آئین کی گولڈن جوبلی تقریب اور بحث کا موضوع … مزمل سہروردی


جسٹس قاضی فائز عیسی نے آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب میں شرکت کی ہے۔

یہ تقریب پارلیمان کے ہال میں ہوئی ، اس تقریب میں بہت سے مہمان مدعو تھے، جسٹس قاضی فائز عیسی بھی انھیں مہمانوں میں سے ایک تھے لیکن دیکھا گیا ہے کہ کسی اور مہمان پر کوئی اعتراض نہیں آیا لیکن تحریک انصاف کے حامی خواتین وحضرات جسٹس صاحب کی شرکت پر اعتراض کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق تقریب میں تو سیاستدان موجود تھے لہذا جسٹس صاحب کو نہیں جانا چاہیے تھا۔ اس کے جواب میں لوگ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی وہ فوٹیج بھی شیئر کر رہے ہیں جب وہ ڈیم کے سلسلے میں منعقد تقریب میں تب کے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ شریک تھے۔

ہر ایک کا اپنا خیال ہے تاہم میں سمجھتا ہوں جسٹس قاضی فائز عیسی دستور کنونشن میں شریک ہوئے، وہ آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب میں شریک ہوئے ہیں،کسی سیاسی جماعت کے کنونشن میں شریک نہیں ہوئے ۔

پاکستان کے ہر جج نے آئین پاکستان کے تحفظ کی قسم کھائی ہے اور وہ اس حلف کے پابند ہیں کہ وہ ہر فیصلہ پاکستان کے آئین کے تحت کریں گے، اس لیے ججز تو آئین پاکستان کے زیادہ پابند ہیں۔ سیاستدان تو اپنے سیاسی مفاد کے لیے آئین سے نکل کر بھی کھیلتے ہیں۔ لیکن ججز انھیں آئین کے دائرے میں پابند رکھتے ہیں، جب بھی سیاسی کھیل آئین سے باہر جاتا ہے تو عدلیہ ہی اس کو واپس آئین میں لاتے ہیں۔

لیکن آجکل سوال تو یہ ہے کہ اگر ججز ہی آئین سے باہر نکل کر فیصلے دینے لگ جائیں تو کیا کیا جائے، اگر سپریم کورٹ کے فیصلے آئین کو دوبارہ لکھنے کاباعث بن جائیں تو کیا کیا جائے۔ آجکل تو سوال یہ ہے کہ عدلیہ کو آئین کے دائرے میں کیسے رکھا جائے۔

پارلیمان سے کی جانے والی قانون سازی کے بارے میں بھی تحریک انصاف یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ عدلیہ پر حملہ ہو گیا ہے۔ یہ سیاسی بیانیہ تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقت نہیں۔ پارلیمان نے جو قانون سازی کی ہے، اس کا تعلق چیف جسٹس کے انتظامی دائرہ کار سے ہے۔

سوموٹو کے بارے میں عدلیہ کے معزز ججز بات کر رہے ہیں ۔ پارلیمان نے عدلیہ سے کوئی اختیارات واپس نہیں لیے ہیں بلکہ صرف اتنا کہا ہے کہ اختیارات کے شفا ف استعمال کے لیے ان کو مل کر استعمال کیا کیا جائے۔ بنچ دو سنیئر ججز ملکر بنائیں۔ جہاں تک تحریک انصاف کا یہ موقف ہے کہ حکومت آئین میں ترمیم نہیں کر سکتی کیونکہ اس کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔ لیکن جواب یہ ہے کہ یہ ترمیم نہیں ہے بلکہ قانون سازی ہے، آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار کا پارلیمنٹ کے پاس ہے

بہر حال جسٹس قاضی فائز عیسی نے تقریب میں کوئی سیاسی تقریر نہیں کی ہے۔ انھوں نے آئین کی سربلندی کی بات کی ہے۔ انھوں نے آئین پاکستان سے حلق کی بات کی ہے۔ انھوں نے آئین پر قائم رہنے کی بات کی ہے۔ انھوں نے آئین کو پاکستان کو چلانے کا واحد راستہ قرار دیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کی جانب سے اس تقریب میں شرکت سے یہ تاثر ملا ہے کہ پارلیمان اور عدلیہ ساتھ ساتھ بھی چل سکتی ہیں۔ ملک میں جمہوریت کی سربلندی کے لیے پارلیمان اور عدلیہ کو ساتھ ملکر چلنا ہوگا۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے بھی ماضی کے جن فیصلوں کا اپنی تقریر میں حوالہ دیا ان میں بھی یہی بات تھی کہ اگر عدلیہ نے ماضی میں آمریت کے بجائے جمہوریت کے حق میں فیصلے دیے ہوتے تو آج ہم اس صورتحال کا شکار نہ ہوتے۔ انھوں نے مولوی تمیز الدین کیس کا بالخصوص حوالہ دیا کہ اصل خرابی وہاں سے شروع ہوئی ۔ میں سمجھتا ہوںکہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے عدلیہ کے ماضی کے فیصلوں پر بات کر کے اچھی روایت قائم کی ہے۔جب تک ہم ماضی کی غلطیوں سے نہیں سیکھیں گے، مستقبل ٹھیک نہیں کر سکتے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کو ہی نہیں میری رائے میں سپریم کورٹ کے تمام ججز کو آئین کی گولڈن جوبلی کی اس تقریب میں جانا چاہیے تھا۔ سب کو آئین سے اپنی کمٹمنٹ کا اعادہ کرنا چاہیے تھا کیونکہ یہ آئین کی گولڈن جوبلی تھی۔ آئین پاکستان کا ہے، کسی سیاسی جماعت یا وزیراعظم یا صدر کا نہیں ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنی تقریر میں واضح کیا ہے کہ آج یہاں بیٹھا ہوں لیکن کل آپ سب کے خلاف فیصلے بھی ہو سکتے ہیں۔میری یہاں موجودگی کا یہ مطلب نہیں کل فیصلے بھی آپ کے حق میں ہوں گے۔

انھوں نے سیاسی تقایر پر کہا کہ میں یہاں کسی سیاسی فنکشن میں نہیں آیا لیکن سیاسی تقاریر کی اجازت بھی آئین ہی دیتا ہے، اس لیے جس چیز کی آئین میں اجازت ہے، میں اس پر اعتراض کیسے کر سکتا ہوں۔ بہر حال جسٹس قاضی فائز عیسی نے اس تقریب میں شرکت کر کے اس سارے تاثر کو زمین بوس کر دیا ہے کہ عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان کوئی لڑائی نہیں ہے۔ ویسے جسٹس قاضی فائز عیسی دوستوں کے دل میں کانٹے کی طرح چبتے ہیں۔

وہ پیدل چلیں تو چبتے ہیں، ان کے فیصلے بھی چبتے ہیں، ان کی سوچ بھی چبتی ہے، ان کی آئین کی گولڈن جوبلی میں شرکت بھی چبتی ہے۔

کل انھی لوگوں نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس فائل کیا تھا، آج اس پر معافی مانگ رہے ہیں۔ وقت نے قاضی عیسی کو سچا ثابت کیا ہے۔ ان کے موقف کو درست ثابت کیا ہے۔ وہ آج سو موٹو لینے کے خلاف بات کر رہے ہیں تو کل انھوں نے چیف جسٹس بننا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے اختیارات بھی قواعد کے پابند کرنے کی بات کر رہے ہیں، وہ قواعد کے ساتھ نظام کو چلانے پر یقین رکھتے ہیں۔ شاید ان کی اسی بات سے دوست پریشان ہیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس