عزیزِ جہاں: ڈاکٹر امجد ثاقب : تحریر حفیظ اللہ نیازی


وطنی مشاہیر کی تاریخ میں اکلوتے نامور، جنہوں نے اپنی ذات کی مکمل نفی کی، تن اور من ایک مقصد کے حوالے کیا تو اسی کے ہو کر رہ گئے۔ مرنجاں مرنج، درویش صفت، میدان عمل میں اترے تو دکھ درد کو خود سے کوسوں دور بھگا دیا، خلقِ خدا کا دکھ درد اپنے اندر سمیٹ لیا۔ آج لاکھوں خاندانوں کا سہارا بن چکے ہیں۔ کس لقب سے پکارا جائے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے تعلیم یافتہ ڈاکٹر، نامی گرامی بین الاقوامی یونیورسٹیوں سے انواع واقسام کے علم و فن سے فیض یاب بے شمار اسناد سمیٹے۔ سِول بیوروکریسی میں صف اول کا مقام پانے والے، بے شمار قومی و بین الاقوامی اعزازات سمیٹنے والے، ہر لقب کمتر ہے۔ ڈپٹی کمشنر کی سرکاری نوکری ایک رہ گزر ٹھہری اس کو قید مقام نہ بننے دیا۔ ایک دن سرکاری عہدے کو خیر باد کہا کہ ایک مفلوک الحال بھائی کا روزگار ڈھونڈنا تھا۔ ایک بھائی چارے نے کیا اکسایا کہ بھائی چارے کا کوہ ہمالیہ اپنے مضبوط کندھوں پر اٹھا لیا۔ آج جس مقام پر کھڑے ہیں، اگر پیچھے مڑ کر دیکھتے ہونگے تو ششدر ہوتے ہونگے۔

اخوت کا کٹھن سفر سہل بنا دیا۔ آج بھی تالیفِ قلب اور ذہنی اطمینان سے کوسوں دور کہ ستاروں پر کمند ڈالنے کا جذبہ، بہت کچھ کر گزرنے پر اکسا رہا ہے۔ ہر ایک گول کے بعد نئی تڑپ، بیتابی ایک نیا جذبہ جوش اور امنگ پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک بھائی کی پریشانی اور تکلیف دیکھ کر جو مدوا کیا تو زندگی کا دھارا موڑ دیا۔

اخوت اور بھائی چارے کے سفر میں ایک خاندان کا چند ہزار روپوں سے غم روزگار کا چارہ گر آج 200 ارب روپے سے زیادہ کے بغیر سود قرضہ جات کے ذریعے 60 لاکھ خاندانوں کے روزگار کا وسیلہ بن چکا ہے۔ سفر روزانہ کی بنیاد پر بھرپور جوش و خروش سے جاری ہے۔ بظاہر ایسے ہمہ گیر عظیم الشان منصوبہ کو جاری و ساری رکھنے کیلئے وقت کی کمی قید و بند اور قلت وجہ نزاع بنتی ہے۔ چند سال پہلے جب پتہ چلا کہ ایک اور عظیم الشان تعلیمی منصوبے کی بنیاد رکھ دی ہے تو معلوم ہوا وقت وافر مقدار میں موجود ہے۔ غریب اور بے سہارا بچوں کو سنبھالنے کیلئے آنا فانا ایکڑوں میں شاندار عمارت میں خوبصورت نونہال بچوں کی ریل پیل نظر آئی۔ سمجھ نہیں آئی کہ اخوت کے وسیع و عریض مائیکرو فنانس پروجیکٹ سے وقت کیسے نکال پائے۔ مگر یہ وقت تو ہمیشہ ان کے پاس فالتو تھا تبھی تو وہ اس سارے عرصہ میں خیراتی، تعلیمی، حکومتی اداروں کے نظم و نسق، انتظامی امور میں مدد و معاونت اور رہنمائی کیلئے ہر جگہ میسر رہے۔ لکھنے، پڑھنے، لیکچرز کا اضافی کام بھی ساتھ ساتھ جاری رکھا۔

قومی اخبارات میں تبصرے، مضامین، کالم تسلسل سے شائع ہوتے رہے۔ کئی کتابیں لکھ ڈالیں۔ ہر مد میں نظریاتی، قومیتی، ادبی، مقصدیت نظر آئی۔ ڈاکٹر صاحب نے کبھی زندگی کو وقت سے نہیں ناپا، ہمیشہ فاصلوں سے ناپا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 20سال میں ایک صدی کا محیر العقول کام کر ڈالا۔ اخوت کی بے مثال کامیابی پر لمحہ بھر اتراتے نہیں دیکھا، جب بھی گفتگو کی تو امت کے خوابیدہ جذبہ حریت و تحریک کو جھنجھوڑنے کیلئے کوشاں مگر اندازِ بیاں میں حد درجہ انکساری نمایاں رہی۔ کوئی دوسرا نام سامنے نہیں، جس کا عمل 100فیصد بے غرض ہو ۔

میرا ڈاکٹر امجد ثاقب سے پہلا تعارف( شاید ان کو یاد نہ رہا ہو) 20 سال پہلے ہوا۔ یہی وہ وقت جو اخوت کی چنگاری پھوٹنے کو تڑپ رہی تھی، آج شعلہ جوالہ بن چکی ہے۔ مجھے وہ ملاقات شاید ڈاکٹر امجد ثاقب کے حوالے سے یاد نہ رہتی اگر میں گورنر جنرل خالد مقبول کا ہم رکاب نہ ہوتا وہاں پہنچ کر مجھے تضیع اوقات لگا۔ برادرم سلیم رانجھا نے مجھے وہاں پہنچنے کیلئے آمادہ کیا۔ منہ لگتی بات، مجھے ڈاکٹر صاحب کا جوش و ولولہ سب کچھ دیوانے کی بڑ لگا۔ وطن عزیز میں درجنوں جلیل القدر شخصیات سے واسطہ پڑا، جو محض تصوراتی منصوبے میں مگن دیکھیں۔ ہمیشہ ایسوں کے جذبوں کو سراہا اور ساتھ دعا کی اگرچہ ایسے منصوبے میرے لئے خام خیالی تھے۔

جب یہ پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب ڈپٹی کمشنر کی پوسٹ چھوڑ کر پاکستان میں روزگار کے ذریعہ غربت مکاو کا عزم رکھتے ہیں یعنی کہ غریب کو روٹی نہ دو ، روٹی کمانے کے ذرائع دو تاکہ وہ ہمیشہ کیلئے خود کفیل ہو۔ سمجھ نہ پایا کہ ذی وقار نوکری چھوڑ کر کس تصوراتی کام میں الجھنے کو ہے۔ اس وقت شاید چند لاکھ کا سرمایہ پلے تھے اور 18کروڑ (اس وقت کی آبادی) کی مالی مشکلات دور کرنے کا عزم چٹان مانند نظر آیا۔ ڈاکٹر صاحب آج میں آپ سے شرمندہ ہوں کہ آپکی لامحدود ہمت و عزم کو ناپنے میں احمقانہ طور پر ناکام رہا۔ اخوت دنیا کا سب سے بڑا بلا سود مائیکرو فنانس منصوبہ بن چکا ہے اور ابھی ڈاکٹر صاحب رہ گزر میں ہیں ۔

20 سال کے قلیل عرصہ میں پاکستان کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر ایسی دھاک کہ آج سوائے نوبیل پرائز کے، درجنوں بڑے بڑے اعزازات اپنے نام کر چکے۔ دو ہفتے پہلے15 جولائی کو لندن برطانیہ میں ڈاکٹر امجد ثاقب کو بین الاقوامی سطح پر عشرہ کا بہترین شخص (Global Man Of The Decade) کا اعزاز ملا۔ 35ممالک سے موثر ترین افراد کو شارٹ لسٹ، سب میں نمایاں اور غیرمعمولی نمبر ون ڈاکٹر امجد ثاقب قرار پائے۔ اس سے قبل ایشیا کا نوبیل پرائز رامن ماگا ساسے نیحاصل کیا جبکہ پچھلے سال عالمی نوبیل پرائز کیلئے نامزد ہوئے۔ ان شا اللہ جلد یا بدیر نوبیل انعام بھی حصے میں ہو گا۔ شرح صدر سے، بلا شبہ ایسے سارے اعزازات کیلئے اعزاز ہے کہ ڈاکٹر امجد ثاقب کا نصیب بنے۔ میرے لئے اعزاز انکی مروت اور نیاز مندی نصیب بنی۔ عید الاضحی کے موقع پر میرے گھر تشریف لائے تو طویل نشست رہی۔ مایوسی کفر اور ایک بیماری ہے، وطنی بدقسمتی ہر شعبہ کے اکابر اس کی گرفت میں ہیں۔ لمبی نشست میں ڈاکٹر امجد ثاقب کی مثبت سوچ سامنے آئی، موجود سب دوستوں کے حوصلے بڑھا گئی۔ مملکت خداداد کی خوبیاں اور وصف ایسے اجاگر کئے جیسے مملکت عنقریب ایمان چھونے کو ہے۔ خوبصورت، مدلل منطقی اور فلسفیانہ گفتگو سے موجود سارے لوگوں کو قائل کیا، مبہوت رکھا۔ کج بحثی کے ماحول میں بحث و تمحیص کو ایسے سمیٹا کہ اختلاف کی گنجائش نہ رہی۔ بحث کو نہیں ، بحث کے شرکا کو جیتا۔ آج جب اخوت کے مائیکرو فنانس پروجیکٹ کی موجودگی میں چند سال کے اندر عظیم الشان تعلیمی منصوبہ روبہ عمل ہے۔ اتنی دعا کہ اللہ عمر دراز دے۔ اگلے برسوں میں ڈاکٹر صاحب کی غیر معمولی کامیابیوں ناپنا کیونکر اور کیسے ممکن ہوگا؟ ایک تاریخ رقم ہونے کو ہے۔ جس کا عمل، بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ