اسرائیل مخالف یہودیوں کی جدوجہد (قسط اول)—وسعت اللہ خان


کیا تمام یہودی اسرائیل نواز یا صیہونی ہیں ؟ ہرگز نہیں۔

آپ نے فلسطینیوں کے احتجاجی جلوسوں کی متعدد تصاویر میں لمبی زلفوں ، سیاہ ہیٹ اور سیاہ گاؤن والے چند باریش جوانوں اور بزرگوں پر شاید کبھی دھیان دیا ہو۔یہ وہ قدامت پسند یہودی ہیں جو اسرائیلی اکثریت اور صیہونی اسٹیبلشمنٹ کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔

اکثریتی صیہونی موقف کے ان باغیوں کا تعلق بنیاد پرست یہودی فرقے ہریدی سے ہے۔مگر ہریدی ہوتے ہوئے بھی ان کی ایک علیحدہ شاخ نیٹوری کارتا ( محافظِ بلد ) کے نام سے جانی جاتی ہے۔نیٹوری یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ گناہ گاری کی سزا کے طور پر بنی اسرائیل صدیوں پہلے جلاوطن ہوئے اور بے پناہ مصائب میں مبتلا ہوئے۔

مگر خدا کا وعدہ ہے کہ یومِ نجات آئے گا اور مسیحا داہنے ہاتھ میں تورات تھامے جلاوطن امت کی قیادت کرتے ہوئے فلسطین میں داخل ہو گا اور وہاں توراتی شریعت کے مکمل نفاذ کے بعد تیسری بار ہیکلِ سلیمانی تعمیر کر کے آسمانی وعدے کی تکمیل کرے گا۔چنانچہ مسیحا کی آمد کا انتظار کیے بغیر سرزمینِ فلسطین پر جبری قبضہ خدائی وعدے کو چیلنج کرنا ہے اور ایسی ریاست (اسرائیل ) اور اسے بنانے والے (صیہونی ) گناہِ کبیرہ کے مسلسل مرتکب ہیں۔

اگرچہ نیٹوری کارتا فرقہ چند ہزار مذہبی لوگوں پر مشتمل ہے۔مگر صیہونیت کے حمائیتی علما اور اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ خواہش کے باوجود اس فرقے کو مرتد قرار دینے سے قاصر ہے۔نیٹوری یہودی صیہونیوں کو خدا کا نافرمان اور غاصب سمجھنے کے سبب فلسطینیوں سے پوری ہمدردی رکھتے ہیں۔ان کا نظریہ ہے کہ صیہونی ریاست اپنے گناہ دھو کر تب ہی خدا کے حضور سرخرو ہو سکتی ہے اگر وہ ہڑپ کردہ زمین فلسطینیوں کو لوٹا کے ریاست اسرائیل کا وجود منسوخ کر کے دوبارہ جلاوطنی میں لوٹ جائے اور مسیحا کی آمد کا انتظار کرے۔

ہریدی فرقے کی ایک اور شاخ اگودا بھی صیہونیت کی بنیاد پر اسرائیل کے قیام کی شدید مخالف رہی ہے مگر انیس سو تیس کے عشرے میں یورپ میں یہودیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے پیشِ نظر اگودا تحریک نے اپنے سخت گیر نظریے میں قدرے لچک پیدا کی اور اسرائیل کے وجود کو ایک مکروہ مجبوری سمجھ کے قہراً جبراً قبول کر لیا۔مگر نیٹوری کارتا فرقہ آج بھی اپنے نظریے پر اٹل ہے کہ صیہونیت کے خمیر سے اٹھنے والی ریاست حرام ہے۔

( اس پر مجھے وہ علما یاد آ رہے ہیں جنھوں نے قیامِ پاکستان کو ملتِ اسلامیہ کے آفاقی وجود کی ضد قرار دیتے ہوئے بھر پور مخالفت کی۔ جب پاکستان قائم ہو گیا تو اسے نہ صرف ’’ بادلِ نخواستہ ‘‘ تسلیم کر لیا بلکہ اس ملک کو اپنے نظریے کی کٹھالی میں ڈھالنے کی آج تک بھرپور کوشش جاری ہے )۔

نیٹوری کارتا فرقہ باضابطہ طور پر ہریدی فرقے کی اگودا تحریک سے کٹ کر انیس سو چھتیس میں وجود میں آیا۔اسی سال مقامی فلسطینی آبادی نے اپنی زمین پر برطانوی سرپرستی میں یہودیوں کو جبراً بسانے کے خلاف ایجی ٹیشن شروع کیا جسے اگلے تین برس کے دوران نوآبادیاتی برطانوی دستوں نے مسلح صیہونی آبادکاروں کی مدد سے کچل دیا۔مگر نیٹوری یہودیوں نے مسلح صیہونیوں کی فلسطین دشمن کارروائیوں کی بھرپور مذمت جاری رکھی۔

اکثر نیٹوری کارتا یہودی انیسویں صدی میں ہنگری و لتھوینیا کے علاقوں سے ہجرت کر کے سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِ سایہ یروشلم ، سفید ، طبریاس اور ہیبرون ( الخلیل ) میں بس گئے اور مسلمان اور مسیحی فلسطینیوں کی طرح صیہونیت پرست یورپی یہودیوں کی آمد کو مقامی تشخص اور مذہبی بھائی چارے کے لیے ایک سنگین خطرہ سمجھنے لگے۔

انیس سو سڑسٹھ کی چھ روزہ جنگ میں جب اسرائیل نے فلسطین کے تمام تاریخی علاقے پر قبضہ کر لیا تو نیٹوری یہودیوں نے اس قبضے کے خلاف اپنی تحریک کو اسرائیلی سرحدوں سے باہر تک پھیلا دیا۔

انیس سو انہتر میں انھوں نے نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کے باہر پہلا مظاہرہ کیا اور دھرنا دیا۔ان کا مطالبہ تھا کہ اسرائیل نے جن فلسطینی اور عرب علاقوں پر ناجائز قبضہ کیا اسے اقوامِ متحدہ فوراً ختم کروائے۔اس بارے میں نیٹوری کارتا نے یاسر عرفات کی پی ایل او کے موقف کی بھرپور حمائیت جاری رکھی۔

جب انیس سو نوے کی دہائی میں اوسلو سمجھوتے کے بعد مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی اتھارٹی کی نیم خود مختار حکومت قائم ہوئی تو یاسر عرفات نے اپنی کابینہ میں نیٹوری کارتا کے رہنما موشے ہرش کو یہودی امور کا وزیر مقرر کیا۔نیٹوری دو ہزار چار میں پیرس کے اس اسپتال کے باہر دعاؤں میں بھی شریک رہے جہاں یاسر عرفات کا انتقال ہوا۔

جب دو ہزار چھ میں تہران میں ہالوکاسٹ کی تاریخی حیثیت کے ازسرِ نو جائزے کے موضوع پر صدر احمدی نژاد کی حکومت نے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی تو اس میں نیٹوری کارتا وفد نے بھی شرکت کی۔اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کے سرکاری یہودی پیشوا رباعی یوسف اسحاق جیکبسن نے تبصرہ کیا کہ تہران میں ہالوکاسٹ کی تاریخی حیثیت کو چیلنج کرنے والی کانفرنس میں کسی یہودی کی شرکت ایسے ہے جیسے وہ ہٹلر کے شانہ بشانہ چل رہا ہو۔

نیٹوری مقدس یہودی تہوار پورم کے موقع پر کئی برس سے یروشلم ، لندن اور نیویارک میں اسرائیلی پرچم نذرِ آتش کرتے ہیں۔وہ انیس سو اڑتالیس کے نقبہ میں جبری جلاوطن کیے جانے والے لاکھوں فلسطینیوں کی گھر واپسی کے حامی ہیں۔وہ اسرائیل کو ایک جمہوری ریاست کے بجائے نسل پرست فاشسٹ وجود تسلیم کرتے ہیں۔

نیٹوریوں کا موقف ہے کہ سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر جو شبخون مارا اسے دھشت گردی سمجھنے کے بجائے پچھلے چھہتر برس کی پرتشدد نسل پرستانہ اسرائیلی پالیسیوں کا ردِ عمل کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔تشدد کے جواب میں تشدد ہی پھوٹتا ہے۔

نیٹوریوں کے بقول صیہونیوں نے مسیحا کی آمد کا انتظار کیے بغیر اسرائیلی ریاست قائم کر کے کفر کا ارتکاب کیا ہے لہٰذا ایسی ریاست کو کبھی سکون نصیب نہیں ہو سکتا۔

( اگلے مضمون میں ہم ان یہودی تنظیموں اور لابیوں کا ذکر کریں گے جو اسرائیل کے اندر اور باہر فلسطینی موقف کی طرفدار ہیں )۔

بشکریہ روزنامہ ایکسیریس