ساؤنڈ سپیشلسٹ : تحریر محمد اظہر حفیظ


آوازیں سننا اور سمجھنا ایک فن ہے۔ پرندوں کی فوٹوگرافی میں انکی آوازوں کی بڑی اہمیت ہے ۔ ہم انکی آوازوں کی مدد سے سمت کا اندازہ کرتے ہیں اور ان تک پہنچ کر تصویر بناتے ہیں۔ ان میں شارق ایک ایسا پرندہ ہے جو پاکستان میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے اور سب سے زیادہ آوازیں نکالنے کا فن بھی جانتا ہے ۔ ہم اس کو پرندوں کا شفاعت علی بھی کہہ سکتے ہیں۔
ہم نیشنل کالج آف آرٹس کی ڈرامیٹک کلب کے ممبر تھے ایک ایکٹنگ کی ورکشاپ اٹینڈ کرنے گوئٹے انسٹیوٹ گئے۔ اس ورکشاپ کی ایک انوکھی چیز تھی۔ جو نارویجن ٹرینر تھیں انھوں نے ہمیں اپنے جسم کی آوازیں سننے کا ہنر سکھایا۔ ہم سب کو سیدھے زمین پر لیٹنے کو کہا جہاں آجکل چین ون ہے یہاں پہلے گوئٹے انسٹیوٹ ہوتا تھا اور حکم کیا کہ باہر کی آوازوں کو چھوڑیں اپنے جسم کی آوازوں کی طرف یکسوئی سے دھیان دیں۔ یہ ورزش حیران کن تھی ہم سب کو اپنے جسم کی آوازیں آنا شروع ہوئیں جو کہ حیران کن تھیں جیسے گاڑی کا انجن چل رہا ہو۔ اور سارے شرکاء گہری نیند میں چلے گئے پھر سب کو ہماری محترم ٹرینر نے جگایا۔ ہم سب شرمسار بھی ہوئے۔ یہ ایک اچھی ورزش ہے اگر آپ کو نیند نہ آرہی ہو۔
آپ آزما کر دیکھ سکتے ہیں بہت فائدہ ہوگا۔ انشاء الله
کچھ ماہ پہلے میری ایک بیٹی نے شکایت کی کہ کھانا کھاتے وقت اس کو سنائی نہیں دیتا ہم لاہور جارہے تھے راستے میں گجرات عائشہ بشیر ٹرسٹ ہسپتال گئے ڈاکٹر اعجاز بشیر بھائی سے ملاقات بھی ہوگئی اور بیٹی کے سب ٹیسٹ تسلی بخش آنے کے بعد ڈاکٹر صاحبہ کہنے لگی آپ کی تسلی کیلئے سب ٹیسٹ کردئیے ہیں پر کسی بھی انسان کو کھانا کھاتے وقت آواز نہیں آتی۔ ورنہ کھانا چبانے کا اتنا شور ہوتا ہے کہ وہی ناقابل برداشت ہوجائے۔ یہ آپ کی طرح میرے لیے بھی ایک نئی بات تھی سبحان اللہ کے علاوہ کیا کہہ سکتے تھے۔ یہ رب کی شان ہے کہ ہر چیز کا خیال رکھتا ہے جانداروں کو تخلیق کرتے ہوئے
فاختہ، الو ، تیتر اور سن برڈ کی آواز بڑی مختلف ہوتی ہے ۔ سب پرندوں میں مختلف۔ مور کی آواز بہت تیز ہوتی ہے
میرے عزیز دوست جو کہ آوازوں کے بہت ماہر ہیں ہم پچھلے 25 سال سے ساتھ ساتھ ہیں ۔ سب سے پہلے انھوں نے ہی اسامہ بن لادن کی پٹھانی چپل کی کڑکڑ محسوس کی تھی اور بتایا تھا کہ شاید اسامہ صاحب کا جوتا ایک نمبر تنگ ہے۔ اور وہ گرم چادر ڈیرہ اسماعیل خان کی بنی ہوئی اوڑھتے ہیں کہ اسکا وزن زیادہ ہوتا ہے اور آواز ٹھوس۔ پھر ایک دن انھوں نے چاغی میں کئے گئے ایٹمی دھماکوں کی آواز اسلام آباد میں سنی اور کہنے لگے یار آواز کی ھیبت کیا بتاوں بس ریڑھ کی ھڈی میں پہلے ایک ٹھنڈی ہوا سرایت کرگئی اور پھر میں نے ایک سنسناہٹ محسوس کی اب تم خود اندازہ لگاو کیسی آواز ہوگی۔ میں نے محبت بھری شرارت سے پوچھا جناب آواز ریڑھ کی ہڈی سے چند انچ نیچے سے تو نہیں آئی تھی۔ کہنے لگے اظہر حفیظ تم ایک انتہائی بے شرم اور بیہودہ انسان ہو۔ یہ پہلی بات تھی جو انھوں نے سچ کہی تھی کیونکہ یہ سچ صرف میں ہی جانتا تھا۔
اس بات کو دو سے زیادہ دھائیاں گزر گئیں پر ان کی آواز کی سپیشلٹی آج بھی ویسی ہی ہے ۔ آج انکا ایک ویلاگ سن رہا تھا انھوں نے کمال مہارت سے وہ سب آوازیں پرفارم کرکے دکھائیں جوکہ خان صاحب کی گرفتاری سے پہلے ان کے کمرے سے آرہی تھیں یا آئیں۔ بہت اچھے انسان ہیں آوازیں صرف دروازہ کھٹکانے، دروازہ توڑنے، دروازہ کھلنے تک محدود رکھیں کیونکہ دروازہ ٹیڑھا ہوگیا تھا۔ اگر سوشل میڈیا ٹرولنگ کا ڈر نہ ہوتا تو انھوں نے آوازیں تو واش روم کی بھی سنی تھی پر میری طرح بے شرم اور بیہودہ نہیں تھے ورنہ وہ بھی سنا دیتے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے ساونڈ افیکٹ بھی کچھ کمزور ہوگئے ہیں۔
میرے دوست ڈرامہ نگاری کے بہت ماہر ہیں ماحول بہت اچھا بناتے ہیں ۔ لیکن اس سے زیادہ ساؤنڈ ماسٹر ہیں۔
مجھے گاؤں کا وہ میراثی یاد آگیا جس نے ایک آواز سنی تو چوہدرانی اس آواز کی شرمندگی مٹانے کیلئے لسی زور زور سے رڑکنے لگی پر آوازیں مختلف آنے لگیں جس پر میراثی صاحب نے کہا چوہدرانی اے او آواز نہیں تسی کوشش بہت کیتی اے۔ کچھ سازوں سے جو آواز ایک دفعہ نکل جائے ویسی دوبارہ نکالنی مشکل ہوجاتی ہے کیونکہ یہ ساز ہیں کوئی فوٹوسٹیٹ مشین نہیں جو اصل سے بہتر کاپی نکال دے۔ آپ بھی کوشش کر سکتے ہیں ۔