کشمیر کا حال اور مستقبل: نئی راہوں کی جستجو ۔۔۔ تحریر : عدیم سلیمان

کشمیر، جس کی سرزمین کبھی آزادی اور خود مختاری کے خوابوں کی امین تھی، آج فکری و سیاسی انتشار کے بھنور میں ہے۔ وہ خواب، جو یہاں کے لوگوں کے دلوں میں امید کی کرن بن کر روشن ہوتا تھا، اب جیسے ایک معلق خواب بن کر رہ گیا ہے۔ یہ خواب، جو کبھی راہوں کی سمتیں اور منزل کی روشنی دکھاتا تھا، آج اندھیروں اور پیچیدہ راستوں میں کھو چکا ہے۔ کشمیری عوام اپنی شناخت، مقصد اور مستقبل کے بارے میں بے یقینی اور الجھن کا شکار ہیں۔ آزادی کا وہ تصور، جو ان کے دلوں میں ہمیشہ ایک روشن چراغ کی مانند روشن رہا، بدلتے ہوئے سیاسی حالات اور پیچیدہ معاملات کے بوجھ تلے مدھم ہو گیا ہے، گویا جو ناخوب تھا، بتدریج خوب ہوا۔
کشمیر کے مستقبل پر مختلف خیالات اور نظریات کی گونج لوگوں کے ذہنوں میں منتشر ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں جو کبھی امید کی روشنی تھیں، اب قصۂ پارینہ بن چکی ہیں، اور تقسیمِ ہند کے تاریخی تناظر میں کشمیر کے سیاسی و قانونی تعلقات پر جاری مباحث نے مزید پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔ مسئلہ کشمیر اب ایک ایسی پیچیدہ پہیلی بن چکا ہے جس کے حل کی کوئی واضح اور صاف راہ دکھائی نہیں دیتی۔ کشمیری عوام ایک گہرے مخمصے میں گرفتار ہیں کہ آیا ان کی منزل یہی درماندگی ہے، الحاقِ پاکستان ہے یا ایک آزاد ریاست۔ گویا ہر سو ایک بے یقینی کا غلبہ ہے، اور یہ بے یقینی غلامی سے بدرجہا بدتر حالت ہے۔
یہ سیاسی و فکری انتشار اور بے یقینی کشمیری عوام کے شعور کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے۔ جموں کے حالیہ انتخابات میں ہندو جماعتوں کی غیر متوقع کامیابی وہاں کی عوامی سوچ میں تبدیلی کی عکاس ہے۔ یہ تبدیلی اس بات کی علامت ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لوگ اب الحاقِ پاکستان کے بیانیے سے مزید دور ہو چکے ہیں۔ افسوس کہ پاکستان کے فیصلہ سازوں نے اس تبدیلی کی سنگینی کو سمجھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ہماری فکری بے حسی اور سیاسی ناکامی ہمیں اپنی جدوجہد کے اصل تقاضوں سے دور لے جا رہی ہے۔ آزادی کا خواب، جو برسوں پہلے دیکھا گیا تھا، اب محض سیاسی نعروں اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال بھی کشمیری عوام کے لیے مایوسی کا ایک اور سبب ہے۔ پاکستان خود بقا کی جنگ میں مبتلا ہے، اور آج کا پاکستان اپنی بکھرتی ہوئی معیشت، سیاسی افراتفری اور اخلاقی بحران کی وجہ سے تباہی کے داہنے پر کھڑا ہے۔ عوام خود سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا اس ملک کے وجود کا کوئی اخلاقی جواز باقی رہ گیا ہے۔ جو لوگ عالمی حالات سے واقف ہیں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان اب عالمی سطح پر عدم مقبولیت کا شکار ہو چکا ہے۔ ان حالات میں پاکستان پر مزید انحصار کشمیری عوام کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ بے جا انحصار، چاہے اختیاری ہو یا جبری، کشمیری عوام کے لیے مایوسی کا ایک اہم سبب بن چکا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: “اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔” کشمیری عوام کو اب اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنا ہو گا، اور اپنی فکری و عملی صلاحیتوں کا از سرنو جائزہ لینا ہو گا۔ کسی قوم کی آزادی کا دارو مدار بیرونی امداد پر نہیں بلکہ اس کی خود مختاری اور استقلال پر ہوتا ہے۔ جب تک ہم اپنے خوابوں اور مصلحتوں سے آزاد نہیں ہوں گے، ہماری جدوجہد محض ایک فریب ہی رہے گی۔
حقیقی آزادی محض سیاسی اختیار حاصل کرنے کا نام نہیں بلکہ فکری بلند پروازی، اخلاقی عظمت اور خودداری کا حصول ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “جو شخص لوگوں کی غلامی سے نکل کر اللہ کا بندہ بن گیا، وہی حقیقی آزاد ہے۔” جب قومیں ذاتی مفادات کے پیچھے بھاگتی ہیں اور اپنے بنیادی نظریات کو ترک کر دیتی ہیں تو ان کی آزادی محض ایک مصلحت بن کر رہ جاتی ہے۔ آج آزاد کشمیر کے عوام کی اکثریت سطحی سیاسی اثرات کے زیر اثر ہے، اور ایک خاموش بے حسی نے ان کی سوچ کو جکڑ رکھا ہے۔ یہ بے حسی اور فکری جمود ان کو “سست عناصر دلم گرفت” میں بدل رہا ہے، جن کے پاس نہ کوئی نصب العین ہے، نہ کوئی واضح منزل۔
تاریخ کی گہرائیوں میں جھانکیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کشمیری عوام اپنی شناخت اور وقار کو بھول چکے ہیں۔ ایک زمانے میں کشمیر اپنے تمدنی و ثقافتی ورثے کی بنا پر پورے برصغیر میں منفرد حیثیت رکھتا تھا۔ یہاں کے حکمران اور رہنما اپنے وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بیرونی اثرات سے آزاد تھے، مگر بدلتے حالات نے اس شناخت کو ماند کر دیا۔ آج کشمیر کی چار اکائیوں میں سے گلگت بلتستان اور لداخ کی نئی نسلیں یہ تک بھول چکی ہیں کہ وہ کبھی کشمیر کا حصہ تھیں۔ جموں میں حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی دو تہائی ووٹ کے ساتھ کامیابی اس بدلے ہوئے منظرنامے کی عکاسی کرتی ہے۔ وادی کے لوگ اب پاکستانی جنگی طیاروں اور فوجیوں کی یلغار کا انتظار ترک کر چکے ہیں۔ اسی طرح آزاد کشمیر کے سیاستدان، اپنی ذاتی خواہشات اور مراعات کی دوڑ میں مسئلہ کشمیر کو بھول چکے ہیں۔ اکثر نے پاکستان کے فیصلہ سازوں کی چوکھٹ کو اپنا قبلہ و کعبہ جانا، اور اپنی باری پر ان کی عطاؤں سے خوب فیضیاب ہوئے، اور جن کا وہاں پہنچنا محال تھا یا راندۂ درگاہ ہوئے، انہوں نے آزادی کے متلاشیوں کو قوم پرستی کے خواب کے پیچھے لگا کر خود مغربی ممالک میں پناہ کی راہیں ہموار کیں اور تعیش کی زندگی کے مزے لوٹے۔
سید علی گیلانی جیسے بے باک رہنما، جنہوں نے اپنی پوری زندگی اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے گزاری اور عزت و وقار کے ساتھ سرِ مقتل کھڑے رہے، موت کی صورت میں حقیقی آزادی حاصل کر گئے۔ سید صاحب کا رحلت سے چند دن قبل ریاست پاکستان کو لکھا خط اس نابغۂ روزگار حریت پسند کی پاکستان سے وابستہ امیدوں کے ٹوٹنے کی کرب و ابتلا کی ایسی داستان ہے جو کسی بھی آزادی پسند کا دل دہلا دے۔ آج کشمیر میں قیادت کا فقدان ہے اور حقیقی رہنمائی کا قحط الرجال ہے۔ ایسے میں عوام کے اصل مسائل، یعنی آزادی اور یکجہتی، پس منظر میں چلے گئے ہیں اور ان کے خواب و مقاصد دھندلا گئے ہیں۔ آزاد کشمیر میں سیاسی جمود ایک تلخ حقیقت بن چکا ہے، جسے توڑنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
حالیہ عوامی تحریک سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام میں کچھ کر گزرنے کی صلاحیت بدرجہ تمام و کمال موجود ہے، مگر مسئلہ کٹھ پتلی حکومتوں کا ہے، جنہوں نے ان لوگوں کی ضروری تربیت کا اہتمام نہیں کیا اور نہ ان کو پنپنے کے مواقع فراہم کیے۔ ہمیں کشمیر کے مستقبل کے بارے میں قومی سطح پر غور و فکر کے بعد ایک مشترکہ اور واضح موقف اپنانا ہوگا اور پھر ہمیں ایسے نوجوان تیار کرنے کی ضرورت ہے جو اپنی فکری بلندی اور عملی صلاحیتوں سے مسئلہ کشمیر کو مؤثر انداز میں دنیا کے سامنے اجاگر کر سکیں۔ حضرت علیؓ کا قول ہے: “سب سے بری غلامی وہ ہے جو ضمیر اور نظریات کا سودا کر دے۔” یہ وہ شعور ہے جو کشمیری عوام کو فکری اور سیاسی طور پر آزاد کر سکتا ہے۔
تعلیمی اداروں اور علمی حلقوں کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ کشمیر کے تاریخی اور فکری ورثے کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ نوجوان نسل اپنی شناخت اور حقائق سے واقف ہو سکے۔ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور دانش وروں کو بھی نئی نسل میں آزادی کی اصل روح بیدار کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
کشمیر کی حالت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آزادی محض سیاسی اختیار کا نام نہیں بلکہ فکری غلامی سے رہائی کا سفر ہے۔ کشمیری عوام کو اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنا ہوگا اور اپنی جدوجہد کو اپنے تشخص و خودمختاری کی بنیاد پر آگے بڑھانا ہوگا۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم نئی فکری بلندی کی طرف قدم بڑھائیں اور اپنے عمل و کردار سے دنیا کو اپنی آزادی کے حقدار ہونے کا یقین دلائیں۔