سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف فوری کارروائی سے متعلق درخواست خارج

اسلا م آ باد(صباح نیوز)سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف شکایت پر ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل کارروائی کرنے سے متعلق درخواست خارج کردی۔جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے ججز کے احتساب سے متعلق اس درخواست پر 13 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔درخواست گزار نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف شکایت آنے پر فوری کارروائی شروع کرنے کے احکامات دینے کی استدعا کی تھی۔تاہم یہ درخواست سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ریٹائر ہونے کے بعد دائر کی گئی تھی جب کہ ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک شکایت زیر التوا تھی۔

سینئر وکیل حنا جیلانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ بدعنوانی کے الزام والا جج اگر سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا شکایت کے باوجود ریٹائرمنٹ پر پہنچ جاتا ہے تو وہ سرکاری خزانے پر بوجھ ہے۔تاہم جسٹس منیب اختر نے منگل کو مذکورہ درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے درخواست خارج کردی۔فیصلے میں ذکر کیا گیا کہ درخواست گزار کی شکایت ان ججوں سے متعلق ہے جن کے خلاف کونسل کے سامنے شکایت دائر کی گئی ہے لیکن وہ کونسل کی جانب سے رپورٹ صدر کو بھجوانے اور صدر کے اس پر فیصلہ کرنے سے قبل ہی ریٹائر یا مستعفی ہوجاتے ہیں ایسی صورت حال میں شکایت ختم ہو جاتی ہے اور معاملہ کسی بھی طرح سے حل کیے بغیر ختم ہو جاتا ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ یہی وہ چیز ہے جس سے درخواست گزار پریشان ہیں اور اس معاملے میں پیش ہونے والے وکیل نے کہا کہ یہ صورتحال انصاف تک رسائی، اس کی محفوظ فراہمی اور درحقیقت عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے۔درخواست میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اس طرح کے حالات نے استثنی کا تاثر پیدا کردیا ہے، ججز آئین کے مقرر کردہ پیرامیٹرز کے اندر مناسب جوابدہی سے محفوظ نہیں ہیں اور مکمل اور مثر احتساب کا تقاضا ہے کہ نشاندہی کی گئی صورتحال کو درست طریقے سے ٹھیک کیا جائے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ وکیل نے مقف اختیار کیا کہ ایک جج جو ریٹائر ہو چکا ہے یا مستعفی ہو چکا ہے وہ بھی آرٹیکل 209 کے دائرے میں آتا ہے اور اس کے عہدہ چھوڑنے کی تاریخ تک زیر التوا کوئی بھی شکایت اٹھائی جا سکتی ہے، اس پر غور کیا جا سکتا ہے اور کونسل کے ذریعے اس پر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔اگر کونسل یہ نتیجہ اخذا کرتی ہے کہ جج مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا ہے تو وہ شق (6) کے لحاظ سے صدر کو مطلوبہ رپورٹ دے سکتی ہے، جو اس کے بعد اس پر مناسب حکم جاری کرسکتے ہیں۔عدالت نے کہا کہ جیسا کہ واضح ہے کہ کونسل کے لیے ضروری ہے کہ اگر وہ ضروری رائے دے تو صدر کو رپورٹ کرے کہ جج کو عہدے سے ہٹا دیا جائے اور اس طرح کی رپورٹ پر صدر ایسا کر سکتا ہے یوں کونسل اور صدر کے لیے واحد مجاز کارروائی غلط جج کو عہدے سے ہٹانا ہے۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اگر یہ ممکن نہیں ہے تو پھر شق (6) کا کوئی اطلاق نہیں ہو سکتا کیوں کہ یہ نتیجہ کسی ایسے جج کے لیے ناممکن ہے جو پہلے ہی ریٹائر یا استعفی دے چکا ہو، اس لیے جو تجویز پیش کی جا رہی ہے وہ آئینی طور پر غلط ہے۔

بینچ کا کہنا تھا کہ کہ یہ واضح ہے کہ آئین ایک ایسے شخص کے درمیان فرق کرتا ہے جو متعلقہ وقت پر جج کے عہدے پر فائز ہوتا ہے اور وہ جو ماضی میں اس عہدے پر فائز رہا ہے اور آئین کا آرٹیکل 209 عہدے سے ہٹ جانے والے کے بجائے صرف عہدے پر موجود فرد پر لاگو ہوتا ہے۔لہذا عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ معاملے کے کسی بھی نقطہ نظر پر آرٹیکل 209 کا اطلاق کسی ایسے شخص پر نہیں ہوتا جو اس عدالت یا ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے ریٹائر یا مستعفی ہو چکا ہو۔عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہمارے سامنے پیش کی گئی تجاویز نہ تو قابل عمل ہیں اور نہ ہی میرٹ پر ہیں چنانچہ یہ درخواست خارج کی جاتی ہے۔مذکورہ درخواست سول سوسائٹی کے اراکین عافیہ شہربانو ضیا، افراسیاب خٹک، ایم ضیا الدین، فرحت اللہ بابر، نگہت سعید خان، فریدہ شہید، روبینہ سیگل اور بشری گوہر شامل کی جانب سے دائر کی گئی تھی جس کی پیروی ایڈووکیٹ حنا جیلانی کررہی تھیں۔