عمران نے اسٹیبلشمنٹ کو کیسے مضبوط کیا؟ : تحریر انصار عباسی


عمران خان کہتے ہیں کہ ہم ہر لحاظ سے ایک مارشل لاء کی گرفت میں جکڑے جا رہے ہیں۔ خان صاحب اگر تھوڑا سا سوچیں، غور فرمائیں تو اُنہیں اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی کہ موجودہ حالات کی تمام تر ذمہ داری اُنہی پرعائد ہوتی ہے۔ اپنی حکومت کے خاتمےکے بعد کے حالات پر ہی غور کر لیں۔صرف اپنے رویے، اپنی باتوں، اپنے الزامات کو ذہن میں لائیں اور پھر اس سب کے نتیجے میں9مئی کو جو ہوا اُس کے بارے میں سوچیں تو شاید اُن کی سمجھ میں آ جائے کہ جو آج اُن کے ساتھ اور اُن کی جماعت کے ساتھ ہو رہا ہے اُس کی وجہ کیا ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کردار ہمیشہ رہا اور اس کی ماضی قریب کی ایک بڑی مثال خود عمران خان یعنی’’ عمران خان پروجیکٹ ‘‘ہے۔جس کے تحت خان صاحب کو اقتدار میں لانے کیلئے اُن کے مخالفین کی حکومت کو کمزور کرنے اور پھر اُسے ختم کرنے کا کھیل رچایا گیا، پھر 2018کے انتخابات میں خان صاحب کو جتوانےکیلئےسیاسی انجینئرنگ کی گئی، اُن کے مخالفوں کو جیلوں میں ڈالا گیا، اُنہیں ڈرایا دھمکایا گیا جس کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ایک ایسا وقت بھی آیا کہ اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹتی ہوئی نظر آئی اور اُس وقت کے آرمی چیف کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ فوج اب نیوٹرل ہو چکی اور اب سیاسی معاملات میں کسی بھی طرح سے مداخلت نہیں کرے گی۔ ایسا عملی طور پر ہوا یا نہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹتی ہوئی نظر آئی۔ اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان نے فوج اور فوجی قیادت کو اپنے نشانے پر رکھ لیا۔ طرح طرح کے الزامات فوجی قیادت اور ادارے پر لگانا شروع کر دیے۔ اُنہیں غدار کہا، ’’نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے‘‘ کے طعنے دے دے کر یہ مطالبہ کیا کہ موجودہ حکومت کو فوج گھر بھیج کر فوری الیکشن کروا کے اُنہیں دوبارہ اقتدار کی کرسی پر بٹھایا جائے۔ امریکی سازش کا ڈرامہ رچا کر اپنی ہی فوج کی قیادت کو میر جعفر اور میر صادق کے طعنے دیے۔ جب لانگ مارچ کے دوران وزیرآباد میںان پر قاتلانہ حملہ ہوا تو اس کی ذمہ داری بھی آئی ایس آئی کے ایک اعلیٰ افسر پر ڈال دی، اس سے پہلے مرحوم ارشد شریف کے قتل کا ذمہ داربھی اپنی ہی فوج کو ٹھہرا دیا۔ اس دوران فوجی قیادت کا مذاق بھی اڑاتے رہے، تحریک انصاف کے سوشل میڈیانےکئی ماہ تک اپنی ہی فوج کے خلاف درجنوں campaigns چلائیں۔ جب جنرل باجوہ چلے گئے تو موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تعیناتی کی حمایت کی بجائے اُن پر بھی تنقید شروع کر دی ۔ گویا فوج کے خلاف ایک ایسی مہم چلائی کہ جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس مہم کے ذریعے تحریک انصاف کے ووٹروں، سپورٹروں کے ذہنوں میں فوج کےخلاف نفرت کے بیج بوئے۔ یہ سب کچھ کرتے ہوئے، عمران خان کی اصل کوشش یہ رہی کہ اُن کی آرمی چیف سے ملاقات ہو جائے تا کہ جووہ چاہتے ہیں اُنہیں مل جائے۔ سابق آرمی چیف کو غدار، میر جعفر اور میر صادق کے القابات دینے کے باوجود اُنہیں ایکسٹینشن دینے کی بھی لالچ دیتے رہے تاکہ موجودہ حکومت کے خاتمے اور اقتدار میں واپسی کارستہ ہموار کیا جائے۔ عمران خان، تحریک انصاف کے رہنماوں اور پورے عوام پر واضح ہو گیا کہ عمران خان کی اصل مخالفت اور لڑائی ن لیگ، پیپلز پارٹی یا مولانا فضل الرحمن کے ساتھ نہیں بلکہ فوج کے ساتھ ہے اور اسی سلسلے میں امریکہ سے حقیقی آزادی کا جو سفر عمران خان نے ایک سال پہلے شروع کیا تھا اُس کو فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے حقیقی آزادی میں بدل لیا۔ 9 مئی اسی سوچ کا نتیجہ تھا۔ گزشتہ ایک سال کے دوران عمران خان نے جو کچھ فوج اور فوجی قیادت کے ساتھ کیا اُس سے اُن میں اور اُن کے ووٹروں، سپوٹروں کو اتنی شہ ملی کہ 9مئی کا سانحہ ہو گیا جس میں تحریک انصاف کے لوگوں نے اپنی ہی فوجی تنصیبات، شہدا کی یادگاروں وغیرہ پر حملے کر دیے اور جلاو گھیراو کا وہ کھیل کھیلا جو پاکستان کا بدترین دشمن کبھی سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ یہ وہ واقع تھا جس نے فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے پیمانہ صبر کو لبریز کر دیا کیوں کہ جو ہوا اُس کو اگر ignore کیا جاتا تو ایک طرف فوج بحیثیت دفاعی ادارہ بہت کمزور ہو جاتی اور دوسرا 9مئی کے واقعات معمول بن جاتے اور یوں پاکستان سول وار یعنی خانہ جنگی کی طرف چلا جاتا۔ اس واقعے کے بعد تحریک انصاف پر جو کریک ڈاون ہوا اور جنہوں نے قومی، نجی اور فوجی تنصیبات پر حملے کئےاُن کی گرفتاریاں شروع ہوئیں، اُن میں سے بہت سوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے اور کسی کو کوئی رعایت نہ دینے کا تہیہ کیا گیا۔9مئی کا واقعہ فوج کیلئے9/11 سے کم نہ تھا اور اس کے بعد جو ہوا اُس نے عمران خان اور تحریک انصاف کی سیاست کے مستقبل کو خطرہ میں ڈال دیا۔ اسٹیبلشمنٹ جس پر عمران خان ایک سال سے طعنہ و تشنیع جاری رکھے ہوئے تھے، اُسے عمران خان اور 9مئی نے بہت مضبوط کر دیا اور آج عمران خان گلے شکوئے ایسےکر رہے ہیں جیسے یہ سب کسی دوسرے کے کئے کا نتیجہ ہے۔ جو کچھ خان صاحب اور اُن کی جماعت کے ساتھ ہو رہا ہے، اُسے علیحدگی میں دیکھنے کی بجائے 9مئی کے تناظر میں دیکھیں تو خان صاحب کو سمجھ آ جائے گی کہ اُن کے سا تھ کیا اور کیوں ہو رہا ہے اوراس ’’مکمل مارشل لاء‘‘ کا ذمہ دار کون ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ