افسردگیِ دل۔۔۔۔شکیل احمد ترابی


سانحہ آرمی پبلک سکول پر دل افسردہ ہیں مگر یہ کیا کہ کئی سال سے ہم نے سقوطِ ڈھاکہ پر چپ سادھ لی۔؟
آج ہم امریکی غلامی میں مبینہ دہشت گردی کیخلاف اس قدر رطب اللسان ہیں کہ میری البدر و الشمس کے شہدا کی قربانیوں کا ذکر کرنے سے زبان لکنت کا شکار ہے۔
جنرل نیازی اور اس کے قبیلہ کے لوگ کلنک کا ٹیکہ ہیں ہمارے ماتھوں پر۔
سنار بنگلہ پاکستان کا بازو تھا، اس کی بقا ء و سالمیت کی جنگ لڑنے والے مراد پا گئے اور کچھ غازی کے مرتبے پر فائز ہو گے۔
بنگلہ دیش کی چڑیل حسینہ واجد اقتدار میں آئی تو اس نے عدالتی ناٹک کے ذریعے البدر و الشمس کے غازیان کو پھانسیاں دینا شروع کیں۔
کچھ غازی مراد پا گے اور کچھ اپنی باری کے منتظر
مگر اہل پاکستان ، خاص کر مقتدر لوگو
تم کو سانپ کیوں سونگھ گیا۔؟ کیا تم سب نیازی ہو۔؟ بزدل نیازی۔؟؟
تم کہتے ہو ہندؤنیتا آج بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی مکروہ کوششوں میں مصروف ہیں۔ جی ہاں مودی 1971ء میں پاکستان کو توڑنے والے فوجیوں کا نام فخر سے لیتا ہے۔ ڈھاکہ جا کر کہتا ہے ’’ہم نے پاکستان کو توڑا تھا۔‘‘
ہمارا ازلی دشمن اس قدر بہادر کے شرم کی بجائے اپنی بدکاری پر فخر جتا رہا ہے۔
پاکستانیو !تمہاری سفارت کاری کہاں گئی۔؟
امریکہ کے غلامو !فرنٹ لائن اتحادی بننے والو !کب تک اس ملک کیساتھ کھلواڑ کھیلتے رہو گے۔
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تمہارے عمل و کردار میں کوئی ارتعاش آئے۔؟ کیا کوئی تبدیل شدہ پالیسی اس قوم کے مقدر میں نہیں۔؟
کہتے ہو بلوچستان کی بقاء کی جنگ لڑنے والے پاکستان کے حقیقی محِب ہیں ، تو بنگال کو پاکستان کیساتھ رکھنے کی جدوجہد میں شامل البدر و الشمس والے کون تھے۔ وہ پھانسیوں کے پھندوں پر لٹک رہے اور پاکستان والو !تم مر گئے ، زندہ ہو تے تو کوئی آواز تو بلند ہوتی۔
جب بنگال کو پاکستان کیساتھ رکھنے والے غدار ٹھہرے تو بلوچستان کو پاکستان کیساتھ رکھنے والوں کو کل کیا کہو گے۔؟
ارے حکمرانو !تم کہتے ہو آپریشن ضربِ عضب اور رد الفساد نے دہشت گردی کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا۔ واہ رے واہ
دہشت گردی کو اکھاڑ بھی دیا اور آرمی پبلک جیسے حادثات بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ کل کچھ اور آج کچھ اور بولی بولنے والا حکمران کہتا ہے ہم کرائے کی بندوق نہیں ، ہم اب کسی کی جنگ نہیں لڑیں گے۔
کاش ایسا ہی ہوتا مگر یہ راہ مشکل راہ ، تم آرام کی مسندوں پر بیٹھنے والے ’’نہ ‘‘نہیں کر سکو گے۔
یہ انکار تو کوئی ملا عمرجیسا مجاہد ہی کرسکتا ہے، جس نے جنرل محمود کو کہا تھا’’جنرل صاحب!ہم ان باتوں سے نہیں ڈرتے۔ہم باسی روٹی ،پیاز سے یا نمک ملے پانی میں ڈبو کر کھا لیتے ہیں۔ نرم گرم بستر ہماری کمزوری نہیں، جہاں رات پڑ جائے وہیں بوریا بچھا کر سو جاتے ہیں۔‘‘
ملا عمر کی بات اہل دانش کو حماقت لگی تھی مگر وقت نے ثابت کیا کہ اﷲ پر توکل کرنے والے نہتے لوگوں کے جہاد نے دنیا کی سپر پاور اور اس کے نیٹو حواریوں کو دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔
امریکی ہمارے بارے کہتے ہیں کہ پیسے کی خاطر ہم اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں، کاش کوئی جری جرنیل امریکیوں کو اس بات کا جواب دیتا۔
ابھی کل ہی کی بات ہے اہم عہدے پر موجود ایک عسکری نے مجھے کہا دعا کریں امریکی ہماری امداد بحال نہ کریں ۔ میں پریشان ہو گیا کہ اس عہدے پر پاکستان دشمن کیوں آ بیٹھا، پوچھا آپ امداد کی بحالی کیوں نہیں چاہتے ۔؟
پاکستان بدترین مالی بحران کا شکار اور آپ ٹھیک تو ہیں ، کیا کہہ رہے ہیں ۔؟
بولے واﷲ سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں۔ امریکہ نے ہماری امداد بند کر دی تو ہم آزاد ہو جائیں گے۔ آزاد غلامی سے آزاد۔
عسکری کی بات پرد سماعت سے ٹکرا رہی ہے۔ اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل کے شمعدان ہال میں منعقدہ سیمینار سے قاضی صاحب مرحوم و مغفور کا خطاب یاد آیا۔
بندہ آزاد قاضی حسین احمد نے کہا تھا کہ ’’کشکول پکڑے ہاتھ پھیلتا ہے تو گردن جھک جاتی ہے۔ امداد نے ہمیں غلام بنا دیا‘‘۔ قاضی صاحب نے کہا تھا کہ اس امداد سے ڈی ایچیز تو بن گئے مگر مشرف جیسے لوگوں نے ساری قوم کو غلام بنا دیا۔ سیمینار تحریک انصاف نے منعقد کیا تھا اور قاضی صاحب کی بات پر ماڈل خواتین تالیاں پیٹ رہیں تھیں، جیسے قاضی صاحب نے انکے دل کی بات کی تھی۔
حق کی توانا آواز نقار خانے میں آوازیں بلند کرتے کرتے اپنے رب کے پاس جا پہنچی۔
ہمارا مقدر مشرف جیسے جانباز ہی رہیںگے ۔؟جن کے ہوتے ہوئے مودی و ٹرمپ ہمیں للکارتے رہیں گے۔؟؟
اﷲ ہم کمزور ہیں تو بڑی طاقت و حکمت والاہے، تو ہماری مدد فرما کرہمیں ایسے حکمران بخش دے جو صرف ہمیں نہیں بلکہ دشمن کو بھی فتح کرسکیں۔
آمین یا رب العالمین