اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی کا دوفریقین کے درمیان جھگڑے کے دوران خاتون کو ڈنڈے کے وار کرکے زخمی کرنے والے ملزم پر اظہار برہمی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزار پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے عورت کومارا، آپ نے کیوں عورتوں کوڈنڈے سے مارا، کتنا زیادہ عورتوں پر زوردکھاتا ہے۔سپریم کورٹ میں فوجداری کیسز جلد سماعت کے لئے مقررکئے جاتے ہیں۔ اگر وکیل کاوکالت نامہ موجود تھا تو پھر یکطرفہ کاروائی پر کیس بحالی کی درخواست نہیں سے سکتے۔ دوسری نظر ثانی درخواست دائر نہیں ہوسکتی، لاہور ہائی کورٹ کااعتراض درست ہے۔
جبکہ جسٹس ملک شہزاداحمد خان نے کہا ہے کہ حکومت کاتیل چوری ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہماری معیشت تباہ ہوتی ہے۔ کیا ایک شخص کو زخمی کرنے پر 18لوگو ں کو جیل بھیجیں گے۔ تاخیر سے درج کروائی گئی ایف آئی آرکے ساتھ سچ منسلک نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس ملک شہزاد احمد خان پرمشتمل 2رکنی بینچ نے جمعہ کے روز فائنل اورسپلیمنٹری کاز لسٹ میں شامل 32کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے فیصل آباد میں پارکو پائپ لائن سے تیل چوری کرکے بیچنے والے ملزم کی ضمانت منسوخی کے لئے دائر درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس ملک شہزاداحمدکا کہنا تھا کہ ملزم کے گھر تیل کی پائپ لائن لگی ہے، وہاں سے جاکرتیل فروخت ہوتا ہے۔ اس دوران ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب مرزاعابد مجید کاکہنا تھا کہ ملزم تفتیش میں گنہگار پایا گیا ہے۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ تحقیقات میں ملزم گنہگارپایاگیاہے، ساراتیل چوری کررہے ہیں، حکومت کاتیل چوری ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہماری معیشت تباہ ہوتی ہے۔
مرزاعابدمجید کاکہنا تھا کہ جہاں سے یہ سارا سسٹم چل رہا تھا وہ گھر ملزم کاتھا۔ مرزاعابدہ مجید کاکہنا تھا کہ چالان داخل ہوگیا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر ملزم ضمانت قبل ازگرفتاری کاغلط استعمال نہیں کررہا توہم کہہ دیتے ہیں کہ ٹرائل تیزی سے چلاکرتین ماہ میں مکمل کیا جائے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم درخواست پر نوٹس کردیتے ہیں۔ اس پرکورٹ ایسوسی ایٹ کی جانب سے بتایا گیا کہ درخواست پر پہلے ہی نوٹس ہوچکا ہے۔ چیف جسٹس کاملزم کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم سماعت ملتوی کررہے ہیںآپ مزید دلائل تیارکرکے آئیں۔
مرزاعابد مجید کاکہنا تھا کہ 4دسمبر کو پیشی ہے، ابھی تک ملزم پرفردجرم عائد نہیں ہوسکی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ٹرائل چلنے دیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ ہر2ہفتے بعد پیش رفت رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ بینچ نے حافظ علی کی جانب سے دائر ضمانت قبل ازگرفتاری درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ یہ سوتر کیا ہوتا ہے۔ اس پر درخواست گزارکی وکیل بشریٰ قمر نے بتایا کہ اس سے کپڑا بنتا ہے۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 25ماہ تاخیر سے کیس درج کروایا گیا۔ عدالت نے درخواست گزار کی ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت قبل ازگرفتاری منظور کرتے ہوئے مزید سماعت 19دسمبر تک ملتوی کردی۔ بینچ نے رائے قدوس کی جانب سے دائر ضمانت قبل ازگرفتاری درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں ساری رات ایف آئی آر ڈھونڈتا رہا مگر نہیں ملی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ مدعا علیہان کی زمینوں پر گئے اورگاڑی توڑی اورعورت کو گاڑی سے نکال کرمارا ہے یہ غلط بات ہے۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا ایک شخص کو زخمی کرنے پر 18لوگو ں کو جیل بھیجیں گے، ایک ، دوملزم ہوسکتے ہیں۔ جسٹس ملک شہزاد احمدخان کاکہنا تھا کہ خاتون نہیں مارنا چاہیئے، خاتون کوایک زخم آنے کی وجہ سے 18لوگوں کو نا مزدکردیا۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ ایک شخص کوزخمی کرنے پر 18سے زائد لوگوں کو ایف آئی آر میں نامزدکیا گیا ہے۔
عدالت نے ایک لاکھ روپے مچلکوں کے عوض درخواست گزارکی ضمانت قبل ازگرفتاری کی درخواست منظور کرلی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اچھا رویہ اختیارکریں۔ بینچ نے محمد رضوان اللہ کی جانب سے دائر درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری پر سماعت کی۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ ایف آئی آر کروانے میں دوماہ کی تاخیر ہے، اتنے بندے مسلح ہوکرآئے کسی کوخراش آئی ہے توبتادیں۔ چیف جسٹس نے اس دوران درخواست گزار ملزم کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹر ی میں روسٹرم پر طلب کرتے ہوئے استفسارکیا کہ آپ کیوں مدعاعلیہان کوتنگ کررہے ہیں۔ اس پر درخواست گزار کاکہنا تھا کہ میں تنگ نہیں کررہا۔ چیف جسٹس نے درخواست گزار کو ہدایت کہ مدعاعلیہان کے گھر کے قریب بھی نہیں جانا اوراُن کے سامنے بھی نہیںآنا۔
جسٹس ملک شہزاد احمد خان کادرخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اتنے پرچے آپ کے خلاف کیوں بن رہے ہیں۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ دوماہ تاخیر سے ایف آئی آردرج ہوئی ، کوئی زخم مدعا علیہان کو نہیں لگا، کوئی گولی کاخول برآمد نہیں ہوا، کیس میں بدنیتی کاپہلو خارج ازامکان نہیں۔ عدالت نے ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری منظورکرلی۔ بینچ نے شاکر اوردیگر کی جانب سے دائر ضمانت قبل ازگرفتاری پر سماعت کی۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کادرخواست گزاروں کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے مئوکلوں نے مدعاعلیہان کو بہت زخم پہنچائے ہیں۔
وکیل کاکہنا تھا کہ شاکر کامیڈیکل بھی موجود ہے یہ بھی زخمی ہوا تھا۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب مرزاعابد مجید کاکہنا تھا کہ شاکر اورباقر نے 7افراد کوزخمی کیا۔ چیف جسٹس کادرخواست گزار پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے عورت کومارا، آپ نے کیوں عورتوں کوڈنڈے سے مارا، کتنا زیادہ عورتوں پر زوردکھاتا ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کی ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری 7جنوری تک منظورکرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی۔ بینچ نے راحیلہ بی بی کی جانب سے قتل کیس میں درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پر سماعت کی۔ درخواست میں ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوااوردیگر کوفریق بنایا گیا تھا۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کادرخواست گزار کے وکیل اسد الرحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گھر میں قتل ہوا، کیوں اطلاع نہیں دی، سب غائب ہو گئے۔
چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آ پ فرق بتائیں کہ گلہ نہیں گھونٹا گیا اور مقول خود گلے میں پھندالگاکرجھولا ہے، میڈیکل رپورٹ سے فرق بتائیں، وکیل اس نقطہ پر تیاری کرکے آئیں۔وکیل کاکہنا تھا کہ خاتون جیل میں کیس جلد سماعت کے لئے مقررکردیا جائے۔اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں فوجداری کیسز جلد سماعت کے لئے مقررکئے جاتے ہیں۔ اس دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی الطاف خان کاکہنا تھا کہ مقتول کی آنکھیں بندتھیں جس سے پھانسی لینا ثابت نہیں ہوتا۔ بینچ نے محمد بشیر کی جانب سے دوبھینسیں چوری کرنے کے معاملہ پر دائردرخواست ضمانت قبل ازگرفتاری پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ نے بھینسیں چرائی ہیں۔
مدعا علیہ کے وکیل کاکہنا تھا کہ بشیر اورنذیر دونوں بھائی ہیں اوربھینسیں بشیر کے ڈیرے سے برآمد ہوئیں۔ جسٹس ملک شہزاد احمدخان کا مدعیہان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ واقعہ کے 6ماہ بعد تک خاموش کیوں رہے۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کامدعاعلیہ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں سویاآپ کے گھر ہوں اور میں خود ہی بتائوں کہ میرے ڈیرے پرآپ کی بھینسیں موجود ہیں۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ تاخیر سے درج کروائی گئی ایف آئی آرکے ساتھ سچ منسلک نہیں ہوتا۔
درخواست گزار کے وکیل کاکہنا تھا کہ فریقین بیوپاری ہیں اوران کے لین دین کے معاملات ہیں۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ 7ماہ تاخیر سے ایف آئی آر درج کروانے کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی، ایف آئی آر کے اندراج میں بدنیتی کے پہلو سے بھی انکارنہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے درخواست گزار کی ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری منظور کرلی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم ایسی کوئی فائنڈنگ نہیں دیں گے جس سے ٹرائل کورٹ میں زیرالتوا ٹرائل متاثر ہو۔ بینچ نے سید محمد اقبال شاہ نے دوسری نظرثانی درخواست پررجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اعتراض کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ دوسری نظر ثانی درخواست دائر نہیں ہوسکتی، لاہور ہائی کورٹ کااعتراض درست ہے۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔