پاکستان کے حالیہ اقتصادی بحران کا حل سورہ یوسف کی روشنی میں۔۔۔تحریر:سید سلیم گردیزی


آج مولانا سید ابوالاعل مودودی علیہ الرحمہ کی شہرہ آفاق تفسئر تفہیم القرآن سے سورہ یوسف کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ نکتہ ذہن میں آیا کہ آج ممکت خداداد پاکستان کو اسی قسم کے معاشی و اقتصادی بحران کا سامنا ہے جس کا سامنا آج سے ۳۷۰۰ سال قبل اس دور کی ترقی یافتہ اور متمدن سلطنت مصر کو تھا۔ پیغمبر اسلام حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان حیات میں عفت و پاکدامی، صبر و عزیمت، علم و حکمت، اولوالعزمی اور حکمت تبلیغ کے حیرت انگیز پہلو پوشیدہ ہیں۔ قدرت اپنے انتظام کے تحت انہیں فلسطین سے مصر لے آئی۔ کنعان کے کنوئیں سےے کر عزیز مصر کی جیل تک مصائب و آلام کی جن گھاٹیوں سے گزرے وہ دراصل آپ کی تربیت اور تزکیے کے امتحانی پرچے تھے جن سے آپ کامیا و کامران گزرے۔ عزیز مصر کے خواب کی تعبیر اور ممکنہ قحط سے نمٹنے کا طریقہ بتا کر آپ نے اپنی علمی برتری اور چیلنج سے نمٹنے کی صلاحیت کا ثبوت دے دیا تھا۔ وہ قحط جب رونما ہوا تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ صرف مصر نہیں بلکہ پورا خطہ اس کی لپیٹ میں آیا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا فلسطین سے غلے کی تلاش میں مصر جا پہنچنا اس کا ثبوت ہے اور عین ممکن ہے یہ ایک عالمی اقتصادی بحران ہوا ہو۔ واللہ اعلم!
مصر جس عظیم اقتصادی بحران کے دھانے پر کھڑا تھا، اس سے شاہ مصر اور مصری اسٹبلشمنٹ کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے۔بے راہ روی اور عیاشی کا شکار اس معاشرے میں اتنے بڑے قحط سے نمٹنے کی کوئی حکمت عملی اور صلاحیت موجود نہیں تھی۔ مقتدرہ کی نظر اقتدار کی راہ داریوں سے دور جیل میں قید امانت و دیانت کا پیکر، ہر قسم کی مالی و اخلاقی کرپشن سے پاک اور چیلنجز سے نمٹنے کی حکمت عملی کے حامل حضرت یوسف علیہ السلام پر پڑی۔ آپ اپنی ثابت شدہ دیانتداری اور علم و حکمت (انتظامی و تیکنیکی) صلاحیت کی بنا پر اختیار و اقتدار کی منتقلی کا مطالبہ کرتے ہیں جو بے چون و چرا تسلیم کیا جاتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے یہ الفاظ قرآن پاک میں نقل ہوئے ہیں جو انہوں نے عزیز مصر اور اس کی اسٹبلشمنٹ کے سامنے دربار مصر میں ادا کیے تھے:
(سورہ یوسف، آیتہ ۵۵)
ترجمہ۔ (یوسف نے) کہا: زمین کے خزانے (اختیارو اقتدار) مجھے سونپ دیجیے۔ میں ان کی حفاظت کرنے والا (دیانتدار) بھی ہوں اورعلم (انتظامی و تیکنیکی صلاحیت) رکھنے والا بھی۔
مصر کی ہیئت مقتدرہ (اسٹبلشمنٹ) نے اقتصادی بحران کا شکار ملک کی باگ ڈور حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالے کر دی تو تاریخ نے دیکھا کہ آپ نے بحران کو اس طرح مینیج کیا اور ملک کو اس طرح ترقی دی کہ نہ صرف مصر خوش حال ہوا بلکہ قحط سالی کا شکار ارد گرد کے ممالک کی خوراک کی ضرورتیں بھی پوری کرنے لگا۔
آج وطن عزیز پاکستان جس اقتصادی بحران کا شکار ہے، بدقسمتی سے ہماری مقتدرہ اور عوام الناس بھی اس سے نمٹنے کی ذمہ داری بار بار انہی کو سونپتی ہے جو اس بحران کے ذمہ دار ہوتے ہیں:
کتنے سادہ ہیں میر کہ بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔
کاش پاکستانی مقتدرہ اور عوام الناس آج سے ۳۷۰۰ سال قبل کی مصری اسٹبلشمنٹ کے عمل سے ہی سبق سیکھ سکتے کہ اس نوع کے مصائب سے نجات اقتدار پر گرفت برقرار رکھنے اور مرضی کے مہرے مسلط کرنے سے نہیں اقتدار و اختیار پاکیزہ کردار کے حامل، دیانتدار اور باصلاحیت لوگوں کے حوالے کرنے سے ہی ممکن ہے۔ قدیم مصر کے دونوں کردار پاکستانی معاشرے میں موجود ہیں۔ مصر میں اقتدار کے مختلف مناصب پر فائز روائتی لیڈر شپ وزرا اور حکام و عمال سلطنت کی صورت میں موجود تھی لیکن اس کے پاس اس عظیم بحران کا حل نہیں تھا۔ اگر اس وقت ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف موجود ہوتے تو عزیز مصر کا کوئی شوکت ترین، کوئی حفیظ شیخ، کوئی مفتاح اسماعیل، کوئی اسحاق ڈار ان سے مذاکرات کر لیتا لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہونا تھا۔ اس کی بجائے انہوں نے دیندار، دیانتدار اور باصلاحیت قیادت کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ آج پاکستان میں بھی دیندار، دیانتدار، باصلاحیت اسلامی قیادت موجود ہے جس نے وطن عزیز کے ہر بحران میں اپنی امانت و دیانت، اہلیت، صلاحیت اور خدمت کا لوہا منوایا ہے۔ زلزلہ ہو، سیلاب ہو، تھر کا قحط ہو، افغان و کشمیری مہاجرین کی بحالی و آبادکاری کے مسائل ہوں، کرونا کی عالمی وباء کے چیلنجز ہوں، ملک کی واحد مڈل کلاس، اعلی تعلیمیافتہ، دیانتدار اور جمہوری جماعت نے اپنی صلاحتیوں کا لوہا صرف اپنوں سے نہیں، عالمی اداروں سے بھی منوایا ہے۔ جن لوگوں کو اگر کبھی جزوی اقتدار نصیب بھی ہوا ہے، جیسا کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی تین مرتبہ میئر شپ، صوبہ کے پی کے کی دوبار وزارت خزانہ، وزارت بلدیات وغیرہ، تو اس طرح ڈیلیور کیا ہے کہ دوست تو دوست، دشمن بھی داد دینے پر مجبور ہو گئے۔ جس کی “الخدمت” کی حدمات کا دائرہ دنیا کے کئی ممالک میں پھیلا ہوا ہے، جس کا اعتراف اقوام متحدہ اور عوامی جمہوریہ چین تک کر رہے ہیں۔ تعلیم و صحت اور سماجی خدمت کے میدان میں جس کا کوئی مقابل نہیں، دور تک بلکہ بہت دور تک۔ ملکی تاریخ کے اس خوفناک بحران سے نمٹنے کی اس کے سوا کوئی صورت نظر نہیں آ رہی کہ اس “حفیظ و علیم” جماعت کو آزمانے ک تجربہ بھی کر لیا جائے۔ جن کا اقتدار اپنی ذات کے لیے نہیں اللہ کے دین اور اس کی مخلوق کی خدمت کے لیے ہو گا۔ سورہ یوسف سے تو موجودہ صورت حال میں یہی راہنمائی ملتی ہے۔ وما علینا الالبلاغ۔