اینٹی اسٹیبلشمنٹ یا اپنی اسٹیبلشمنٹ : تحریر نوید چوہدری


پی ٹی آئی کی سیاست کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھنا اتنا ہی بڑا مغالطہ ہے جتنا پچاس لاکھ مکانات، ایک کروڑ نوکریاں، دو ارب درخت، 350 ڈیم وغیرہ وغیرہ تھے،اس وقت ہنسی آجاتی ہے جب چیئرمین پی ٹی آئی کے چاہنے والے دبے لفظوں میں جمہوریت و آئین پسندوں کو اپنی جانب سے ایسے طعنے دیتے ہیں کہ آپ لوگ عمران خان کی حمایت نہ کرکے اپنے موقف اور بیانیے کی نفی کررہے ہیں، ان عناصر کو لگتا ہے کہ ان کی پارٹی اور اس کا قائد مکمل طور پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہو چکے ہیں لہذا اب پورے ملک کے عوام خصوصا سیاست میں غیر جمہوری حلقوں کی مداخلت کے مخالف افراد کو آگے بڑھ کر اس جہاد میں کپتان کا سپاہی بن جانا چاہیے۔ پچھلے سال سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت گنوانے کے بعد سے اب تک عمران خان کی واحد کوشش ہی یہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ کو رام کرکے پھر سے اقتدار حاصل کرلیں، ساری کی ساری لڑائی یہی ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس کوشش میں وہ غلطیاں کرتے کرتے 9 مئی کر بیٹھے۔ اس وقت لڑائی صرف اتنی ہے کہ عمران خان جنہوں نے ایک موقع پر جنرل باجوہ کو تاحیات آرمی چیف بنانے کی پیشکش کردی تھی اب تک اس کوشش میں رہے کہ اپنے ملکی و غیرملکی حامیوں کی مدد سے اسٹیبلشمنٹ کی صفوں میں اپنے ہم خیال افسروں کو آگے لا سکیں،عمران خان کی چوائس ظاہر ہے جنرل ر قمر جاوید باجوہ، لیفٹیننٹ جنرل ر فیض حمید،لیفٹیننٹ جنرل ر عاصم باجوہ، لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور جیسے جنرل ہی ہو سکتے ہیں جو ہر طرح سے آزمائے جاچکے بلکہ یہ کہنا سو فیصد درست ہوگا کہ ایسے افسروں کے فیصلوں اور اقدامات کے باعث پاکستان آج سنگین معاشی اور سکیورٹی مسائل میں گھرا ہوا ہے، اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ 9 مئی کے واقعات صرف فوج اور فوجی املاک پر حملے ہی نہیں تھے بلکہ ادارے میں بغاوت کرانے کی ایک منظم کوشش تھی، منصوبہ بندی میں غیر ملکی قوتوں کے ساتھ بعض ریٹائر جنرل بھی ملوث تھے، لاہور کے جس کورکماانڈر کو فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہنے پر فارغ کردیا گیا اس کی چیف جسٹس بندیال کے ساتھ عزیز داری ہے،یوں یہ سمجھنا اور بھی آسان ہوجاتا ہے کہ عدالتوں نے اپنا پورا وزن پی ٹی آئی کے پلڑے میں کیوں ڈالا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین کو نہ صرف فوج میں اپنی پسند کے جنرل درکار ہیں بلکہ عدلیہ میں ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، گلزار ان کے ہم خیال چیف جسٹس چاہئیں، ظاہر ہے کہ ایک طرف یہ سب آزمائے ہوئے جنرل
اور جج ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ سب بھی عمران خان کے ساتھ نہیں تھے بلکہ اپنے اپنے مفادات خصوصا کرسیوں سے چمٹے رہنے کی ہوس میں بے نقاب ہوگئے، دوسری جانب وہ جج اور جرنیل ہیں کہ جنہیں اب موقع مل رہا ہے کہ اپنے پچھلوں کی غلطیوں کا ازالہ کریں،سو کوئی پاگل ہی ہوسکتا ہے جو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ میں عمران خان نیازی کے فیورٹس کی حمایت کر ے، فوج کی قیادت میں تبدیلی کے بعد اب انتظار کرنا چاہیے کہ باجوہ اور فیض کی پا لیسیوں سے کتنی جلدی چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے، اسی طرح عدلیہ کی قیادت میں ستمبر میں تبدیل ہونے والی ہے، دیکھنا ہوگا کہ نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی عدلیہ کے گناہوں کا کفارہ کیسے ادا کرتے ہیں، اب تک کی تمام گھڑمس میں چند چیزیں اور کھل کر واضح ہوگئیں کہ امریکہ نے عمران کی حمایت میں پورا زور لگانے کے بعد مطلوبہ نتائج نہ ملنے پر پالیسی تبدیل کرکے اب کہنا شروع کردیا ہے کہ ہم پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے، آئی ایم ایف سے معاہدے کے لیے گرین سگنل دینا اسی تبدیل شدہ پالیسی کا حصہ ہے، عمران خان کی حمایت میں اسرائیل کے بیان کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے کہ جب پاکستان کے متعلق ا س کے تمام ارادے ناکام ہوگئے تو اسے کھل کر سامنے آنا پڑا جو صیہونی لابی کی ناکامی جبکہ ریاست پاکستان کی کامیابی ہے۔ پنجاب کے بعد کے پی کے میں بھی پی ٹی آئی میں بڑی توڑ پھوڑ شروع ہوگئی ہے، پرویز خٹک اپنی جماعت پی ٹی آئی پا رلیمنٹرینزکے پہلے ہی اجلاس میں سابق وزیراعلی محمود خان کو بھی ساتھ لے آئے،جن لوگوں کو یہ خوش فہمی ہے کہ ان سابق ارکان اسمبلی کے جانے سے فرق نہیں پڑے گا وہ شاید نہیں جانتے کہ یہ الیکٹ ایبلز ہیں اور ہر کوئی اپنے تیس سے پنتیس ہزار تک ووٹ رکھتا ہے،انہیں کسی بڑی جماعت کا ٹکٹ مل جائے تو کامیابی کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں،ویسے بھی پی ٹی آئی کی اب تک کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ عمران خان کا 9 مئی سمیت ہر طرح کے مقدمات میں ملوث ہونے کے باوجود قانون سے بالا تر ہونا ہے۔ ریاست نے فی الوقت عمران خان کے ساتھ بھی ہم خیال ججوں والا طریقہ کار اختیار کررکھا ہے کہ ان کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر متعلقہ بنا دیا جائے، جیسے ہی یہ طلسم ٹوٹا کہ عمران ان ٹچ ایبل نہیں رہے ان کا عوامی ووٹ بنک (جو یقینا کسی کارکردگی کی نہیں بلکہ موجودہ اتحادی حکومت کی ناقص کارکردگی خصوصا مہنگائی کے سبب ہے) بھی تتر بتر ہو جائے گا،بہتر تو یہی تھا کہ پہلے سے موجود درجنوں کرپشن، فوجداری کیسوں کے ساتھ سانحہ نو مئی کے فوری بعد پی ٹی آئی کے سربراہ کو مزید موقع نہ دیا جاتا لیکن فیصلہ سازوں کو کون سمجھائے؟ قانون کا فوری اور یکساں اطلاق معاشرے کی سمت درست رکھتا ہے، فرانس میں تشدد کے حالیہ واقعات کے بعد جس طرح سے فاسٹ ٹریک عدالتیں بنا کر مجرموں کو انجام تک پہنچایا جارہا ہے وہ قانون کی عملداری تو ہے ہی لیکن معاشرے کو خانہ جنگی سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی لازمی تھا۔ شاید قارئین کو علم نہ ہو کہ ان ہنگاموں کے دوران جلا گھیرا، سکیورٹی فورسز پر حملوں کے تین یا چار روز بعد دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی فرانسیسی تنظیموں کے کارکن لوہے کے راڈ اور ڈنڈے لے کر ہنگامہ کرنے والوں کو مارنے کے لیے خود سڑکوں پر نکل آئے تھے، موقع کی نزاکت دیکھ کر فرانسیسی حکومت نے تمام مصلحتیں ایک طرف رکھ کر قانون کا ڈنڈا چلا دیا ورنہ سڑکوں پر خون خرابا ہوتا، اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ معاشرے میں امن برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح کے مجرموں کی بلا تاخیر سرکوبی کرنا لازمی عمل ہے، ریاستی ادروں کو اپنی رٹ ایسے ہی منوانی چاہیے۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات