آج ایک اور سابق وزیراعظم جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ گیا، ہم دائروں میں سفر کرتے رہیں گے

 اسلام آباد(صباح نیوز)پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا سنائے جانے اور اس کے نتیجے میں ان کی گرفتاری پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں نیا پہلو بن کر ابھری ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے  بی بی سی کے مطابق اس گرفتاری کے فورا بعد تحریک انصاف کی جانب پارٹی چیئرمین کا ایک پہلے سے ریکارڈ شدہ بیان جاری کیا گیا ہے جس میں عمران خان اپنے کارکنوں کو چپ کر کے نہ بیٹھنے اور احتجاج کرنے کی کال دے رہے ہیں تو دوسری جانب ان کے وکلا نے سزا کے فیصلے کو اعلی عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اس گرفتاری کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور عام افراد کی جانب سے ردعمل آنے کا سلسلہ جاری ہے۔وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کا نواز شریف کی ماضی میں ہونے والی گرفتاری سے موازنہ کرنا درست نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ گرفتاری سیاسی انتقام نہیں اور چیئرمین پی ٹی آئی کو حکومت نے گرفتار نہیں کیا بلکہ تمام تر قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد ٹرائل کورٹ نے انھیں سزا سنائی ہے۔توشہ خانہ کیس کے فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی طرف سے جاری کردہ بیان میں ایڈیشنل سیشنز جج ہمایوں دلاور کے فیصلے کو متعصبانہ قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔

پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ بیان میں کہا توشہ خانہ مقدمے کے ذریعے نظامِ عدل کی پیشانی پر ایک اور سیاہ دھبہ لگایا گیا۔ سیشن عدالت کا فیصلہ سیاسی انتقام اور انجینیئرنگ کی بدترین مثال ہے۔اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ناقص، مضحکہ خیز اور ٹھوس قانونی بنیادوں سے محروم فیصلے کے ذریعے جمہور اور جمہوریت کے خلاف شرمناک یلغار کی گئی۔ قوم کے مقبول اور معتبر ترین سیاسی قائد کے خلاف سازش اور انتقام کی ایسی بھونڈی کوشش قوم ہرگز قبول نہیں کرے گی۔

بیان کے آخر میں کہا گیا ہے کہ فسطائیت کو میسر عدالتی پناہ اور بدترین ریاستی جبر کے سامنے ہرگز سرنگوں نہیں ہوں گے۔اگرچہ نو مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف کے کئی رہنما جماعت سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں مگر اس کے باوجود پارٹی میں اب بھی موجود عمران خان کے وفادار رہنماں نے اس پیشرفت کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ٹوئٹر پر سابق وفاقی وزیر علی محمد خان نے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب کو انصاف نہیں ملا۔ ہم توشہ خانہ فیصلہ کے خلاف اپیل میں اعلی عدلیہ میں جائیں گے۔انھوں نے تحریک انصاف کے کارکنان اور عوام سے درخواست کی کہ پرامن رہیں اور کوئی قانون کو ہاتھ میں نہ لے تاکہ 9 مئی جیسے حالات دوبارہ پیدا نہ ہوں۔

پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب خان نے عمران خان کی گرفتاری کے متعلق ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ پرامن احتجاج کرنا ہر پاکستانی شہری کا آئینی حق ہے۔جبکہ اسد عمر، جو پی ٹی آئی میں ہونے کے باوجود عمران خان سے دوری اختیار کر چکے ہیں، نے توشہ خانہ کیس کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاست دانوں کے بارے میں معنی خیز فیصلے عوام کے دلوں میں ہوتے ہیں، عدالتوں میں نہیں۔دوسری طرف اتحادی حکومت کے وزرا اپنے مخالف عمران خان کو ملنے والی سزا اور گرفتاری کی حمایت کرنے نظر آ رہے ہیں۔وزیر اطلاعات اور رہنما مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی کو یہ ابہام ہے کہ عمران خان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو اس تفصیلی فیصلے کو دیکھیں جس میں لکھا ہے کہ عمران خان کو موقع دیا گیا کہ وہ اپنا موقف پیش کریں۔انھوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے بیانیہ بنانے کی کوشش کی اور سوال پوچھے جانے پر ریاستی اداروں پر حملے کیے۔ملک میں حکمراں سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے ترجمان حافظ حمد اللہ نے عمران خان کی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے کہا انھیں سزا دینے میں تاخیر ہوتی رہی ہے۔۔۔ گرفتاری کے حوالے سے عمران خان کا موازنہ دیگر سیاست دانوں سے نہ کیا جائے۔ یہ سیاست دان نہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ عمران خان کو قوم پر مسلط کرنے کے جرم میں جج، جرنیل، صحافی، نیب، الیکشن کمیشن کے اہلکار استعمال ہوئے۔ سب پر مقدمہ چلنا چاہیے۔

دریں اثنا حکومت میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ عمران خان اس فیصلے کے خلاف اعلی عدلیہ میں اپیل کر سکتے ہیں۔ایک نجی ٹی وی چینل پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے دور میں موجودہ حکومت کے رہنماں کو بھی گرفتار کیا جاتا تھا اور پھر کہا جاتا تھا کہ اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کریں۔فیصل کریم کنڈی نے کہا ان کی جماعت کا یہ نقطہ نظر رہا ہے کہ شخصیات اور سیاسی رہنماں پر پابندی لگ سکتی ہے لیکن سیاسی پارٹیوں پر پابندی نہیں لگنی چاہیے۔انھوں نے کہا یہ سیاسی فیصلہ نہیں ہے۔ یہ ایک عدالتی فیصلہ ہے تو وہ (اس کی اپیل کے لیے) عدالت میں جا سکتے ہیں۔ سیاسی پارٹی پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ ہونی چاہیے۔

پیپلز پارٹی کے راہنما قاسم گیلانی نے ٹویٹ میں لکھا کہ انصاف کا بول بالا ہوا، عمران خان کے علاوہ کوئی اور توشہ خانہ تحائف کی چوری اور فروخت کا ذمہ دار نہیں ٹہرایا گیا۔ آج انصاف ہوا۔صحافی اور تجزیہ کار بھی عمران خان کی گرفتاری پر رائے دے رہے ہیں۔تجزیہ کار حامد میر نے ٹویٹ کیا کہ ایک اور سابق وزیراعظم کو سزا سنا دی گئی۔ آج تک کسی ڈکٹیٹر کو سزا نہیں ملی کیونکہ وزیراعظم جب حکومت میں ہوتا ہے تو ڈکٹیٹروں کے خلاف فیصلے سنانے والے ججوں کو پاگل قرار دے دیتا ہے۔سماجی کارکن جبران ناصر کی رائے میں ان کی سزا اعلی عدالت کی جانب سے معطل ہو سکتی مگر اس سے قبل انھیں پی ٹی آئی کی سربراہی سے ہٹانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ وہ پارٹی کو کنٹرول نہ کر سکیں۔صحافی عاصمہ شیزازی کہتی ہیں کہ آج ایک اور وزیراعظم جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ گیا۔ ہم دائروں میں سفر کرتے رہے ہیں اور رہیں گے۔۔۔
دائرے کب منزل پہ پہنچنے دیتے ہیں۔