عمران خان کی فائنل کال نے اپنے سیاسی تابوت میں آخری کیل گاڑ دی۔ کیا فائنل ہارنے کے بعد عمران لاچار، بے یارو مددگار، حکمت عملی سے عاری، خود غرض سیاست بظاہر انجام کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ بڑی سیاسی جماعت اندرونی خلفشار، انتشار کے گرداب میں، ’’انتشار مارچ‘‘ ناکام و نامراد، پارٹی کو کھوکھلا کر گیا۔ ایک عرصہ سے پارٹی باہمی افراط و تفریط، اندرونی لڑائی جھگڑوں کی گرفت میں تھی۔ قیادت کو ایک دوسرے کی وفاداریوں پر شک تھا جبکہ کارکنان کئی خانوں میں بٹے، قائدین پر عدم اعتماد کا برملا اظہار کر رہے تھے۔ ’’اب کون بچائے گا؟‘‘ عمران، تاحد نگاہ سارے Optionsخرچ کر چکے ہیں۔
ادھر ’’مارو یا مر جاؤ‘‘ مارچ کا اعلان ہوا، اگلے دن اپنے کالم میں احاطہ کیا کہ بھرپور ناکامی و نامرادی مقدر بنے گی۔ عمران خان کو اعزاز کہ 25اپریل 1996کو تحریک انصاف لانچ کرنے کے اعلان سے لیکر آج تک کوئی ایک ایسا سیاسی فیصلہ نہیں جس پر اِترا سکے یا بعد ازاں تاسف نہ رہا ہو ۔ مقبولیت اپنے کسی گن کی وجہ سے نہیں بلکہ مخالفوں کے بلنڈرز کی مرہون منت تھی۔ اگرچہ ورلڈ کپ، شوکت خانم، ساکھ سب کچھ موجود تھا۔ 1997، 2002، 2008الیکشن میں سیاسی وجود صفر بٹہ صفر رہا، جتنے الیکشن لڑے ضمانتیں ضبط رہیں۔پچھلے جمعہ 22نومبر 2024اپنے کالم کے اختتامی فقرے درج کرنے ہیں، ’’عمران خان کی ساری تدبیریں سارے منصوبے، ساری تڑیاں آج تک اُلٹی پڑ چکی ہیں۔ جن ساتھیوں پر بھروسہ تھا، ان سے اعتماد اُٹھ چکا ہے جبکہ وہ اپنے لیڈر کو جیل میں رکھنے کیلئے کئی ہنر آزما رہے ہیں۔ 24نومبر کی فائنل کال عمران خان کی فرسٹریشن اور PTI قیادت پر عدم اعتماد کا شاخسانہ ہی تو ہے۔ 24نومبر کا احتجاج ملتوی نہ ہوا تو ناکامی ثبت ہے‘‘۔ مطیع اللہ جان بوجہ اپنے سخت گیر موقف گرفتار ہو چکے ہیں، حکومت کی احمقانہ حرکت، اُمید کرتا ہوں انکو جلد رہا کر دیا جائیگا۔ 26نومبر کی رات کو مطیع کے آخری پروگرام کا حصہ تھا، تحریک انصاف D چوک سے چند سو گز کے پر فاصلے پر جشن منا رہی تھی، معلوم نہ تھا کہ چند گھنٹے بعد PTI میں صفِ ماتم بچھنے کو ہے۔ مطیع اللہ جان مُصر، حکومت کے چل چلاؤ کا وقت آن پہنچا جبکہ میری تکرار کہ تحریک انصاف کو منہ کی کھانی ہے۔ بیشتر تجزیہ نگار، بین الاقوامی میڈیا، تباہی وبربادی، نظام تتربتر ہوتے دیکھ رہے تھے۔ میرا سیاسی زائچہ مطمئن کہ چند ہزار انتشاری بلوائی ریاست کے مقابلےمیں کامیاب ہوں، ناممکن ہے۔ اتنا خدشہ ضرور کہ کشت وخون سے نہ بچا جا سکے گا۔زمینی حقائق، کسی قسم کی موبلائزیشن تحریک کی نفی کر رہے تھے، علاوہ ازیں تحریک انصاف کا ماضی دھرنوں، لانگ مارچ، ہڑتالوں کی وسیع و عریض ناکامی سے مزین رہا۔ عمران خان نے بعنوان ’’مارو یا مر جاؤ‘‘، D چوک پہنچ کر احتجاج کرنے کا حکم دیا تو اس کو فائنل کال کا رنگ دیا۔ عمران خان کو جانچنے پرکھنے کی سہولت، مجھے یقین تھا احتجاج کی ایسی کال PTI کے قائدین پر عدم اعتماد اور اپنی فرسٹریشن (کہ مقبولیت کے باوجود جیل میں) چنانچہ قائدین کی بجائے بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کے ذریعے 24 نومبر کا اعلان ہوا۔ قائدین پر عدم اعتماد کا اظہار ہی احتجاج کا نقطہ آغاز، اس اُمید پر کہ اب سپورٹرز کی جوق در جوق شمولیت یقینی اور حتمی تھی۔ دورائے نہیں کہ بشریٰ بی بی PTI قائدین کی مرضی کے بَرخلاف زور زبردستی جلوس کو D چوک تک لائیں کہ عمران خان کا حکم یہی تھا۔ یقینا کہا ہو گا ’’اگر میری کال بھی آجائے تو نہیں ماننا‘‘، یہی کچھ بشریٰ بی بی نے کر دکھایا، اس میں بھی مضائقہ نہیں کہ بشریٰ بی بی کی جلوس میں شرکت شریک قائدین پر مانیٹرنگ، نگرانی جو کچھ بھی عمران خان کی خواہش کے عین مطابق تھا۔ قطع نظر کہ PTI قائدین اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ’’مُک مُکا‘‘ ہیں، کم از کم عمران خان کی یہی رائے ہے، اسکا کیا کیا جائے کہ 24نومبر کو لوگ گھروں سے نہیں نکلے۔ بلاشبہ ملک کے طول و عرض بشمول KPK احتجاج کی لام بندی ( Mobilization)، اکٹھ مایوس کن تھے۔ عمران خان کو اڈیالہ جیل میں جب مایوس کن حاضری بارے آگاہ کیا گیا ہو گا تو عمران خان نے جہاں قائدین کو نیم رضامندی کا عندیہ دیا ہو گا، وہیں بشریٰ بی بی کے پاس D چوک ہر صورت پہنچنے کے STANDING آرڈرز پہلے سے موجود رہے ہونگے۔ اصل نافذ العمل آرڈر بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کے پاس تھے۔
احتجاج کی وجہ 3 مطالبات، ’’8 فروری الیکشن کی تصحیح، 26ویں آئینی ترمیم کی واپسی، عمران خان سمیت PTI قیدیوں کی رہائی”، انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔ ایک موقع پر جب توشہ خانہ کیس میں ضمانت ہوئی تو اگلے دن بیان داغا کہ ’’حکومت کے پاس مجھے رہا کرنے کا سنہری موقع تھا، حکومت نے ضائع کر دیا‘‘۔ 8فروری الیکشن کی تصحیح، 26ویں آئینی ترمیم، دونوں آئٹم جس تگ و دو، جان جوکھوں سے حکومت اسٹیبلشمنٹ نے حاصل کئے تو تینوں آئٹم باہمی جڑے تھے جو عمران خان سے نبرد آزما ہونے کیلئے ہی روبہ عمل تھے، کیسے واپس ہو سکتے تھے۔ جیل میں طفل تسلیاں، لالی پاپ ضرور دیا گیا ہو گا۔ جہاں البتہ ایک آئٹم کا ایک حصہ PTI سے متعلق قیدیوں کی رہائی ممکن تھی۔ 26نومبر کا احتجاج ملتوی کرنے کی شرط سے جوڑ کر رہائی ممکن تھی۔ عمران خان نے خود غرضی ذاتی مفاد میں اپنے کارکنوں کی رہائی کا سنہری موقع ضائع کر دیا۔ چشم تصور میں کارکنان کی رہائی سے کارکنان کی حوصلہ افزائی رہتی۔ عرصہ دراز سے ساتھیوں اور ورکرز بارے بیگانگی اور بے اعتنائی مستحکم تھی۔ اسی کا شاخسانہ کہ اپنی ذات ہی سب کچھ، پُرتشدد لانگ مارچ میں اپنی بیوی اور بہن کو جھونکنا عمران خان کا ہی آزمودہ ہنر ہے۔ گالم گلوچ سوشل میڈیا، پُرتشدد فاشسٹ پارٹی آج مملکت خداداد عمران کی خواہش کے مطابق سوہان روح بن چکی ہے۔ اللہ کا نظام! بدنیتی پر مبنی فائنل کال نے PTI اور عمران خان مستقبل ایک عرصہ دراز کیلئے گڑھے میں دھکیل دیا۔ لانگ مارچ میں عوام کی عدم شمولیت اور KP حکومت بمقابلہ وفاقی حکومت، پہلی دفعہ وفاق اور حکومت ٹکراؤ کی دہلیز پر، عمران خان کا مقصد طوائف الملوکی تھا۔ حکومت کو کریڈٹ کہ دو دن سے پنجاب میں جلوس نے اَت مچا رکھی تھی۔ پولیس کی دوڑیں لگوا دیں، سوشل میڈیا میم عام رہیں، فتح کا اعلامیہ جاری تھا۔ دورائے نہیں کہ کسی ایک طرف سے قتل و غارت یقینی رہنی تھی۔ اللّٰہ نے عزائم ناکام بنائے، کشت و خون سے بچا لیا۔ البتہ تحریک انصاف کا انجام بُرا، آج کسمپرسی میں باہمی لڑائی جھگڑوں فساد کی زد میں عمران خان کی جیل مزید مشکل بننی ہے۔ جب قیادت ستمگر اور خود غرض تو یہی انجام رہنا تھا۔ خود تو ڈوبنا تھا، پارٹی ساتھیوں کو بھی لے ڈوبے۔
بشکریہ روزنامہ