اشرافیہ کی بھوک! : تحریر انصار عباسی


پاکستان کی اشرافیہ کی بھوک مٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ عوام کا نام ضرور لیا جاتا ہےلیکن جو کچھ پاکستان میں ہوتا ہے اُسے دیکھ کر شک نہیں رہتا کہ اس ملک اور اس کے وسائل کو اشرافیہ کیلئے مختص کر دیا گیا ہے۔لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر چند دن قبل شہباز شریف حکومت نے گزشتہ بیس سال کا توشہ خانہ کا ریکارڈعوام کے سامنے پیش کر دیاجس کے مطابق، کس کس نے کیا کیا تحائف لئے، تفصیلات پڑھ کر افسوس ہوا۔ چند ایک کو چھوڑ کر جس جس کو موقع ملا اُس نے لاکھوں کروڑوں اور چند ایک نے تو اربوں روپے کے تحفے قومی خزانے میں انتہائی کم رقم جمع کرا کےحاصل کئے۔ اور کہتے ہیں کہ ہم نے کوئی غیرقانونی کام تھوڑا ہی کیا ہے بلکہ وہ لوگ ، جوکوڑیوں کے بھائو مہنگے مہنگے تحائف گھر لے گئے، وہ تو حکومت کی پالیسی کے عین مطابق تھا۔ کوئی پوچھے یہی تو غم ہے کہ جہاں جہاں اس اشرافیہ کا اپنا مفاد ہوتا ہے وہاں پالیسیاں اور قانون بھی اپنی مرضی اور منشاء کے بنا کر سب کچھ ہڑپ کر لیاجاتا ہے۔ جنرل مشرف اور اُن کے لاڈلے وزیراعظم شوکت عزیز نے تو توشہ خانہ کے تحفوں پر خوب ہاتھ صاف کیا۔ ان کے تحائف کی فہرست ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔آصف علی زرداری اور اُن کے وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف نے بھی کچھ نہ چھوڑا۔ زرداری صاحب ارب پتی لیکن دو بی ایم ڈبلیو گاڑیاں توشہ خانہ سے لے اُڑے۔ اس کے علاوہ بھی جو کچھ اُنہوں نے لیا اُس کی فہرست کافی طویل ہے۔ بلاول کو کس چیز کی کمی ہے، ماں باپ نے اربوں کھربوں اُن کے لئے چھوڑے ہیںلیکن اُن کو بھی جو تحفہ میں ملا، سب انتہائی رعایتی قیمت ادا کر کے رکھ لیا۔ نواز شریف نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی، ایک مرسیڈیز ہی نہیں بلکہ مہنگی ترین گھڑیاں، قالین اور جو جو کچھ کسی نے دیا سب گھر لے گئے۔ جس شخص کا نام اور تحفوں کی تفصیل پڑھ کر مجھے سب سے زیادہ افسوس ہوا وہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ گھڑیاں نہیں پہنتے لیکن نہ صرف کروڑوں روپے مالیت کی کئی گھڑیاں خود رکھ لیں بلکہ اپنے بیٹوں کو بھی مہنگی گھڑیوں اور مہنگے مہنگے موبائل وغیرہ توشہ خانہ سے دلوائے۔ عباسی صاحب کی بیگم صاحبہ نے بھی کوئی دس کروڑ مالیت کا ہاروں کا سیٹ دو کروڑ میں خریدا۔ عباسی صاحب کو جیو ٹی وی میںکہتے سنا کہ تحفے تو اُن کی ذات کو دیے گئے اس کا ریاست اور وزیراعظم کے عہدے سے کیا تعلق۔ عباسی صاحب کی یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ وہ جو کہہ رہے ہیں اگر سچ ہے تو پھر وہ اور دوسرے بتا دیں کہ جب وہ صدر، وزیراعظم یا وزیر مشیر نہیں تھے تو سعودی عرب، عرب امارات اورقطر وغیرہ کے حکمرانوں نے کتنی بار اُنہیں مہنگےتحفے تحائف دیے۔ عباسی صاحب کی طرح دوسروں کی بیگمات اور بچوں نے بھی توشہ خانے سے تحائف حاصل کئے۔ عمران خان کے متعلق تفصیلات تو سب پہلے سے جانتے ہیں۔ اُنہوں نے اوراُن کی بیگم صاحبہ نے بھی حد کر دی اور جو جو ہاتھ آیا سمیٹ لیا۔ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے متعلق یہ پڑھ کر اطمینان ہوا کہ انہوں نے کم از کم توشہ خانہ کے تحائف پر اپنی بھوک ظاہر نہیں کی۔ اُنہوں نے مہنگے تحفے سب توشہ خانہ میں جمع کروا دیے لیکن سستے تحائف مثلاً شہد وغیرہ رکھ لئے۔ وزیروں مشیروں اسحاق ڈار، خواجہ آصف اور کئی دوسروں نے بھی خوب تحائف سمیٹے۔ احسن اقبال بھی اس قانونی لوٹ کھسوٹ میں شامل ہیں لیکن اُنہوں نے لسٹ کے تحفوں کی اصل مارکیٹ کے مطابق طے کی گئی قیمت ادا کر کے اپنے ضمیر کا بوجھ ضرور ہلکا کیا جو خوش آئند بات ہے۔ ورنہ دوسرے تو سینہ تان کر کہتے ہیں کہ ہم نے کون سا غیر قانونی کام کیا، ہم نے تو وہ قیمت ادا کر دی جو قانون کے مطابق ہم ادا کرنے کے مجاز تھے۔ کئی فوجی اور سرکاری افسروں کے نام بھی اس لسٹ میں شامل تھے لیکن بہت سے بڑے نام غائب تھے اور ایسا محسوس ہوا جیسے مسلح افواج اور عدلیہ سے تعلق رکھنے والوں کی کوئی اور فہرست ہو گی۔ ورنہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کئی آرمی چیفس اور چیف جسٹسزصاحبان کو کبھی کوئی تحفہ ملا ہی نہ ہو۔ تحفہ حاصل کرنے والے سول افسران میں فواد حسن فواد کا نام پڑھ کر اچھا نہیں لگا۔ جب ایک طرف ارب پتیوں، کروڑ پتیوں کو کوڑ یوں کے بھاؤ تحفے سمیٹتے دیکھا تو وہیں دو سپاہیوں عتیق الرحمٰن اور ملک قاسم نے اُن کو ملے تحفے لینے سے انکار کر دیا اور یہ تحائف توشہ خانے میں جمع کر دایے۔ ان دونوں نے ثابت کیا کہ اُن کا قدبظاہر بڑے بڑے حکمرانوں سے بہت بڑا ہے۔ توشہ خانہ کی لسٹ نے اس حمام میں سب ننگے والی بات کو درست ثابت کیا اور عوام کی دوسروں سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں دور ہو گئیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ