھی پنڈی کبھی مری کے چکر لگاتے تھے اور ان دونوں نے ہی میاں صاحب کو جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف لگانے کی تجویز دی تھی جس کے چند ماہ بعد ہی خود میاں صاحب انہیںیہ طعنہ دیتے تھے کہ یہ ان دونوں کی چوائس تھا۔ آخر میں جب مشرف کو ہٹانے کا وقت آیا تو وزیر اعظم ہاؤس میں ہوتے ہوئے بھی12؍اکتوبر 1999کو میاں صاحب نے شہباز کی رائے نہ لی پھر جو ہوا اس سے شہباز شریف نے سبق سیکھا کہ کوئی طعنہ دیتا ہے تو دینے دو پروا نہ کرو جو ہے سو ہے۔
اب جمہوریت کے نگراں آ گئے ہیں پر یہ نہیں پتا یہ نگرانی کرنیوالے پنجاب اور خیبر پختو نخوا والی طویل نگرانی کریں گے یا آئین و قانون کی روح کے مطابق 90روز میں الیکشن کروا کے معین قریشی، ملک معراج خالد، غلام مصطفیٰ جتوئی، میر ہزار خان کھوسہ کی مثال قائم کریں گے۔ مردم شماری 2007کے بعد 2017میں ہوئی اسکے بعد تقریباً وقت پر 2022اور 2023میں ہوگئی حلقہ بندیوں سے شاید کچھ جماعتوں کو فائدہ ہو جائے۔ اب ہم بھارت تو نہیں جہاں مردم شماری ہوتی ہے مگر نشستیں کم یا بڑھتی نہیں ہیں سارا مسئلہ یہاں وسائل کی تقسیم کاہے عوام کیلئے نہیں اپنے اپنے لیے۔ رہ گئی بات فری اور فیئرالیکشن کی تو حضور حسرت ہی رہی اور رہے گی 1977 سے 2023 آ گیا ہے۔ میچ تو فکس ہوتا ہے۔ اب ہمارے میاں صاحب بھائی کی حکومت میں تو آئے نہیں دیکھتے ہیں نگراں پر انہیں اعتماد ہو گا کہ نہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ