مریم نواز شریف کے لیے امتحان کی گھڑیاں تیار! : تحریر تنویر قیصر شاہد


پہلے چند واقعات: 20 جون 2023 کو لندن میں سابق وزیر اعظم اور نون لیگی رہنما ، جناب شاہد خاقان عباسی، نے جناب نواز شریف سے تفصیلی ملاقات کی تھی ۔ شاہد خاقان عباسی بوجوہ نون لیگ اور نون لیگی قیادت کے کئی فیصلوں سے ناراض اور نالاں ہو چکے ہیں ۔

اِس حقیقت کو چھپانے اور اِس پر مٹی ڈالنے کی بھرپور کوششیں بھی کی گئی ہیں لیکن حقیقت چھپ نہیں رہی ۔ مبینہ طور پر یہ ناراضیاں اس وقت زیادہ نمایاں ہوئیں جب نواز شریف کی صاحبزادی، محترمہ مریم نواز شریف، کو نون لیگ کی چیف آرگنائزر کے منصب پر فائز کیا گیا ۔

شاہد خاقان عباسی غالبا واحد نون لیگی سینئر رہنما تھے جنہوں نے اِس فیصلے کے خلاف برسر عام اپنی ناراضی اور ناخوشی کا اظہار کیا ۔ اِس ناراضی کو نون لیگ کی اعلی سطح کی قیادت میں پسند نہیں کیا گیا تھا۔ شاہد خاقان عباسی مگر اصولوں کی بنیاد پر اپنے جذبات و احساسات کے اظہار سے دستکش نہ ہوئے ۔
لندن میں ہونے والی نواز شریف، شاہد خاقان عباسی ملاقات میں کیا یہ ناراضی تحلیل ہو گئی تھی ؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ نواز شریف صاحب سے ملاقات کے بعد شاہد خاقان عباسی نے یہ بیان دیا:نواز شریف سے ملاقات میں فیصلے نہیں ، مشاورت ہوئی ۔

ان کے ساتھ دوستی بھی ہے، وہ میرے بھائی بھی ہیں اور لیڈر بھی ۔ملاقات مثبت رہی ۔ میاں صاحب کو کہا ہے کہ آپ قیادت بدلیں گے تو میرا پارٹی کے عہدے پر رہنا ممکن نہیں ۔ اب میں نون لیگ کا عہدیدار نہیں ۔ انتخابات بامقصد ہوں گے تو الیکشن میں حصہ لوں گا۔

یہ بیان اسقدر مبہم ہے کہ کہیں بھی نظر نہیں آتا کہ شاہد خاقان عباسی کی مبینہ ناراضیاں تحلیل ہو گئی ہیں اور یہ کہ نون لیگ کے اندر وہ جن سے ناراض ہیں، ان سے صلح ہو گئی ہے یا نہیں اور یہ کہ نون لیگ میں وہ کون لوگ ہیں کہ جن کی قیادت بدلنے پر شاہد خاقان عباسی پارٹی کے کسی عہدے پر رہنا نہیں چاہتے ۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت میں نون لیگ کی حالت بھی مضبوط نہیں رہی ہے ۔ستم ظریفی مگر یہ ہے کہ اتحادی حکومت کے تمام عوام مخالف، معاشی فیصلوں کا سارا ملبہ نون لیگ پر گررہا ہے ۔

بظاہر سیاست کی بالائی پی پی پی کھا رہی ہے ۔نون لیگ کے ہاتھ میں سوائے ندامت کے کچھ نہیں لگ رہا ۔ نون لیگ کو آزاد کشمیر کے انتخاب میں بھی پیپلز پارٹی کے مقابل شکست و ندامت ملی اور کراچی میں بھی میئر کے انتخاب میں نون لیگ کو کچھ نہیں ملا ۔ ابھی جب بوجوہ اتحادی حکومت میں مزید Fission Reaction ہوگا تو اِس مرکزی ٹوٹ پھوٹ سے جو ملبہ بکھرے گا، اِس کا زیادہ تر بوجھ نون لیگ کو اٹھانا پڑے گا۔ یہ نوشتہ دیوار ہے ۔

سینیٹ کے موجودہ اور سابق چیئرمینوں کی ہوشربا مراعات میں مزید اضافے کے بلز کی منظوری میں نون لیگی وزیر قانون نے جو ناقابلِ رشک کردار ادا کیا ہے، یہ بھی نون لیگ کے گلے پڑنے والا ہے ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین ، جناب آصف علی زرداری، نے اِس بِل پر ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ سینیٹ کے چیئرمینوں کے بے تحاشہ مفادات کا یہ بِل آیندہ انتخابات میں نون لیگ کی گلے کی پھاہی بن جائیگا۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور اتحادی حکومت کے وزیر خارجہ،جناب بلاول بھٹو زرداری ، نے برسر مجلس جناب شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو دھمکی دے کر جس اسلوب اور لہجے میں سندھ کے سیلاب زدگان کے لیے 25ارب روپے حاصل کیے ہیں، یہ دراصل نون لیگ کی شکست اور پسپائی ہے ۔

نون لیگی قیادت اِس پسپائی پر باطنی طور پر پیپلز پارٹی کے خلاف وِس گھول رہی ہے لیکن وہ اپنے ایک مرکزی اتحادی کے خلاف لب کشائی کرنے کی جرات نہیں رکھتی ۔ دباو سے اپنا25ارب روپے کا مالی مفاد سمیٹنے کے اِس عمل کے خلاف نون لیگ کے سیکریٹری جنرل، احسن اقبال، نے زیر لب احتجاج کیا ہے اور بس۔ یہ پسپائی نون لیگ کی کمزوریوں کو سارے ملک پر عیاں کر گئی ہے ۔

9مئی کے سانحات کے پس منظر میں ملزموں کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے نون لیگی اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں جو تفاوت اور شدید کشمکش نمایاں طور پر نظر آ رہی ہے، اِس کا خسارہ بھی نون لیگ ہی کو برداشت کرنا ہے ۔ نون لیگ اپنے سخت موقف کی اساس پر شائد کسی کی نظر میں سرخرو ہو جائے مگر پیپلز پارٹی اِسی ضمن میں عوامی عدالت میں سرخرو ہو جائیگی ۔

خود نون لیگ کے متعدد باطنی دھڑے نون لیگی قیادت کی ہوشربائی کا موجب بن رہے ہیں ۔ اتحادی حکومت نے جس قیامت خیز مہنگائی اور بے روزگاری کو جنم دے رکھا ہے،اِس کا ملبہ بھی براہِ راست نون لیگ پر گررہا ہے ۔یہ احساس نون لیگی قیادت کے لیے مزید پریشانی اور پشیمانی کا باعث بن رہا ہے۔

16جون 2023 کونون لیگ میں پارٹی انتخابات و نتائج کے بعدشہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا تھا: ڈار کی ٹانگیں کھینچنے والے پارٹی چھوڑ دیں۔ یہ اشارہ دراصل سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی طرف تھا جو وزارت سے فارغ کیے جانے کے بعد روزانہ کی بنیاد پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور ان کی پالیسیوں کی ناکامیوں پر سخت تنقید کرتے آ رہے ہیں ۔

نون لیگ میں نئے انتخابات کے بعد شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، اقبال ظفر جھگڑا اور مہتاب عباسی ایسے پرانے، کمٹڈ اور تجربہ کار نون لیگی رہنما مبینہ طور پر فارغ کر دیے گئے ہیں ۔

واقعی اگر ایسا ہو چکا ہے تو یہ اقدام نون لیگ کی مزید کمزوری کا باعث بنے گا۔اوپر سے حضرت مولانا فضل الرحمن، نواز شریف کی دبئی میں آصف زرداری سے ملاقاتوں پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔اگلے روز بٹگرام ( کے پی کے ) میں پریس کانفرنس کے دوران مریم نواز شریف کے شوہر نامدار کیپٹن (ر) صفدر اعوان نے اپنے ایم این اے بھائی، سجاد اعوان، کی موجودگی میں حضرت مولانا فضل الرحمن پر فنڈز کے حوالے سے جو الزام عائد کیا ہے۔

اِس نے بھی جے یو آئی ایف اور نون لیگ کے درمیان بد مزگی پیدا کی ہے ۔دو روز قبل نگران حکومت کے اختیارات بڑھانے پر حکمران اتحاد میں جو تقسیم دیکھنے میں آئی ہے،اِس نے بھی نون لیگ کو صدمہ پہنچایا ہے۔

ملک سے کئی ہفتوں کی غیرحاضری کے بعد مریم نواز صاحبہ 23جولائی2023 کو واپس وطن لوٹ آئی ہیں۔ مذکورہ گمبھیر مسائل نون لیگی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر محترمہ مریم نواز شریف کے لیے چیلنجز کا باعث ہیں ۔ سر پر کھڑے عام انتخابات سے قبل انہیں بڑی ہمت اور جرات کے ساتھ مذکورہ بالا جملہ مسائل پر قابو بھی پانا ہے اور انھیں مزید پھیلنے سے بچانا بھی ہے ۔ یہ ان کے لیے ایک بڑا امتحان ہے ۔

نون لیگ کی چیف آرگنائزر ہونے کے ناتے انہیں اژدہے کی طرح منہ کھولے اِن مہلک مسائل کو اکیلے ہی حل کرنا اور سمیٹنا ہے ۔ نون لیگ کے اندر اور باہر کئی قوتیں امتحان کی اِن گھڑیوں میں مریم نواز صاحبہ کی قوتِ کار اور قوتِ فیصلہ کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہیں ۔ اگر نواز شریف جنرل الیکشنز سے قبل وطن واپس نہیں آتے تو مریم نواز کے کندھوں پر پڑا یہ بوجھ مزید بھاری بھر کم ہو جائیگا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس