پانچ اگست کی صبح گیارہ بج رہے تھے۔ میں عامر متین کے ہمراہ پارلیمینٹ ہاؤس اسلام آباد کی عمارت میں داخل ہواتو مرکزی دروازے پر اس عمارت کےسنگ بنیاد پر نظر پڑی۔ 14اگست 1974ء کو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس عمارت کا سنگ بنیاد رکھاتھا۔ بھٹو صاحب وہ وزیر اعظم تھے جنہوں نے اپنے دور کی اپوزیشن کے ساتھ مل کر 10 اپریل 1973ء کو نئے آئین کو پارلیمینٹ سے منظور کرایا اور 14 اگست 1973ء کو یہ آئین نافذ ہوگیا۔ 14 اگست 2023ء کوآئین پاکستان کے نفاذ کےپچاس سال پورے ہو رہے ہیں۔ آئین منظور کرنے والی پارلیمنٹ کے قریب ہی سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت ہے۔ سپریم کورٹ کا کام آئین پر عملدرآمد کرانا ہے۔ سپریم کورٹ کی عمارت کا افتتاح ذوالفقار علی بھٹو نے 23 مارچ 1976ء کو کیا تھا۔ اسی سپریم کورٹ نے ایک انتہائی مشکوک الزام میں آئین پاکستان کے خالق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979ء کو پھانسی لگوا دیا تھا۔ میں یہ سب سوچتا ہوا پارلیمنٹ ہاؤس کےکمیٹی روم نمبر دو کی طرف جا رہا تھا جہاں پیمراترمیمی بل 2023ء کےبارے میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کا اجلاس تھا اور کمیٹی کی کنوینئر فوزیہ ارشد نے اس بل پر اپنی رائے کے اظہار کےلئے مجھے بلایا تھا۔ ہمارےساتھی مظہر عباس کراچی سے فون پر معلوم کر رہے تھے کہ آپ پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے یا نہیں؟ ہفتہ کی صبح ساڑھے آٹھ بجے نصرت جاوید بھی فون پر مجھے اطلاع دے چکے تھے کہ وہ گیارہ بجے پارلیمینٹ ہاؤس پہنچ جائیں گے۔ کاشف عباسی اور محمد مالک کامیسج بھی آ چکا تھا کہ وہ پہنچ رہے ہیں۔ پیمرا ترمیمی بل کو قومی اسمبلی نے بغیر بحث کے چند سیکنڈوں میںمنظور کرلیاتھالیکن چار اگست کو وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب سینیٹ سے اس بل کو منظور نہ کرا سکیں کیونکہ طاہر بزنجو اور مشتاق احمد خان سمیت سینیٹرز کی اکثریت نے اس بل کی بھرپور مخالفت کی۔ یہ بل قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کوبھجوا دیاگیا۔ حکومت کویہ بل منظور کرانے کی اتنی جلدی تھی کہ راتوں رات چیئرمین سینیٹ کے ذریعے قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کی سربراہی فیصل جاوید سے فوزیہ ارشد کو منتقل کی گئی اور اگلی صبح اجلاس بلا لیا گیا۔ فوزیہ ارشد کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ انہوں نے مجھ سمیت کچھ صحافتی تنظیموں کے نمائندوں کو اس اجلاس میں بلا لیا تاکہ ہم اسٹیک ہولڈر کے طور پر اپنا نکتہ نظربیان کرسکیں۔ پارلیمینٹ ہاؤس کے کیفے ٹیریا سمیت تمام دفاتر بند تھے۔ اطلاع ملی کہ کمیٹی کا اجلاس ڈھائی بجے تک ملتوی ہوگیا ہے۔عامر متین نے یہ اطلاع ملنے کے بعد وہاں موجود عملے کو بڑی ملائمت سے کہا کہ فکر نہ کریں ہم ڈھائی بجے واپس آئیں گے۔ فیصلہ ہوا کہ ایک قریبی ہوٹل میں بیٹھ کر باقی ساتھیوں کا انتظارکرتے ہیں۔ پارلیمنٹ ہاؤس کا عملہ ہمیں تین دہائیوں سے جانتا ہے۔ ایک پرانا سورس بھاگتاہوا آیا اور کان میں بتایا کہ اگر آپ ڈھائی بجے دوبارہ نظر آگئے تو اجلاس پھرملتوی ہو جائے گا۔
چھٹی کا دن تھا اس لئے پارلیمنٹ ہاؤس میں انٹیلی جنس اداروں کے اہلکار موجود نہیں تھے لہٰذا نچلا سٹاف کھل کر ہمارے ساتھ گپ لگا رہا تھا۔ ایک صاحب نے پوچھا کہ آج توشہ خانہ کیس میں کیا فیصلہ آئے گا؟میں نے مسکرا کر کہا کیا آپ کو فیصلے کا علم نہیں؟ سوال پوچھنے والے نے کہا کہ فیصلہ تو سب کوپتہ ہے کہ جج ہمایوں دلاور نے عمران خان کو گرفتار کرانا ہے۔ میں نے عرض کیا آپ کو سب پتہ ہے تو پھر مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں؟ سوال پوچھنے والے نے کہا کہ آپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ اس سال الیکشن نہیں ہوگا تو پھر یہ آئین کدھر جائے گا؟ انہی سوالات کا سامنا کرتے ہوئے ہم ایک چائے خانے پر جا کر بیٹھ گئے جہاں محمد مالک نے اطلاع دی کہ جج ہمایوں دلاور نے عمران خان کو تین سال قید اور پانچ سال کے لئے نااہل کردیا ہے۔ یہ ہمارےلئے کوئی خبر نہ تھی۔ آدھے پاکستان کو جج کے فیصلے کا پہلے سے پتہ تھا۔ میں نے محمد ممالک کو کہا کہ شام تک مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے بعد انتخابات کے التوا کی خبربھی آ جائے گی۔ اب محمد مالک اور عامر متین آنے والے نگران حکومت کے دور میں میڈیا کے خلاف ایک گرینڈ آپریشن کے خدشات پر گفتگو کر رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ جب میں اس دنیا میں آیا تو پاکستان پر جنرل ایوب خان کی حکومت تھی۔ جب میں اسکول پہنچا تو جنرل یحییٰ خان کی حکومت تھی۔ جب کالج پہنچا تو جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی۔ بطور صحافی پہلی دفعہ پابندی لگی تو جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی اور اب شہباز شریف کا دور ختم ہوا ہے تو لگتا ہے پاکستان آگے نہیں بلکہ واپس جنرل ضیاء کے دور کی طرف گامزن ہے۔ آج میرے لئے عمران خان اہم نہیں تھا میرے لئے آئین پاکستان اہم تھا۔ جس ملک میں آئین پاکستان کے خالق ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی پرلٹکا دیا گیا وہاں عمران خان کو صرف تین سال قید کی سزا کوئی معنی نہیں رکھتی۔ تکلیف یہ تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ایک اور وزیراعظم بے نظیربھٹو کو قتل کردیا گیا، پھرسپریم کورٹ نے یوسف رضاگیلانی اور نوازشریف کو نااہل قرار دیا لیکن ان دونوں صاحبان کی پارٹیوں نے تاریخ سےسبق نہیںسیکھا۔ آج نواز شریف کا بھائی وزیراعظم اور بھٹو کا نواسہ وزیر خارجہ ہے لیکن کبھی پرتشدد انتہا پسندی کے خاتمےاور کبھی آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل پیش کرکے مارشل لا لگائے بغیر مارشل لا کی سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش ہوتی ہے اور کبھی پیمرا ترمیم بل کے ذریعہ میڈیا کی آزادی سلب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بل پیش کرنے والی مریم اورنگزیب کا ٹریک ریکارڈ یہ ہے کہ انہوں نے 2016ء میں پیکا کا بدنام زمانہ قانون منظور کرایا اور 2017ء میں ایک ایگزیکٹو آرڈر سے تمام ٹی وی چینلز بند کرا دیئے۔ یہی کچھ میڈیا کے ساتھ عمران خان کے دور میں ہوا۔ ہم تو اپنی بچی کھچی آزادی کے تحفظ کیلئے پیمرا ترمیمی بل کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ڈھائی بجے ہم پارلیمنٹ ہاؤس واپس پہنچے تو کمیٹی کا اجلاس چار بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ کمیٹی کے ایک رکن سینیٹر عرفان صدیقی نے ارزاہ تفنن کہا کہ یہ کمیٹی کا اجلاس ہے یا گلگت جانے والی پی آئی اے کی پرواز ہے جو بار بار ملتوی ہو جاتی ہے؟
چار بجے کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا تو میں نے کمیٹی کےسامنےسپریم کورٹ کے قائم کردہ میڈیا کمیشن کی رپورٹ پیش کی جو 2013ء میں میری درخواست پر ہی قائم ہوا تھا۔ اس کمیشن نے پیمرا کو حکومتی کنٹرول سے نکالنے کیلئےسفارش کی تھی کہ چیئرمین پیمرا کا تقرر حکومت نہیں بلکہ پارلیمینٹ کرے گی۔ میرے سمیت تمام ساتھیوں نے میڈیا کمیشن کی سفارشات کو نئے قانون کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا۔ تمام سینیٹرز نے ہماری تائید کی اور طے ہوا کہ ہم پیر تک اپنی ترامیم پیش کریں گے۔ سینیٹر عرفان صدیقی، سینیٹر طاہر بزنجو،سینیٹر کامران مائیکل، سینیٹر مشتاق احمد خان اور سینیٹر وقار مہدی کے جرأت مندانہ اور حوصلہ افزا رویے سے یہ امید بندھی ہے کہ اگر چند لوگ بھی آئین کے ساتھ کھڑے ہو جائیں تو آئین بچ سکتا ہے اور یہ آئین ہی پاکستان کو بھی بچا سکتا ہے۔ اس آئین کو 1977ء، 1999ء اور 2007ء میں پامال کیا گیا لیکن یہ آئین باربار بحال ہوا اور اسے پامال کرنے والے ذلیل و خوار ہوئے۔ یہ آئین پاکستان کی آخری امید ہے۔ جو آئین کا احترام کرے گا اسے احترام ملے گا جو آئین کوپامال کرے گا اس کا مقدر رسوائی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ