سات عجوبوں کو منظر عام پر آئے مدت گزر چکی، ہرن کی طرح چھلانگیں مارتی سائنس ہوا سے تیز دوڑنے لگی مگر آٹھواں عجوبہ نمودار نہ کر سکی، شاید بریکنگ نیوز کے اس ہیجانی دَور نے طویل مدت میں سرانجام پانے والے اور بڑی دیر تک اثرانداز ہونے والے منصوبوں کی اہمیت کم یا نظر انداز کی ہوئی ہے۔ تاہم آٹھواں عجوبہ آج کا انسان بھی ہے، جسے ایک وسیع امکانات سے بھری کائنات میسر ہے مگر وہ پھر بھی تنگ نظر ہے جس کے ہاتھ میں سہولتوں سے بھرا الہ دین کا چراغ ہے مگر وہ اس کی رگڑ سے سُکھ چاہنے کی بجائے دُکھوں کی سوداگری پر مائل ہے، اس کے اٹیچی میں دنیا کو جنت بنانے کے تمام نسخے موجود ہیں مگر وہ جہنم بنانے والی سوچ کا غلام بن کر نفرت اور تعصب کا پرچارکررہاہے۔اس آٹھویں عجوبے کی نفسیات، قول و فعل اور رویے کو حسین احمد شیرازی نے اپنی دوربین نگاہوں سے دیکھا، پرکھا اور کئی برس ذہن کی تجربہ گاہ اور دل کے احساس میں سینکنے کے بعد منظر عام پر لا کر نمائش کے لئے پیش کیا، لفظ لفظ ذومعنی حقیقت سے لبریز، لہجہ شگفتہ اور پیش کش ایسی عاجزانہ کہ قاری جب والہانہ عش عش کرے تو درد کی میٹھی چبھن بھی دل میں سرایت ہوتی محسوس کرے۔ یہی مصنف کا اصل مطمع نظر بھی ہے۔ جب ارد گرد ذاتی مسائل کا انبار،ملکی معاملات کا بگاڑ اور کائناتی رنجشوں کی بھرمار لبوں سے ہنسی اور احساس سے لطافت چھین کر غم وغصہ کی کیفیت طاری کردے، مہنگائی بجلی،گیس کے بل، پٹرول اور ڈالر کی دوڑ میں ہانپتی کانپتی معیشت کے ساتھ دل کی دھڑکن ناہموار ہونے لگے۔ صحت اور زندگی کی بشارت بننے والی دوائیں اور مشروب زہرآلود ہو چکے ہوں، شدید موسم کے شدید اثرات نے جسم وجاں کو آدھ موا کر رکھا ہو،بجلی کی آنیوں جانیوں میں سانس ہلکان ہو اور بجلی کے ہوتے ہوئے ڈر ڈر کر گھنٹوں کا حساب ہر لمحہ دھیان میں جما رہے۔ بے مہار بارش کے نتیجے میں گلیوں بازاروں میں پھنسی گاڑیوں اور ٹھہرے پانی کی سڑاند دل دہلانے لگے،ٹی وی پر چیختے چنگھاڑتے تجزیے دیکھ کر دل کے ساتھ روح بھی کا مزاج بھی برہم ہونے لگے، ریٹنگ کے بل بوتے پر چلتے ڈراموں میں بچگانہ رویے، سستی رومانویت اور بے مقصدیت شدید بیزاری سے ہم کنار کردے تو اندیشوں کی تمام کھڑکیاں اور سوئچ آف کر کے ایسی کتاب پڑھتی ہوں جو سوچ میں امید کے گل بھی کھلائے اور بے ساختہ مسکراہٹ سے بھی نوازے، کہ زندہ رہنے کے لئے ہنسنا، مسکرانا اشد ضروری ہے۔اس بار اذیت کے دنوں میں حسین احمد شیرازی کی،آٹھواں عجوبہ، نے کمال ہمنوائی کی۔یہ کتاب میرے تخیل کو ایک ایسے جزیرے میں لے گئی جہاں سکون امن، رواداری اور محبت کی حکمرانی تھی۔ دینی، انسانی، ثقافتی اور جمالیاتی قدروں پر عمل پیرا مصنف خیر کے رستے پر رواں دواں ہے، وہ ہر طرف اپنی سوچ کی طرح مثبت اور تعمیری رویے دیکھنے کا داعی ہے اور اسی مقصد کے حصول کے لئے وہ لاکھ جتن کرتا ہے، مزاح اس کی سرشت میں ہے۔وہ ہر سخت بات اور واقعے کو دلچسپ اور شگفتہ پیرائے میں بیان کرنے کا ہنر جانتا ہے اور یہی اس کی کامیابی ہے۔ کہیں تاریخ کے ورق سے اٹھائے واقعات، کہیں ذاتی احساسات کے ساتھ گھڑے ہوئے و اصلی لطیفوں کو وسیلہ بنا کر دل کی بات کی گئی ہے۔ آٹھواں عجوبہ میں صفحات آئینوں کی مانند ہیں جہاں لفظ پڑھتے ہوئے آپ اپنی تصویر بھی دیکھتے ہیں اور اپنا محاسبہ بھی کرتے جاتے ہیں۔ یہ کتاب پڑھئے، تحریر کی شگفتگی، روانی اور بے ساختگی آپ کے مزاج پر خوشگوار اثرات کے ساتھ آپ کی سوچ کو مثبت زاویہ فراہم کرے گی۔حسین احمد شیرازی مزاح نگاری میں اپنا خاص اسلوب متعارف کروا چکے ہیں۔جن کی کئی کتب پڑھنے والوں کے حسِ مزاح کی تسکین کرتی ہوئی اچھی خاصی پذیرائی حاصل کر چکی ہیں۔خوش قسمتی سے مجھے ان کی تمام کتابیں پڑھنے کا موقع ملا،اٹھواں عجوبہ پڑھ کر وہ ساری خوشگواریت میرے دل پر چھائی رہی جو بابو نگر اور دعوتِ شیراز پڑھ کر ہوئی تھی۔ ان کی تحریر میں ایک عجیب سا تسلسل ہے۔بہت دھیمے مزاج کے انسان ہیں اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور ضرورت کے مطابق بات کرتے ہیں، ہاں ان کی تحریریں بہت بولتی ہیں۔ وہ ساری خوبیاں جن کے لئے وہ تگ ودو کرتے ہیں ان کی ذات میں موجود ہیں۔ شاید وہ ان آئینوں میں اپنے جیسے اجلے انسان اور سرکاری ملازم دیکھنے کے متمنی ہیں جو بابو بن کر دوسروں کی زندگی اجیرن نہ کریں بلکہ زمین، تاریخ اور اقدار سے ربط بنا کر خدمت کا اصول اپنائیں۔ رب کرے حسین احمد شیرازی کے ہنستے حرفوں کے قلب میں بسی دعائیں رنگ لے آئیں اور ہم سب تعمیری سوچ کو وسیلہ بناکر پاکستان کو خیر کا قلعہ بنا سکیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ