آئیے بچوں کو مرجھانے سے بچائیں۔ تحریر: ڈاکٹر صغریٰ صدف


ہر روز اخبارات، ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر بچوں سے ہونے والی ظلم و زیادتی کی بھیانک کہانیاں ہماری روح کو مضمحل کرتی ہیں، ہمارے ضمیر کوجھنجھوڑتی ہیں، ہمارے احساس کو رلاتی ہیں لیکن ہم کچھ دن آہ وزاری کر کے آگے نکل جاتے ہیں۔ کسی سرکار کو ایسے مسائل کی پروا ہوتی تو صرف قانون نہ بناتے ایسے عملدرآمد کراتے کہ مجرم جرم کی جرات نہ کرتا۔مگر بچوں کے استحصال کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ مجرم آزاد اور بے خوف ہیں ۔ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ کسی معاشرے میں سب لوگ نیک ہوں لیکن وہ جو پرورش یا حالات کے باعث شر کی طرف چل پڑتے ہیں انہیں ریاست کا قانون کنٹرول کرتا ہے اگر یہ کہا جائے کہ قانون انہی لوگوں کے لئے ہوتا ہے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ ریاست کے ذمہ دار اور باشعور شہری تو عادتا قانون کا بھی احترام کرتے ہیں اور انسانی قدروں کا بھی۔ انہیں کیمرے یا سزا کا خوف نہیں ہوتا وہ اپنے ضمیر اور اپنے احساس کو جواب دہ دیتے ہیں وہ خود کو راضی رکھنا چاہتے ہیں،دل کی بات سنتے ہیں اس لئیقانون کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے دل کے حکم کی وجہ سے، اپنی تربیت کی وجہ سے ،اپنی عادت کی وجہ سے نیک عمل اور انسانی قدروں کی ترویج کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے قانون کو جہاں حرکت میں آنا چاہئیوہاں کوتاہی برتی جا رہی ہے۔ مجھے چودہ سالہ رضوانہ کے کیس کو دیکھ کر تھریسی مارکس کا قول ارد گرد گونجتا سنائی دیتا ہے کہ قانون طاقتوروں کے تحفظ کے لئے ہوتا ہے۔ آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا؟

ضروری ہے کہ بچوں کے حوالے سے سخت قانون سازی کی جائے، خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانہ اور سزائیں دی جائیں بچوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی سے دہشت گردی کی دفعات کے ساتھ نمٹا جائے۔ 14سالہ رضوانہ نے ہم سب کی نیندیں اڑا دی ہیں اس کا معصوم جسم نہ جانے کتنے روز درد کی سولی پر لٹکا رہا چور چور بدن کو کام کرنا پڑتا تھا اور جب کام نہیں ہوتا تھا تو مار پڑتی تھی، پتہ نہیں وہ کیسے لوگ ہوتے ہیں ان کے پاس کیسا دماغ اور دل ہوتا ہے جو 14 سال کے بچوں کو ڈنڈوں سے پیٹ سکتے ہیں اور ان کے تصور میں اپنے بچوں کی تصویر نہیں ابھرتی۔ رضوانہ ٹھیک ہو جائے زندگی کی طرف لوٹ آئے لیکن اس کی وجہ سے جو درد اجتماعی طور پر انسانیت کی روح میں سرایت کر گیا ہے وہ کیسے ختم ہوگا درد تو جمع ہوتا رہتا ہے دیمک کی طرح انسان کو کھاتا رہتا ہے۔حساس لوگوں کا یہی المیہ ہے وہ کسی کی تکلیف کو اپنے وجود پر طاری کر کے اذیت کے صحرا میں بھٹکتے رہتے ہیں ہم بھی دیواروں پر ٹکریں مار رہے ہیں بین کر رہے ہیں ماتم کر رہے ہیں۔تاہم یہ کوئی حل نہیں۔ بہت منت ترلے کر لئے اب عمل کا وقت ہے۔ سول سوسائٹی میں بہت طاقت ہوتی ہے جب سماج کچھ کرنے کی ٹھان لے تو کامیابی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔آئیے نادیہ جمیل کا ساتھ دیں، اس کی سوچ اوڑھ کر معاملات کی گہرائی تک پہنچیں، اس کی نظر سے بچوں کے چہروں پر پھیلی یاسیت دیکھیں اور اس کے دل کی طرح درد کو محسوس کریں۔یقینا اگر ایسا کر سکے تو صرف باتیں نہیں کریں گے عمل کریں گے۔ سب سے پہلے والدین کی تربیت کی ضرورت ہے جو بچوں کو کمائی کا ذریعہ بناکر پرتشدد دنیا کے حوالے کر دیتے ہیں۔ان کی بھی باز پرس ضروری ہے۔ 16سال سے کم عمر کا بچہ نوکری کی بجائے اسکول یا تکنیکی ادارے میں ہو۔ یہ کام بی ڈی ممبر،حلقے کے ناظم اور ڈپٹی کمشنر کو سونپا جا سکتا ہے۔ کوئی ایسا سسٹم ہو کہ کم عمر بچہ کسی ہوٹل، گھر میں کام کرتا ہوا نظر آئے تو مطلوبہ نمبر پر اطلاع دی جاسکے۔خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کیا جائے۔ اگر ایک دو بچے ہوں تو نہ بھیک مانگیں نہ گھروں میں ملازمت پر مجبور ہوں نہ صرف خوراک کی وجہ سے ایسے مدرسوں کے حوالے کئے جائیں جن کا ماحول ان کی شخصیت کو مسخ کردے۔

ہم اپنے بچوں کو اچھی تعلیم اور اچھا ماحول دے کر سرخرو نہیں ہو جاتے یہ سارے بچے بھی ہماری ذمہ داری ہیں کیونکہ یہ سب معاشرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ معاشرہ ایک گھر کی مانند ہونا چاہئے۔سوچئے جن کی اپنی عمر کھیلنے کودنے کی ہو انہیں بچوں کی دیکھ بھال سونپ کر ہر وقت جھڑکیوں، مارپیٹ اور امتیازی سلوک سے گزارا جائے تو ان کی سوچ میں کیسے تلاطم برپا ہوتے ہوں گے۔معاشرتی عدم توازن کی یہ مثالیں بچوں کے دماغ میں نفرت اور انتقام بھرتی ہیں۔ آئیے ہم سب مل کر ان بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کا سفر آغاز کریں۔ سب بچے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں۔انھیں مرجھانے سے بچائیں۔بازار میں کوئی بچہ سامان اور ننھے بچے اٹھائے یا ریسٹورینٹ میں ایک طرف بیٹھا دکھائی دے تو ان بیگمات سے سوال ضرور کریں کہ یہ بھی بچے ہیں سوچتے اور محسوس کرتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ