کیا امریکہ مشرقِ وسطی سے رخصت ہو رہا ہے؟ … تحریر : اوریا مقبول جان


جب صہیونیوں نے امریکی معیشت اور سیاست پر قبضہ کر لیا تو انہوں نے مشرقِ وسطی میں اس عالمی سلطنت کو قائم کرنے کے لئے عملی اقدامات شروع کر دیئے۔ برطانیہ کا بالفور ڈیکلریشن، یہودی سرمایہ داروں کی اس یقین دہانی پر جاری کیا گیا تھا کہ وہ اسے جنگ میں امریکہ کی فوجی اور مالی امداد حاصل کر کے دیں گے اور اس کے صلے میں برطانیہ اور دیگر اتحادی ممالک یہودیوں کی ارضِ مقدسہ میں اسرائیل کے قیام کے لئے مدد فراہم کریں گے۔ یوں چودہ مئی 1948 کو جب تل ابیب میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان ہوا تو یہ ریاست ارضِ مقدسہ یعنی یروشلم سے کئی میل دور ایک لق دق صحرا میں وجود میں آئی۔ مگر اپنے قیام کے صرف 19 سال کے اندر 1967 میں اسرائیل نے تمام عرب ممالک کی مشترکہ فوج کو بدترین شکست سے دوچار کر کے نہ صرف مقدس یروشلم کو اپنے قبضے میں لے لیا بلکہ شام سے گولان کی پہاڑیاں اور مصر سے صحرائے سینا بھی چھین لیا۔ یہ عرب قومیت (Arab Nationalism) کی یہودی مذہبی قوتوں کے ساتھ پہلی جنگ تھی۔ اس جنگ کے آغاز میں جمال عبدالناصر نے مصر کے شہریوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، اے فرعون کے بیٹو! تمہاری موسی کے بیٹوں سے جنگ ہے اور پھر اللہ نے اپنی سنت کے مطابق وہی کیا جو اس نے پہلے بھی آلِ فرعون کے ساتھ کیا تھا۔ اسرائیل اب مشرقِ وسطی کی ایک ایسی قوت تھی جس کے اشاروں پر امریکہ یہاں پالیسی بناتا تھا۔ یہودیوں پر جب ذلت مسلط کی گئی تو اللہ نے کہا تھاان پر ہر جگہ ذلت مسلط کی گئی الایہ کہ وہ اللہ کی پناہ میں آ جائیں یا لوگوں کی پناہ میں (آلِ عمران:112)۔ یہودیوں نے اللہ کی پناہ میں آنا تو پسند نہ کیا مگر انہوں نے طاقتور انسانوں کی پناہ تلاش کی جو انہیں امریکہ کی صورت مل گئی۔ امریکی سرپرستی انہیں اس لئے ملی کیونکہ امریکی سیاست، معیشت یہاں تک کہ میڈیا پر بھی صہیونی/ یہودی قوتوں کا قبضہ ہے، بقول اقبال فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے۔ تمام یہودیوں کے لئے امریکی سرپرستی ہرگز ان کی منزل نہیں ہے بلکہ یہ ان کے نزدیک اصل منزل کی طرف لے جانے کا ایک راستہ ہے۔ ان کی اصل منزل تو یروشلم میں ہیکل سلیمانی سے ایک ایسی حکومت کا قیام ہے جو پوری دنیا کی حکمران ہو، یعنی واحد سپر پاور وہی ہو۔ یہودیوں کے اسی پلان کی تکمیل کے لئے امریکہ کو آہستہ آہستہ مشرقِ وسطی میں اپنا وجود اور طاقت ور کردار اسرائیل کے سپرد کر کے یہاں سے رخصت ہونا ہے تاکہ یہاں داؤد و سلیمان کے بیٹوں کی حکومت قائم ہو سکے۔ امریکہ کی اس خوشگوار رخصتی کے پروگرام کا آغاز 13 اگست 2020 میں ابراہیمی معاہدہ (Abraham Acord) سے ہوا جس میں امریکہ، اسرائیل اور عرب امارات شامل تھے اور پھر اسی سال گیارہ ستمبر کو بحرین بھی اس کا حصہ بن گیا۔ یوں دو مسلم حکومتوں نے خطے میں اسرائیل کی بالادستی کو تسلیم کر لیا اور اب ان کی وہ حفاظتی ذمہ داری جو کبھی امریکہ کے ذمہ تھی، اسرائیل کے پاس چلی گئی اور اس وقت ان دونوں ممالک کی فضائی حدود کا دفاع وہاں سے کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اردن اور مصر کی طرح مراکش اور سوڈان نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ عمان اس راستے پر گامزن ہے۔ سعودی عرب پر بھی اس ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے کے لئے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ صحافی خوشگی کی موت جیسے دیگر کئی خوفزدہ کرنے والے حربے بھی استعمال کئے گئے۔ ایران کا خوف گذشتہ بیس سال سے ان پر سوار تھا۔ لیکن اسرائیل سے تعلق بڑھانے کی وجہ سے سعودی عرب کی آبادی ایک دم مشتعل ہو سکتی تھی، جس کے نتیجے میں کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ اس فریضے کے لئے پاکستان سے بھی مدد طلب کی گئی کہ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے تو پھر ہم آپ کا بہانہ بنا کر یہ قدم اٹھا سکتے ہیں۔ ریاض کی مشہور میٹنگ جو صرف چار افراد پر مشتمل تھی، اس میں سے ایک فرد، عمران خان نے ایسا کرنے سے انکار کیا جس کی وجہ سے وہ آج تک اپنی اس گستاخی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ سعودی عرب کے لئے بہت مشکل ہے؟ اگر اسرائیل کو تسلیم کرے تو اندرونی بغاوت کا خطرہ ہے، نہ تسلیم کرے تو امریکی ناراضگی یعنی دفاعی امداد ختم اور پھر ایران کی طرف سے حوثیوں کی مدد اور سعودی عرب پر یلغار بلکہ خود سعودی عرب کے مشرق میں شیعہ آبادی کا اشتعال۔ ان حالات میں فیصلہ بہت مشکل ہو رہا تھا کہ اچانک روس اور یوکرین کی جنگ شروع ہو گئی جو امریکی توسیع پسندانہ عزائم کے راستے کی رکاوٹ بن گئی۔ اس محاذِ جنگ نے دونوں طرف سفارتی محاذ کھول دیئے۔ روس اور چین کے سربراہ بھی ملکوں کی مدد حاصل کرنے کے لئے عالمی دوروں پر روانہ ہو گئے اور امریکی صدر بائیڈن اور وزیر خارجہ نے بھی سفارتی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ ایران پہلے ہی سے چین اور روس کے ساتھ اپنے رشتے مضبوط کئے ہوئے تھا۔ ایسے میں محمد بن سلیمان نے بھی پسِ پردہ چین اور روس سے رابطوں کا آغاز کر دیا۔ حالات دیکھتے ہی صدر بائیڈن نے فورا مشرقِ وسطی کا طوفانی دورہ شروع کیا اور وہ اسرائیل سے ہوتا ہوا 19 جولائی 2022 کو ریاض پہنچا اور محمد بن سلیمان سے فورا ایک مطالبہ کیا کہ وہ تیل کی پیداوار بڑھا دے تاکہ روس کا تیل لوگ نہ خریدیں اور اس کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہو۔ محمد بن سلیمان نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس طرح تو ہماری اپنی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اگر آپ نے روس سے لڑنا ہی ہے تو پھر اپنا تیل زیادہ سے زیادہ مارکیٹ میں لے کر آؤ۔ یہ سعودی عرب میں امریکی سفارت کاری کی دوسری بڑی شکست تھی۔ پہلی شکست 1973 میں اس وقت ہوئی تھی جب شاہ فیصل نے تیل کو بطورِ ہتھیار استعمال کیا تھا تو یورپ کے پٹرول پمپوں پر قطاریں لگ گئی تھیں۔ سعودی عرب کو اب سرپرستی کے لئے ایک ایسی عالمی قوت چاہئے تھی جو نہ صرف یہ کہ اسے دفاعی طور پر حفاظتی حصار فراہم کرے بلکہ اسے ایران کے خطرے سے بھی نجات دلائے۔ امریکہ بیک وقت یہ دونوں کام نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ ایران کا خوف ہی تو تھا جو سعودی عرب کو امریکہ کے سامنے جھکنے پر مجبور کر سکتا تھا۔ یہاں سے چین کی شاندار اور کامیاب سفارت کاری کا آغاز ہوا۔ یہ کسی ملک کی واضح اور ہتھکنڈوں سے پاک سفارت کاری کا شاندار مظاہرہ تھا۔ چین نے سب سے پہلے سعودی عرب کو ایران کے خوف سے آزاد کروانے کے لئے دونوں کے درمیان مصالحت کے عمل کا آغاز کیا اور گذشتہ دنوں سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ طے پا گیا، جس کے نتیجے میں ایران نے یقین دلایا کہ وہ ایسے تمام عسکری گروہوں کی مدد بند کر دے گا جو یمن اور سعودی عرب میں لڑ رہے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں اب تک تین لاکھ ستتر ہزار افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کو جب اس خبر سے مطلع کیا گیاتو انہوں نے تبصرہ کیا کہ ہمیں خدشات ہیں کہ ایران اپنے وعدے پر قائم نہیں رہے گا۔ محمد بن سلیمان جو ایک زمانے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد کے ذاتی دوستوں میں سے تھا، اس وجہ سے امریکی یہ الزام لگاتے پھر رہے ہیں کہ اسی داماد جارڈ کشنر (Jared Kashnar) نے بائیڈن کو ناکام کرنے کے لئے سعودی عرب کو امریکہ کے خلاف کیا ہے۔ لیکن سنجیدہ گروہ یہ کہہ رہا ہے کہ بائیڈن کی خوف دلا کر ساتھ ملانے والی پالیسی اب ناکام ہو چکی ہے۔ کونسل آف مڈل ایسٹ سٹڈیز کے سربراہ سٹیون کک نے خبردار کیا ہے کہ اگلی صدی چین کی صدی ہے اور عین ممکن ہے کہ پیٹرو ڈالر کا خاتمہ ہو جائے اور تیل چینی یوآن میں بیچا جانے لگے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کی رائے ہے کہ چین کی خارجہ پالیسی کی سرعت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ انہوں نے امریکہ اور سعودی عرب کے چھوٹے سے تناؤ سے فوراً فائدہ اٹھایا۔ امریکہ نے جب اس معاہدے کے فوراً بعد سعودی عرب سے رابطہ کیا تو محمد بن سلیمان نے امریکیوں کے سامنے مطالبات کی طویل فہرست رکھ دی جس میں سب سے اہم یہ تھا کہ ہمیں سویلین نیوکلیئر پروگرام چاہئے، مکمل دفاعی ذمہ داری اور اسلحہ کی فروخت پر کم سے کم پابندیاں۔ یہ شرائط اسرائیل امریکہ کو ماننے نہیں دے گا۔ وہ چاہے گا کہ امریکہ اس خطے سے نکل جائے، لیکن جاتے جاتے ایران، پاکستان اور سعودی عرب کو جنگوں میں الجھا کر تباہ حال کر دے تاکہ اسرائیل اپنی عالمی حکومت کا خواب پورا کر سکے۔ اس ضمن میں کسی بھی وقت ایران سے جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے اور پاکستان بھارت محاذِ جنگ گرم کیا جا سکتا ہے۔(ختم شد)

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز