لندن میں بدتمیزیاں، جواب پاکستان میں ۔۔۔۔تحریر مزمل سہروردی


میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ پاکستان میں دہری شہریت کا قانون ختم ہو جانا چاہیے اور اب دہری شہریت کا قانون ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ جس نے بھی کسی دوسرے ملک کی شہریت لے لی ہے اس کو پاکستان کی سیاست میں ووٹ دینے اور حصہ لینے پر پابندی ہونی چاہیے۔ اسے پاکستان میں جائیداد خریدنے کا حق بھی مشروط ہونا چاہیے۔ جس نے بھی کسی دوسرے ملک سے وفاداری کا حلف لے لیا ہے، اس کی پاکستانی شہریت ختم کر دینی چاہیے۔

پاکستان کی سیاست انظامی ڈھانچے اور معاشرت میں اس خرابی کی بڑی وجہ بیرون ملک پاکستانی ہیں۔ ان کو نہ پاکستان کی سیاست کی مبادیات کی کوئی سمجھ ہے نہ ہی ان پر پاکستان کا کوئی قانون لا گو ہوتا ہے۔ لیکن یہ پاکستان کی سیاست کے چاچے مامے بن گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان کی سیاست کا نہ صرف ماحول خراب ہو گیا ہے۔ بلکہ انھوں نے پاکستان کی سیاست میں ایسا گند مچا دیا ہے کہ جس کی وجہ سے پاکستان کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب انتخابات سے قبل تحریک انصاف کے اسد قیصر اداروں کے ساتھ مفاہمت اور تناؤ کا درجہ حرارت کم کرنے کی بات کر رہے تھے تب بھی اس سب عمل کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے نہ صرف نقصان پہنچایا گیا بلکہ سارے عمل کو سبوتاژ کر دیا۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ بیرون ملک مقیم دہرش یہرت رکھنے والے پاکستانی جو تحریک انصاف کے حامی ہیں۔

انھوں نے اپنی ایسی سرگرمیوں سے پاکستان کے سیاسی ماحول کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ کہنے کو یہ سب تہذیب یافتہ ممالک میں رہتے ہیں ان جمہوری اور مہذب ملکوں کے پاسپورٹ ہولڈر ہیں لیکن ان کی حرکتیں جاہلوں سے بھی بدتر ہیں۔ انھوں نے پاکستان کی سیاست کو ایک بدترین شکل دی ہے جب کہ پاکستان اور پاکستان کے کلچر کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔

بیرون ملک مقیم یہ بدتمیز اور بدتہذیب پاکستانی آج تحریک انصاف کی موجودہ صورتحال اور مشکلات کے ذمے دار ہیں۔ انھوں نے باہر بیٹھ کر پوری تحریک انصاف کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ یہ باہر بیٹھ کر تحریک انصاف پاکستان کو پاکستان کے سیاسی ماحول کے مطابق سیاست نہیں کرنے دیتے جس کی وجہ سے تحریک انصاف پاکستان ہر وقت ان کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار رہتی ہے۔

بیرون ملک کی گئی ان کی بد تمیزیوں کی تحریک انصاف کو پاکستان میں بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ بیرون ملک کے ہر عمل کا جب پاکستان میں جواب دینا پڑتا ہے تو ہمیں پھر تحریک انصاف کی قیادت کے درد کا اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن تحریک انصاف کی مشکل یہ ہے کہ وہ ان کے ہاتھوں میں ایسی یرغمال ہے کہ رہائی ممکن ہی نہیں نظر آرہی۔

اب آپ دیکھیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف ایک دن کے لیے لندن گئے تو لندن میں مقیم تحریک انصاف کے لوگوں نے میاں نواز شریف کے گھر کے باہر مظاہرہ کیا اور ایک طوفان بد تمیزی برپا کیا۔ آپ مجھے بتائیں، اس مظاہرے کا تحریک انصاف کی سیاست کو فائدہ ہوا یا نقصان۔ کیا تحریک انصاف پاکستان میں میاں نواز شریف کے گھر کے آگے ایسے مظاہرے کر رہی ہے۔

پاکستان میں تو تحریک انصاف چادر اور چار دیواری کا تحفظ مانگ رہی ہے اور لندن میں سیاسی مخالفین کے گھروں پر حملے کر رہی ہے۔ جو وہ لندن میں کر رہے ہیں جب اس کا جواب پاکستان میں دیا جاتا ہے تو رونے لگتے ہیں۔ پھر چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ لندن میں بد تمیزی کریں گے اور پاکستان میں اس کا جواب نہیں ہوگا۔ اس کا رد عمل پاکستان میں ہوگا اور وہ پھر برداشت بھی کرنا ہوگا۔

ایک طرف آپ پاکستان میں دیکھیں تو قاضی فائز عیسیٰ کی حمائت کرنے والا وکلا کا دھڑا سپریم کورٹ بار کے انتخابات جیت گیا ہے۔قاضی کے مخالفین حامد خان اور سلمان اکرم راجہ کے نمایندے ہار گئے ہیں۔ اس کو اس تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ وکلاء کی اکثریت قاضی فائز عیسیٰ کی حامی ہے، قاضی کے فیصلوں کی حامی ہے، 26ویں آئینی ترمیم کی حامی ہے۔

پاکستان میں قاضی کے فیصلوں کو وکلا کی اکثریت نے درست تسلیم کیا ہے۔ دوسری طرف لندن کی سڑکوں پر قاضی کی گاڑی کے پیچھے بھاگنا، کیا ظاہر کر رہا ہے۔ بدتمیزی ظاہر کر رہا ہے، جہالت ظاہر کر رہا ہے۔ وہ لندن کی ایک یونیورسٹی میں بنچر منتخب ہوئے ہیں۔ وہ پاکستان کے لیے اعزاز ہے۔ لیکن یہ لندن کے یوتھیے پاکستان کی بدنامی کر رہے ہیں۔ پیچھے بھاگنا، وڈیو بنانا، ڈالر کمانا، یہ سیاست نہیں ہے۔ اس کا تحریک انصاف کو فائدہ نہیں نقصان زیادہ ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے۔

لندن کی سڑکوں پر کی جانے والی بدتمیزی پاکستان میں پسند نہیں کی جاتی۔ بلکہ اس کا رد عمل ہوتا ہے، جو تحریک انصاف پاکستان کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہی حال تحریک انصاف کے حامی یوٹیوبرز کا ہے۔ اب تو تحریک انصاف کی قیادت نے خود ان یوٹیوبرز کے خلاف بیانات دینے شروع کر دیے ہیں۔ حال ہی میں سلمان اکرم راجہ نے کہاہے کہ ہم ان یوٹیوبرز کے دباؤ میں کوئی پالیسی نہیں بنائیں گے، یہ تحریک انصاف کی پالیسی نہیں بنا سکتے۔

کیونکہ یہ یوٹیوبرز اپنے چند لائکس اور ویوز کے لیے جو تلخی پیدا کرتے ہیں اس کا خمیازہ تحریک انصاف کو پاکستان میں برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ نہ پاکستان میں ہیں اور نہ ہی ان کا پاکستان کی سیاست میں کوئی اسٹیک ہے۔ لیکن انھوں نے خود کو تحریک انصاف کا پالیسی میکر بھی بنا لیا ہے۔ ہم نے پہلی دفعہ یوٹیوبرز کو سیاسی جماعت کا پالیسی ساز بھی دیکھا ہے۔ لہٰذا وہ اپنے ڈالروں اور مفاد کے تابع پالیسی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

ایک خبر یہ بھی آئی کہ تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے حال ہی میں پارٹی کا ایک اہم اجلاس بلایا لیکن اس میں بیرون ملک مقیم تحریک انصاف کے رہنماؤں کو مدعو نہیں کیا گیا۔ بڑے فیصلے ان کے بغیر کیے گئے۔ بڑے فیصلے ان کے ساتھ ہو بھی نہیں سکتے۔بیرون ملک مقیم بیٹھے لوگ کہتے ہیں مار دو حکومت کو اٹھا کر گھر بھیج دو۔ اڈیالہ جیل توڑ دو، اداروں کو گالیاں نکالو۔ پاکستان میں بیٹھی قیادت کو اندازہ ہے کہ یہ سب نہ صرف نا ممکن ہے بلکہ اس کو کرنے کی کوشش کی بھی ایک بڑی قیمت ہے جو مزید ادا نہیں کی جا سکتی۔ ڈی چوک جانے کے اعلان کی کیا قیمت ہے اور کیا یہ قیمت بار بار ادا کی جا سکتی ہے۔ تناؤ بڑھانے کی ایک قیمت ہے اور کیا یہ قیمت مزید ادا کی جا سکتی ہے۔

اس لیے میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف اوور سیز کی حرکتوں کا رد عمل جب پاکستان تحریک انصاف کو ادا کرنا پڑتا ہے تو ہمیں چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سیاسی ماحول خراب کہاں ہوا ہے۔ گھر پر حملہ لندن میں ہو یا پاکستان میں ایک ہی بات ہے۔ اگر تحریک انصاف کے پاس لندن میں بدتمیزی کرنے کی طاقت ہے۔ نیو یارک میں بد تمیزی کرنے کی طاقت ہے تو باقی سیاسی جماعتوں کے پاس پاکستان میں جواب دینے کی طاقت ہے۔ اور وہ جواب دیا جاتا ہے جسے میں رد عمل ہی سمجھتا ہوں۔

اگر آپ لندن اور امریکا میں بد تمیزی کریں گے تو جواب اسلام آباد لاہور میں ملے گا۔اس لیے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی پاکستانی سیاست میں مداخلت اور حصہ لینے کے خلاف ہوں۔ یہ جہاں رہتے ہیں وہاں کی سیاست کریں وہ پاکستان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ یہ برطانیہ کا وزیر اعظم بن کر دکھائیں۔ یہ امریکا میں سنیٹر بن کر دکھائیں۔ سڑکوں پر گالم گلوچ سے نہ پاکستان کو فائدہ ہے اور نہ ہی تحریک انصاف کا کوئی فائدہ ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس