بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) سماجی انصاف کی فراہمی اور سماجی تحفظ کیلئے پاکستان کے پختہ عزم کا ثبوت ہے۔ سماجی تحفظ کے پروگرام کا تصور سابق وزیر اعظم پاکستان محترمہ شہید بینظیر بھٹو نے اپنے جلاوطنی کے زمانے میں پیش کیا تھا جس کا مقصد ملک کے سب سے کمزور طبقات بالخصوص خواتین کو معاشی ریلیف فراہم کرنا تھا جو عموما سماجی و معاشی عدم مساوات کا شکار ہوتی ہیں۔ محترمہ کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی زیر قیادت وفاقی حکومت نے سال 2008 میں بی آئی ایس پی کا آغاز کیا اور صدر آصف علی زرداری کی رہنمائی میں محترمہ کا وژن حقیقت میں بدل گیا۔ بی آئی ایس پی اس وقت96 لاکھ گھرانوں کو سہ ماہی مالی معاونت فراہم کر رہا ہے جن کی تعداد جون 2025 تک 1 کروڑ ہو جائیگی اور اسطرح سے بی آئی ایس پی کا شمار پاکستان کے سب سے بڑے اور بااثر سماجی تحفظ پروگراموں میں ہو تا ہے۔
بینظیر کفالت پروگرام غریب ترین خاندانوں کو براہ راست مالی معاونت فراہم کرنے کیلئے تشکیل دیا کیا گیا اور تاریخی اعتبار سے ایک ایسے ملک میں جہاں خواتین کو معاشی، سماجی اور سیاسی فیصلوں میں نظرانداز کیا جاتا تھا وہاں صرف خاتون خانہ کو ہی اس مالی معاونت کے اہل قرار دینا کسی انقلاب سے کم نہیں ۔ زچہ و بچہ کی صحت کیلئے بینظیر نشوونما جیسے پروگراموں کے ذریعے نقد رقم مالی معاونت سے لے کر تعلیم میں سرمایہ کاری کیلئے بینظیر تعلیمی وظائف تک اور اب مستحقین اور ان کے خاندانوں کیلئے روزگارکے ذریعے غربت میں کمی کیلئے ہنر مندی کے پروگرام پر عملدرآمد کے ذریعے بی آئی ایس پی نے تمام رکاؤٹوں کودور کرتے ہوئے پاکستان بھر میں لاکھوں افراد کی مالی نظام میں شمولیت اور سماجی بااختیاری کو یقینی بنایا ہے۔
سیکھنے اور سکھانے کا سفر
سماجی تحفظ کے شعبہ میں مختل ممالک سے سیکھنے کے بعدبی آئی ایس پی اب اس شعبہ میں ایک رہنما ادارے کی حیثیت سے موجود ہے جو ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک عمدہ مثال قائم کر رہا ہے۔ بی آئی ایس پی کئی سالوں سے اپنے سماجی تحفظ کے اقدامات میں بہتری لانے کیلئے بین الاقوامی ماڈلز سے سیکھ رہا ہے۔ لیکن اب دنیا بھر سے ترقی پزیر ممالک بی آئی ایس پی کے طریقہ کار کا مطالعہ کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں جس نے پسماندہ طبقے کو بااختیار بنانے میں کامیابی کےحوالے سے دنیا بھر میں اپنی پہچان قائم کی ہے۔ حال ہی میں اکتوبر 2024 میں، یوگنڈا کے ایک 21 رکنی اعلی سطحی وفد نے سیکرٹری پبلک سروس محترمہ لوسی ناکیوبینے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کا چار روزہ مطالعاتی دورہ کیا۔ وفد کو بریفنگ دیتے ہوئے ایڈیشنل سیکرٹری بی آئی ایس پی ڈاکٹر محمد طاہر نور نے پروگرام کی کامیابی کا سہرا اس کے سائنسی نشاندہی کےطریقہ کار، ٹیکنالوجی پر مبنی ادائیگی کے نظام، بین الاقوامی شراکت داروں کے اعتماد اور تھرڈ پارٹی مانیٹرنگ کو قرار دیا۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کی کنٹری ڈائریکٹر محترمہ کوکو اوشیاما نے بھی پروگرام کے شواہد پر مبنی ڈیٹا بیس اور قدرتی آفات کے دوران بروقت مالی معاونت فراہم کرنے میں بی آئی ایس پی کے کردار کو سراہا۔ یہ کامیابی نہ صرف بی آئی ایس پی بلکہ عالمی ترقیاتی شعبے میں پاکستان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے حوالے سے بھی ایک اہم سنگ میل کی نمائندگی کرتی ہے۔
14 نومبر 2024 کو اسلام آباد میں منعقدہ ساؤتھ-ساؤتھ کوآپریشن فورم میں پاکستان کی کامیابی کی داستان کو دنیا بھر میں سماجی تحفظ کے نظام کے لیے ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا۔ مالی، نائیجر، برکینا فاسو اور سینیگال سمیت مغربی افریقی ممالک کے نمائند ے سماجی بہبود میں پاکستان کے نمایاں کام سے سیکھنے کے لیے اسلام آبادتشریف لائے۔ مندوبین بالخصوص خواتین کو معاشی دھارے میں ضم کرنے کے حوالے سے بی آئی ایس پی کی صلاحیت سے متاثر ہوئےجو کہ طویل مدتی سماجی اور معاشی استحکام کے حصول کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
سیکرٹری بی آئی ایس پی عامر علی احمد نے تقریب میں اپنے خطاب کے دوران کہا ، “آج، ہم صرف دوسروں سے ہی نہیں سیکھ رہے ہیں بلکہ ہم دوسروں کو سکھا بھی رہے ہیں” ۔ انہوں نے سال 2008 سے لے کر عالمی سطح پر شہرت کے حصول تک بی آئی ایس پی کے سماجی تحفظ کے سفر کو بیان کیا۔ بی آئی ایس پی نے خواتین کی بااختیاری کو یقینی بناتے ہوئے نقد مالی معاونت، صحت ، غذائیت اور تعلیمی اقدامات کے ذریعے نہ صرف لاکھوں پسماندہ افراد کی مدد کی ہے بلکہ اس نے ایک نیا معیار بھی قائم کیا ہے کہ کس طرح سے ایک سماجی بہبود کا پروگرام کم ترقی یافتہ علاقوں میں سماجی و اقتصادی سرگرمیاں پیدا کرنے میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے جیسے کہ ملک بھر میں 96 لاکھ سے زائد خاندانوں میں سہ نقد مالی معاونت کے ذریعے بی آئی ایس پی کے 598 ارب روپے کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ مقامی معیشت کے فروغ کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
بی آئی ایس پی کے عالمی اثرات: سماجی تحفظ کے لیے اُمید کی کرن
ساؤتھ-ساؤتھ کوآپریشن فورم میں عالمی ترقیاتی شراکت داروں جیسے ورلڈ فوڈ پروگرام، ورلڈ بینک، یونیسیف، کے ایف ڈبلیو، جی آئی زیڈ اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک (اے ڈی بی) کی موجود گی نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں بی آئی ایس پی کے گہرے اثرات کا اعتراف تھی ۔ غربت اور ترقی کے مسائل سے نبردآزما ممالک ان مسائل کے حل کی تلاش کیلئے پاکستان تشریف لائے تاکہ اپنے ممالک کے حالات کے مطابق ان پر عملدرآمد کرسکیں۔
مغربی افریقی مُلک ،مالی کے فوڈ سیکیورٹی کے وزیر جناب ریڈوانے محمد علی کے زیر قیادت وفد نے پاکستان کے مضبوط سماجی تحفظ نیٹ ورک بالخصوص بی آئی ایس پی کےادائیگی کے جدید طریقہ کار، بائیو میٹرک تصدیق، موبائل بینکنگ اور متحرک ڈیٹا رجسٹری کو سراہا۔ بی آئی ایس پی کے جدید نقد امداد کے طریقہ کار نے اس عمل کو نہایت موثر اور شفاف بنا دیا ہے جس کی بدولت بدعنوانی کا خاتمہ ہوا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ صرف مستحق افراد اس پروگرام سے فائدہ اٹھائیں۔
بی آئی ایس پی نےمستحقین میں رقوم کی شفاف تقسیم کو یقینی بنانے کیلئے چھ بینکوں کی خدمات حاصل کرتے ہوئے بائیومیٹرک تصدیق پر مبنی ڈیجیٹل ادائیگی کا نظام بھی متعارف کرایا ہے۔ مزید یہ کہ مستحقین میں بچت کا رحجان پیدا کرنے اور مالیاتی خواندگی میں اضافے کیلئے آزمائشی بنیادوں پر بی آئی ایس پی بچت اسکیم متعارف کرائی گئی ہے جس میں بی آئی ایس پی کی جانب سے ماہانہ بچت پر 40 فیصد اضافی بطور منافع ادا کیا جائیگا، جبکہ مستقبل میں POS ایجنٹس کو ختم کرنے کے حوالے سے لائحہ عمل تشکیل دیا جارہا ہے جس سے خواتین کو وظائف تک بغیر کسی انسانی مداخلت کے رسائی حاصل ہوگی اور اس طرح سے ان کی مالی خود مختاری میں مزید اضافہ ہوگا۔
اسی طرح مغربی افریقی مُلک ، برکینا فاسو کے قومی کونسل برائے سماجی تحفظ کے سیکریٹری، جناب احمدی بامونی نے بی آئی ایس پی کے ڈائنامک رجسٹری سینٹرز اور قومی سماجی و اقتصادی ڈیٹا بیس کو سراہاجس کے تحت مستحقین کے مالی حالات کا جائزہ لگایا جاتا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ امداد صرف مستحق خاندانوں تک پہنچے۔ انہوں نےاس بات پر زور دیا کہ برکینا فاسو اور دیگر ایسے ممالک جنہیں سماجی تحفظ کے شعبے میں اسی نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے وہ بی آئی ایس پی کے ٹیکنالوجی پر مبنی شفاف نظام کو مثالی نمونہ کے طور پر اپناسکتے ہیں۔
بی آئی ایس پی کے تحت مستحقین کو دی جانے والی مالی معاونت کے علاوہ مہمان وفد کی دلچسپی کی توجہ کا مرکز بننے والا اہم شعبہ زچہ وبچہ کی صحت سے متعلق تھا۔ بینظیر نشوونما پروگرام نے مالی معاو نت اور غذائیت سے بھر پور خوراک کی فراہمی کے ذریعے نوزائیدہ بچوں میں غذائی کمی کے باعث پھیلنے والی بیماریوں کا مقابلہ کرنے اور بالخصوص دیہاتی خواتین کی صحت کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ بی آئی ایس پی نے اس پروگرام کے لیے 42 ارب روپے (تقریباً 144 ملین امریکی ڈالر) مختص کیے ہیں جس کی بدولت ملک بھر میں 26 لاکھ حاملہ، دودھ پلانے والی خواتین اور نوزائیدہ بچوں میں صحت کے حوالے سے بہتر نتائج موصول ہو رہے ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) کے تعاون سے چلنے والے اس پروگرام کی کامیابی نے یہ ظاہر کیا ہے کہ نقد مالی معاونت سے منسلک صحت اور غذائیت کا یہ پروگرام کس طرح سے معاشرے میں مجموعی طور پر بہتری لا سکتا ہے۔
مستقبل کا وژن: عالمی تعاون کا فروغ
جیسے جیسے پاکستان اپنے سماجی تحفظ کے اقدامات میں جدت پیدا کر رہا ہے ویسے ویسے ہی عالمی برادری کیساتھ اشتراک کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ساؤتھ-ساؤتھ کوآپریشن فورم پاکستان کے سماجی فلاح کے سفر میں ایک نئے باب کا آغاز ہے جو دیگر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مل کر سیکھے گئے اسباق کے تبادلے اور ان ممالک کے منفرد چیلنجز اور انکے حل سے سیکھنے کا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔
پاکستان اور مغربی افریقی ممالک کے درمیان علمی تبادلہ ہمیں مقامی آبادی کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے غربت، غذائی قلت اور صنفی عدم مساوات جیسے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے سماجی تحفظ کے نظام کی تشکیل میں رہنمائی فراہم کرتاہے۔ ممالک باہمی تعاون کی مدد سے ایسے جامع اور پائیدار سماجی تحفظ نیٹ ورک تشکیل دے سکتے ہیں جو پسماندہ طبقے کو غربت سے نکال سکیں تاکہ وہ ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
جیسا کہ بی آئی ایس پی کی چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد نے فورم کے دوران کہا:
“بی آئی ایس پی کی کامیابی نہ صرف پاکستان کے لیے ایک اہم کامیابی ہے بلکہ اسے ایک موثر سماجی تحفظ کے ماڈل کے طور پر بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ یہ ہمارے لئے ایک اعزاز ہے کہ ہمارے سماجی تحفظ کے پروگرام کو دنیا بھر کے ممالک میں سراہا اور سمجھا جا رہا ہے۔ میں بے حد خوش ہوں کہ بینظیر بھٹو شہید کا وژن حقیقت میں تبدیل ہو رہا ہے جسے اب عالمی سطح پر پزیرائی حاصل ہورہی ہے۔ یہ ایک ویژنری قیادت کی جانب سے قوم کیلئے ترجیحات کے انتخاب کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بی آئی ایس پی ایک فلیگ شپ پروگرام ہےاور ان ممالک کے لیے کیس اسٹڈی بن چکا ہے جو اپنے ممالک میں اس نوعیت کا سماجی تحفظ کا نظام قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔”
بی آئی ایس پی کو سماجی تحفظ کے ماڈل کے طور پر تسلیم کیا جانا پاکستان کی قابلیت کو ظاہر کرتا ہے جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر مثبت اور معنی خیز تبدیلیاں لانے میں اہم کردار اداکر سکتا ہے۔ بی آئی ایس پی نہ صرف پاکستان کے روشن مستقبل کیلئے کوشاں ہے بلکہ اقوام متحدہ کے عالمی اہداف جیسے غربت کا خاتمہ، بھوک کا خاتمہ، اچھی صحت، صنفی مساوات، باعزت روزگار ، اقتصادی ترقی اور عدم مساوات میں کمی لانے کے حوالے سے بھی اپنا حصہ ڈال رہا ہے ۔