ذخائر کم ہو گئے 24 گھنٹے گیس فراہم نہیں کر سکتے: مصدق ملک

کراچی (صباح نیوز)وزیر مملکت برائے توانائی مصدق ملک کا کہنا ہے کہ ملک میں گیس کے ذخائر کم ہو گئے ہیں جس کے باعث 24 گھنٹے گیس فراہم نہیں کر سکتے۔کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مصدق ملک کا کہنا تھا شہر قائد میں سحری و افطار کے وقت گیس فراہمی میں کوتاہی سامنے آئی ہے، کراچی میں گیس سپلائی کا مسئلہ حل کرنے آئے ہیں،گورنر سندھ لوگوں کوگیس کے بل جمع کرانے سے نہ روکیں۔

مصدق ملک کا کہنا تھا ملک میں گیس کے ذخائر کم ہو گئے ہیں جس کے باعث 24 گھنٹے گیس فراہم نہیں کر سکتے، امیر اور غریب کا گیس بل الگ کر دیا ہے، صاحب ثروت لوگوں کو گیس کا بل زیادہ دینا پڑے گا ، ہم نے غریب آدمی کا تحفظ کیا ہے اور یہ غریب لوگ ملک کے 60 فیصد بنتے ہیں لیکن صاحب حیثیت لوگوں کو کہا گیا ہے کہ آپ کو زیادہ قیمت ادا کرنی پڑے گی، وہ زیادہ پیسے کسی منافع میں نہیں جائیں گے بلکہ اس کے ذریعے غریب کو سستی گیس دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم کراچی میں اس بات پر سختی سے عمل کررہے ہیں کہ افطاری اور سحری کے وقت کسی جگہ بھی گیس کا فقدان نہ ہو ، مجھے رپورٹ ملی ہے کہ اس میں کمپنیوں کی طرف سے کوتاہی ہوئی ہے اور بعض جگہوں پر گیس کی فراہمی بروقت نہیں ہوتی۔

ان کا کہنا تھا کہ بعض جگہوں پر جہاں انفرااسٹرکچر کمزور ہے وہاں کچھ لوگوں کو سحری اور افطار کے وقت بھی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مجھے وزیراعظم نے کراچی بھیجا ہی اس لیے ہے کہ یہ کام رکے اور اگلے کچھ دن میں اگر کسی بھی جگہ جھول ہے تو وہ ختم کردیا جائے گا اور سوئی سدرن گیس کمپنی نے رضامندی ظاہر کی ہے کہ اب ایسا نہیں ہو گا،

انہوں نے کہا کہ جہاں بھی گیس کی قلت ہے ہم کسی بھی طرح کر کے سحر و افطار میں گیس پہنچائیں گے، اس میں مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ سحر اور افطار میں گیس فراہمی کی بات کرتے ہیں تو درمیان میں گیس کا لوڈ کم کرنا پڑتا ہے لیکن لوگ کہتے ہیں کہ ان اوقات میں بھی گیس دی جائے۔

مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ ہمارے پاس گیس کے ذخائر اتنے کم ہو گئے ہیں کہ 24 گھنٹے گیس دینے کے لیے گیس نہیں ہے، بلوچستان میں پچھلے دنوں غیرمعمولی سردی آئی جس کی وجہ سے بلوچستان میں رات کے وقت درجہ حرارت دو یا تین ڈگری ہو جاتا ہے تو گیس کی بڑی تعداد بلوچستان بھیجی جا رہی ہے۔

ملک میں عدم استحکام کے باوجود کابینہ کی جانب سے سپریم کورٹ کا 14مئی کو الیکشن کا فیصلہ ماننے سے انکار کے حوالے سے سوال پر مصدق ملک نے کہا کہ ملک میں استحکام کی ذمے داری تو ہماری ہے لیکن اس کی کچھ ذمے داری تو سپریم کورٹ پر بھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کس کا فیصلہ مانا جائے، جسٹس قاضی فائز عیسی کا فیصلہ مانا جائے، جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ مانا جائے، جسٹس یحیی آفریدی کا مانا جائے، بینچ تو بن نہیں پا رہا، سات کا بینچ ہوتا ہے تو چار لوگ اعتراض کر دیتے ہیں، تو کس کا فیصلہ مانیں۔

انہوں نے عمران خان کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہم تو سیاستدان ہیں، عوامی خدمت پر مامور ہیں تو ہر کسی کا حق ہے کہ انگلی بھی اٹھائے اور بات بھی کرے، ہم جوابدہ بھی ہیں اور حاضر بھی ہیں لیکن اداروں کے خلاف جو آپ نے تحریکیں چلوائیں، جو شہدا کے خلاف تحریکیں چلوائیں، آپ نے اپنے ہی ملک کے چیف کی تقرری سے پہلے انہیں بدنام کرنا شروع کردیا اور بعد میں بھی بدنام کرتے رہے تو اس ادارے کو بھی آپ نے باہر نکال دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں جو کچھ ہو رہا ہے تو آپ ہم سے سوال پوچھ رہے ہیں، آپ ان لوگوں سے سوال پوچھیں جو سپریم کورٹ کے جج ہیں، جو معترض ہیں، وہ بھی تو جسٹسز ہیں، ہماری بات مت مانیے ان کی آواز تو سنیے، اگر آدھا سپریم کورٹ فیصلوں کی شکل میں اور خود کو بینچ سے علیحدہ کرنے کی شکل میں کوئی احتجاج کررہا ہے تو سوچیے کہ وہ کیوں معترض ہیں۔