مسئلہ کشمیرکشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہئے،گلبدین حکمت یار


اسلام آباد(صباح نیوز)حزب اسلامی کے سربراہ اور سابق افغان وزیر اعظم انجینئر گلبدین حکمت یار نے کہا ہے کہ موجودہ طالبان حکومت ایک عبوری اور سرپرست حکومت ہے ، ہم نے اس حکومت کی حمایت کی ہے، افغانستان میں جو تبدیلی آئی ہے حزب اسلامی بھی اس تبدیلی اور نئے نظام کی حامی جماعت ہے، ہم اس نظام کی غیر مشروط حمایت کررہے ہیں۔ حکومت میں کوئی عہدہ یا حصہ لینے کی کوئی خواہش نہیں ۔

ایک انٹرویو مٰں حکمتیار کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ عبوری حکومت کا مرحلہ واقعی عبوری اور مختصر ہو ، طالبان کو اس حکومت کی مدت کا اعلان کرنا چاہئے، یہ شکوک وشبہات ختم ہونے چاہئیں، افغان قوم اور عالمی برادری کو اطمینان دلانا چاہئے اور اقوام عالم کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ وہ یہی چاہتے ہیں کہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت قائم ہو۔ طالبان بارہا اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، طالبان کی اس بات کا یقین کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ ہماری دعا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل نکلے، کشمیریوں کی خواہشات کا احترام لازمی ہے ، جموں وکشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کیا جائے ،تسلط دائمی طور پر قائم نہیں رہ سکتا،جبر سے حکومتیں کرنے کا دور گزرچکا ہے ۔

پاکستان کے سرکاری ٹی وی سے انٹرویو کے دوران انجینئر گلبدین حکمت یار نے کہا کہ ہمارا صرف ایک ہی ہدف ہے کہ افغانستان حقیقی معنوں میں ایک اسلامی ریاست بنے، اس کے حصول کے لئے ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ ہم نے طالبان کو بھی یہ پیغام پہنچایا ہے کہ اگر وہ ایک مستحکم ، مضبوط اور فلاحی حکومت قائم کرتے ہیں، ایماندار، اہل اور نیک لوگوں کو حکومت میں شامل کیا جاتا ہے ، اہل شخصیات کا آگے لایا جاتا ہے تو یہ ہمارے ہدف کی تکمیل ہو گی، یہ وہی حکومت ہو گی جس کی ہمیں خواہش تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان کو ایک آزاد، خودمختار ، باوقار اسلامی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ یہاں اسلام کی حاکمیت ہو، بیرونی تسلط سے افغانستان آزاد ہو، ایسی ریاست کے قیام کے لئے ہم نے53سال جدوجہد کی، اس وقت جو صورتحال ہے وہ ہماری جدوجہد کے ایک حصہ کی تکمیل ہے، اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے ابھی کافی کام باقی ہے،مجھے یقین اور امید ہے کہ ہماری جدوجہد کی تکمیل ہو گی۔

انجینئر گلبدین حکمت یارکا کہنا تھا کہ کوشش ہے کہ وہ طالبان کو ایک ایسے نظام پر کائل کریں کہ وہ ایک ایسے نظام تشکیل کریں کہ جس کو عوام کی اکثریت کی تائید  حاصل ہو، ہماری خواہش ہے کہ طالبان افغانستان کو ایک خوشحال اسلامی ریاست کے سانچے میں ڈھال سکیں۔

انہوں نے کہا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہم ایک نازک مرحلے سے گزر رہے ہیں، موجودہ حکومت عبوری ہے، ہمیں اس مرحلے سے جلد نکل کر ایک منظم حکومت کی تشکیل کرنا ہو گی۔ طالبان بھی کہہ چکے ہیں کہ موجودہ حکومت سرپرست ہے ، حالات کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہم جلد از جلد اس عبوری مرحلہ سے نکل جائیں اور ایک منظم حکومت کی تشکیل ہو، نئی حکومت ایسی ہونی چاہئے جس پر افغانستان میں بھی کوئی انگلی نہ اٹھا سکے، کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ ایک گروپ اور قبیلے کی حکومت ہے، نئی حکومت ایسی ہونی چاہئے جس کو پوری قوم کی حمایت حاصل ہو اور قانونی حکومت ہو جس کو عوام کی مرضی سے وجود میں آئی ہو، افغان قوم کا ہر فرد اس کو اپنی حکومت سمجھے ، ایک قانونی اور مضبوط حکومت کی تشکیل میں دیر نہیں لگانی چاہئے۔

انجینئر گلبدین حکمت یار نے کہا ا کہ وہ ممالک جو افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے معاملہ پر حیلے بہانوں سے کام لے رہے ہیں اوراس حوالے سے بے جا دلائل دینے کی بھی کوشش کررہے ہیں ان ممالک کے مقاصد صاف ظاہر ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں، اقوام عالم نے ایسی حکومتوں کو بھی تسلیم کیا ہے جہاں ایک گھرانے کی حکومت ہے، جرنیلوں کی حکومت ہے یا پھر مارشل لاء لگا کر حکومت بنائی گئی ہو، کسی کو قتل کرکے حاصل کی گئی ہو، مخالفین کو پابند سلاسل کیا گیا ہو، جہاں لوگوں کے حقوق سلب ہیں، انتخابات نہیں ہورہے، اگر انتخابات ہیں تو بھی برائے نام اور دھاندلی زدہ، اقوام عالم نے ایسی حکومتوں کو بھی تسلیم کیا ہے ، انہیں ایک گھرانے یا جنرل کی حکومت بھی قبول ہے ، جب افغانستان کی بات آتی ہے تو یہ ایسی کٹھن شرائط رکھ دیتے ہیں جو انہوں نے ماضی میں کسی حکومت کو تسلیم کرنے کے لئے نہیں رکھیں،

ان کا کہنا تھا کہ بعض ممالک ایسے بھی ہیں جو امریکہ کے مشورے اور احکامات کے بغیر ایک قدم آگے جانے کے لئے بھی تیار نہیں،و ہ ممالک خصوصاً خارجہ پالیسی میں امریکہ کی جانب دیکھتے ہیں، ان کی مرضی سے چلتے ہیں، امریکہ نہیں چاہتا کہ افغان حکومت کو تسلیم کیا جائے، یہی پالیسی یورپ اور دیگر امریکہ نواز حکومتوں کی بھی ہے، وہ ممالک جو امریکہ کے تسلط سے آزاد ہیں ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں دیر نہ کریں اور فوراًاس حکومت کو تسلیم کریں۔

انہوں نے کہاکہ اگر افغانستان کی نئی حکومت کے حوالے سے کسی ملک کے مطالبات یا شرائط ہیں یا وہ افغان حکومت کی اصلاح کے حوالہ سے کچھ مشوروں پر عمل چاہتے ہیں تو میرے خیال میں یہ حکومت کو تسلیم کرنے کے بعد کیا جائے، اس صورت میں افغان حکومت ان کو بہتر انداز سے سن سکتی ہے، ہم دیکھ رہے کہ اقوام عالم پہلے ہی سے شرائط اور مطالبات کی تکمیل چاہتے ہیں وہ اپنے مطالبات پر عملدرآمد سے پہلے حکومت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں، یہ غلط طرز سیاست ہے، اس پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

انجینئر گلبدین حکمت یارنے کہا کہ افغانستان کے حوالے سے مختلف ممالک کا اپنا ، اپنا نقطہ نظر اور مشکلات ہیں، روس کے اپنے خدشات ہیں اور انہوں نے اپنے خدشات کو چھپایا بھی نہیں بلکہ کھل کر اظہار کیا ہے، روس کے صدر کھل کر کہہ چکے ہیں کہ افغانستان سے روس ، ان کے مفادات اور وسطیٰ ایشیائی ممالک کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، عراق اور شام کی لڑائی کا تجربہ رکھنے والے دہشت گرد یہاں منتقل ہو چکے ہیں، وہ دہشت گرد افغانستان میں فعال ہیں، میڈیا نے دیکھا ہو گا کہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ ان فوجی مشقیں ہوئیں، چین کے اپنے خدشات ہیں، چین سمجھتا ہے کہ اغور کے مسلمان مجاہدین بھی یہاں آچکے ہیں، ان کے یہاں پر مراکز اور اڈے ہیں ، ان کا مطالبہ ہے کہ اس مسئلہ کو حل کیا جائے۔

انہوں نے کہاکہ ایران کی اپنی مشکلات اور شرائط اورہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ایران نواز گروپوں کو حکومت میں حصہ دیا جائے، گزشتہ20برسوں میں ان کو حکومتوں میں بڑا حصہ دیا گیا تھا، اب وہ حکومت میں حصے سے محروم ہیں اسی طرح دیگر ممالک کے اپنے مطالبات ہیں۔ چین اور روس سے توقع تھی کہ وہ امریکہ سے اختلاف کے باعث سب سے پہلے بڑھ کراس حکومت کوتسلیم کریں گے، یہی توقع پاکستان سے بھی تھی،قطر سے بھی توقع تھی مگر انہوں نے بھی اس معاملہ کو مئوخر کیا ہے، ان ممالک نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ مل کر طالبان پر دبائو ڈالیں گے اور مشترکہ مئوقف اپنائیں گے اور اس حوالہ سے انفرادی طور پر فیصلہ نہیں کریں گے، لگتا ہے وہ اب بھی اپنی بات پر قائم ہیں ، ہمیں جن ممالک سے افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے توقع تھی ان ممالک نے بھی ابھی تک اس حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔

ایک سوال پر انجینئر گلبدین حکمت یارنے کہا کہ بھارت طالبان کی جیت کو پاکستان کی جیت سمجھ رہا ہے، بھارت اشرف غنی حکومت کا بڑا شراکت دار تھا اوران کا بڑا حامی تھا، بھارت اشرف غنی کے فرار کے آخری دن تک ان کی حمایت کرتا رہا اوروہ کابل حکومت کی پشت پر کھڑا تھا، امریکہ بھی افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لئے بھارت کی بھرپور مددکررہا تھا، بھارت سمجھ رہا ہے کہ طالبان کا برسرا١قتدار آنا امریکہ کے ساتھ ان کی بھی ناکامی ہے اور انہیں ایک شرمناک شکست ہوئی ہے، بھارت اب بھی طالبان حکومت کے مخالف گروہوں کو سپورٹ کررہا ہے، بھارت طالبان مخالف گروہوں کا اب بھی بڑا حامی ہے ، آخر میں جب امریکہ بھی اشرف غنی کی حمایت سے دستبردار ہوا تو اس وقت بھی بھارت اس کی مدد کررہا تھا، اشرف غنی کی حکومت کا اسلحہ بھی دے رہا تھااور دیگر شعبوں میں بھی مدد فراہم کررہا تھا، اقتصادی طور پر بھی ان کی مددکررہا تھا۔ پاکستان چاہتا ہے کہ بھارت، افغانستان کی سرزمین کو ہمارے خلاف استعمال نہ کرے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کا مئوقف ہے کہ اس کے علاوہ ہمارا کوئی دوسرامطالبہ نہیں۔ دنیا کو بھی یہی مطالبہ کرنا چاہئے کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، ہم بھی یہ یقین دلانے کے لئے تیار ہیں کہ افغانستان تمام ممالک سے اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے ، ہم نہیں چاہتے کہ دشمن ممالک اپنی جنگیں افغان سرزمین پر لڑیں،یہ40سالہ جنگ کافی تھی۔

ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ حقیقت یہی ہے کہ داعش نہ اتنا بڑا خطرہ ہے اور نہ کوئی بڑی قوت، جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو وہ کبھی مسجد میں دھماکہ نہیں کرے گا، یہ کام ان لوگوں کا ہے جو نہ اللہ تعالیٰ کے ماننے والے ہیں ، نہ رسولۖ کے اور نہ قرآن کے، یہ وہ لوگ ہیں جو سرے سے مسلمان ہی نہیں، میرا ایمان ہے کہ مسلمان ایسے کام نہیں کرسکتے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں خون بہہ رہا ہے اور مظالم ہورہے ہیں ، آزادی کے پروانوں سے جیل بھرے پڑے  ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ یہ سلسلہ بند ہو، کشمیری مسلمانوں کی امنگوں کے مطابق مسئلہ حل کیا جانا چاہئے ، افغان قوم نے جنگ کی سختیاں جھیلی ہیں ، گزشتہ کئی دہائیوں سے وہ جنگ کی آگ میں جل رہے ہیں ، افغان قوم ان لوگوں کے درد کو بہتر انداز میں محسوس کرسکتی ہے جو آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں، ہماری دعا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل نکلے، کشمیریوں کی خواہشات کا احترام لازمی ہے ، جموں وکشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کیا جائے ،تسلط دائمی طور پر قائم نہیں رہ سکتا،جبر سے حکومتیں کرنے کا دور گزرچکا ہے ۔