پنجابی میں کیا لکھا، کیا پڑھا جارہا ہے؟” : تحریر محمود شام”


دوپہر ہو چلی۔ وہ اپنا سامان لاد رہے ہیں اب تو جاگو

اونچی چوٹیوں پر برف پگھل گئی۔ ندیاں رواں ہولیں

آپ ابھی تک پہلو ہی بدل رہے ہو۔ اب تو جاگو

جو خون آزادی کی راہ میں کالی راتوں میں بہا

وہ اب صبح کی سرخی بن کر مسکرا اٹھا اب تو جاگو

(افضل پرویز کی نظم ’ہن تے جاگو‘ وحدت افکار۔ علاقائی زبانوں کے قدیم و جدید شعری ادب کا انتخاب)

آزادی اور بیداری لازم و ملزوم ہیں۔ ’پاکستان کیا پڑھ رہا ہے‘ کا سلسلہ بہت مقبول ہورہا ہے۔ خوشی ہوتی ہے کہ سیاسی افراتفری کے دَور میں ہمارے فکری ادبی اور علمی حلقے سنجیدگی سے تخلیق اور تحقیق میں مصروف ہیں۔ یہ جاننے کی دُھن اچانک ہی ذہن میں بجلی کی طرح کوندی تھی۔ اور جب سے میں شعر و ادب کے اس شبستان میں داخل ہوا ہوں۔ میری مایوسیاں دور ہورہی ہیں۔ سندھی، سرائیکی اب پنجابی شاعری، فکشن نے میرے چاروں طرف روشنی کا ہالہ بنادیا ہے۔ پھر جب آپ کی طرف سے پذیرائی ہوتی ہے تو میں سمجھتا ہوں۔ میری معمولی سی ریاضت پھل لے آئی۔ ضرورت تو یہ ہے کہ پاکستان کی ان مختلف قومی زبانوں کی سیپیوں سے نکلنے والے ان موتیوں کے رنگ روپ ،چمک کو کوئی یونیورسٹی کوئی تحقیقی ادارہ صرف حرف مطبوعہ کے ذریعے ہی نہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا پر بھی لے کر آئے۔ اب ہم اکثریتی صوبے کی اور کئی ہزار سال قدیم پنجابی زبان کے خیابان میں قدم رکھ رہے ہیں۔ ہر چند یہ کہا جاسکتا ہے کہ ادب میں تو سیاست کہیں کہیں جھلکتی ہے۔ مگر دُکھ کی بات یہ ہے کہ اب سیاست میں کہیں ادب باقی نہیں رہا۔ اب 2023 میں ہمیں جس انتشار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ واہگہ سے گوادر تک جو اضطراب اور بے چینی ہر باشعور کو تڑپارہی ہے۔ یہ خاردار جھاڑیاں اچانک پیدا نہیں ہوئی ہیں۔ یہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں انتخابی حلقوں پر مسلط کیے گئے انتخابیوں کی غیر سیاسی، غیر نظریاتی،غیر سنجیدگی کا مظہر ہے۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں ۔ بہوؤں اور دامادوں سے مل بیٹھنے کا دن۔ وہ پوچھیں گے کہ آئی ایم ایف معاہدہ ہوگیا ہے۔ کیا ہمارا مستقبل محفوظ ہوگیا ہے۔ یہ جو تین ارب ڈالر ملیں گے۔ یہ بھی قرض ہی ہیں ۔ یہ بھی واپس کرنا ہوں گے۔ پہلے بھی کئی ارب ڈالر قرضے اور سود کی ادائیگی کرنا ہے۔ ہمارے ہاں آمدنی کے کوئی مواقع بڑھے ہیں۔ کیا ہماری برآمدات بڑھیں گی۔

ہمارے حاجی واپس آرہے ہیں۔ انہوں نے بہت دعائیں مانگی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قبول کرے۔ ہمیں ایسے حکمران دے جو اپنے نہیں ملک کے آئندہ دس پندرہ برس کا سوچیں۔

وکی پیڈیا پنجابی کی پیدائش ساتویں صدی میں بتارہا ہے۔ جدید پنجابی کا دَور 19ویں صدی سے شروع کررہا ہے۔ رسم الخط کی الجھن رہی ہے۔ املا۔ تلفظ۔ لیکن اس پر کبھی اختلاف نہیں ہوا کہ پنجابی عاشقوں کی زبان ہے۔ کالم کا آغاز افضل پرویز کی نظم ’ہن تے جاگو‘ سے کیا تھا۔ پنجاب اب واقعی جاگ گیا ہے۔ سندھ۔ بلوچستان۔ خیبر پختونخوا کے 1947 سے شروع ہونے والے گلے شکوے ختم ہورہے ہیں۔ بلکہ ان میں سے بعض تو یہ دیکھ کر کہ پنجاب جاگ گیا ہے اب ہمارے مسلسل جاگنے کی ضرورت نہیں۔ وہ آرام کرنے لگے ہیں۔ پنجاب۔ سندھ۔ بلوچستان۔ کے پی کے کی سوچ ایک ہورہی ہے۔ صوفیائے کرام۔ بلّھے شاہ ؒ(1757-1680)۔ سلطان باہوؒ(1691-1630)۔میاں محمد بخش۔ شاہ حسین(1599-1538)۔ وارث شاہ (1805- 1718) ہمیشہ اہل پنجاب کو جگاتے رہے ہیں۔ انشاء اللہ خان انشا یاد آتے ہیں۔

سنایا رات کو قصّہ جو ہیر رانجھے کا

تو اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا

اہل درد تو اس قصّے سے لٹتے رہے ہیں۔ بیسویں اکیسویں صدی میں پنجابیوں سے لٹنے کے اسباب کچھ مختلف رہے۔ یہ اسوقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔ ہم اس پنجاب کی باتیں کررہے ہیں جہاں ’’دنے راج فرنگی دا۔ راتی راج ملنگی دا۔‘‘ کی صدا گونجتی تھی۔ پانچ دریاؤں سے سیراب ہوتی زمین میں دو آبے بھی ہیں۔ ساندل بار، نیلی بار، ماجھا، لہندا پنجاب، چڑھدا پنجاب، بیلے، حسین علاقے ہیں۔ پھر ہیر رانجھا۔ مرزا صاحباں ۔ سو ہنی مہینوال۔ سسی پنوں جیسے سدا بہار رومانی قصّوں نے اہل پنجاب کو محبت بلکہ عشق کا مرکز بنائے رکھا۔

اب پنجابی میں کیا لکھا جارہا ہے۔ کیا پڑھا جارہا ہے۔ کے موضوع پر میں نے اپنے احباب سے رابطہ کیا تو اتنی خوشبوئیں میسر آئی ہیں کہ میرا ذہن مہک رہا ہے۔ کئی کالم لکھنے پڑیں گے۔ مستنصر حسین تارڑ کے پنجابی ناول ’’ میں بھنّاں دلّی دے کنگرے‘‘( میں توڑوں دلّی کے قلعے کے کنگرے) کی دھوم ہے۔ مجھے جھنگ میں اپنا بچپن جوانی یاد آرہی ہے۔ پروفیسر شارب انصاری۔ حنیف باوا۔ خیر الدین انصاری۔ لاہور میں آصف خان۔ شفقت تنویر مرزا۔ راجہ رسالو۔ اب جھنگ میں ڈاکٹر محسن مگھیانہ پنجابی اور اُردو میں ہر صنف میں لکھ رہے ہیں ۔پاکستان پنجابی ادبی بورڈ اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لٹریچر اینڈ کلچر سے پنجابی شاعری فکشن کی سرپرستی ہورہی ہے۔ یونیورسٹیوں میں پنجابی کے شعبے میں پنجابی لسانیات، پنجابی ادب، پنجابی تاریخ پر کام ہورہا ہے۔ پنجابی پروفیسروں سے پنجابی اہل قلم کو کیا شکایات ہیں۔ اس پر بھی گفتگو ہوگی۔ کراچی میں توقیر چغتائی۔ پنجابی ادبی سرمائے کے تحفظ کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔ ان سے بھی تفصیلی گفتگو رہی۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف۔ تصوف کی دلدادہ ہیں۔ ان کے چار مجموعے آچکے ہیں۔ سونان اظہر ماہنامہ ’تخلیق‘ میں اُردو کے ساتھ پنجابی تخلیقات بھی شائع کرتے ہیں۔ اظہر جاوید یاد آتے ہیں۔ جن کی پنجابی شاعری افسانے یادگار ہیں۔ سلیم شہزاد۔ سرفراز سید۔ غلام حسین ساجد۔ تسنیم کوثر۔ بابا نجمی۔ ڈاکٹر ایم ابرار۔ ناصر بلوچ۔ افضال ساحر۔ عرفان صدیق۔ نصیر احمد۔ انجم قریشی پنجابی شاعری کی ہر صنف میں لکھ رہے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا میں بھی پنجابی کی گونج ہے۔ ایک نئی نسل کی شاعرہ طاہرہ سرا آج کی آواز ہیں۔’’ پہلی گل کہ ساری غلطی میری نئیں…. جے کر میری وی اے کیہ میں تیری نئیں ۔ طاہرہ پیاردی خورے کیڑی منزل اے…. سب کچھ میرا اے پر مرضی میری نئیں۔‘‘(پہلی بات تو یہ کہ ساری غلطی میری نہیں۔ اگر میری بھی ہے تو کیا میں تیری نہیں۔ طاہرہ نہ جانے پیار کی کونسی منزل ہے۔ سب کچھ میرا ہے پر مرضی میری نہیں۔) اسے محبت تک ہی رکھیں۔ سیاسی تشریح نہ کریں۔ پنجابی کتابیں۔ رسالے۔ آئندہ نشستوں میں زیر غور آئیں گے۔ آپ کی تجاویز کا انتظار رہے گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ