خان ہماری جان ۔۔۔تحریر جاوید چوہدری


’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا کر میری طرف دیکھ رہا تھا‘ میں نے بھی مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ میں دیا اور اسے کافی کی آفر کر دی‘ نوجوان مہذب اور پڑھا لکھا تھا‘ اس نے بڑی شائستگی سے معذرت کر لی تاہم وہ ہمارے ساتھ بیٹھ گیا‘ کافی شاپ میں بھیڑ تھی‘ لوگ اکتوبر کے آخری ہفتے کو انجوائے کر رہے تھے‘ اسلام آباد میں اکتوبر نومبر اور مارچ اپریل چار ایسے مہینے ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر لوگ کافی شاپس اور چائے خانوں کو انجوائے کرتے ہیں‘ میں بھی اپنے ایک دوست کے ساتھ گپ اور کپ دونوں کا لطف لے رہا تھا‘ وہ سامنے دوسری میز پر بیٹھا تھا‘ اس نے دور سے ہاتھ ہلایا‘ میں نے بھی جواب میں ہاتھ ہلا دیا ‘ وہ اٹھ کر میرے پاس آیا اور شکوہ کیا ’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ پیشے کے لحاظ سے سول انجینئر تھا اور اسلام آباد کی ایک بڑی کنسٹرکشن کمپنی میں کام کرتا تھا‘ پی ٹی آئی سے وابستہ تھا لیکن یوتھیا نہیں تھا لہٰذا اس کے لہجے میں مروت اور شائستگی تھی۔

میں نے پیار سے جواب دیا ’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے‘ میںعمران خان کے خلاف نہیں ہوں‘ میں ان کا بہت بڑا اور پرانا فین ہوں‘ ان کی جیل کی زندگی نے مجھے اس کا زیادہ گرویدا بنا دیا ‘ میرا خیال تھا یہ جیل برداشت نہیں کر سکے گا مگر اس نے یہ مشکل وقت مردانگی کے ساتھ گزار کر میرے سمیت لاکھوں لوگوں کو حیران کر دیا لہٰذا میں اس کا فین ہو گیاہوں بس مجھے اس کی فلاسفی سمجھ نہیں آ رہی‘ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں آخر عمران خان چاہتا کیا ہے؟ مجھے اگر کوئی شخص یہ سمجھا دے تو میں فوراً اڈیالہ جیل کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ جاؤں گا اور جب تک عمران خان رہا نہیں ہوتا میں وہاں بیٹھا رہوں گا‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’عمران خان کا مطالبہ بہت سادہ ہے‘ یہ حقیقی آزادی چاہتا ہے‘‘ میں نے ہنس کر پوچھا ’’کس سے‘ کیا یہ اسٹیبلشمنٹ سے آزادی چاہتا ہے‘ کیا یہ عدلیہ یا پارلیمنٹ یا پھر امریکا سے آزادی چاہتا ہے‘ یہ کس سے آزاد ہونا چاہتا ہے؟‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’امریکا اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے‘‘ میں نے قہقہہ لگایا اور عرض کیا ’’پھر عمران خان جیل میں بیٹھ کر امریکی اخبارات میں مضامین اور انٹرویوز کیوں چھپوا رہا ہے اور یہ امریکی کانگریس کی قرارداد اور 60 کانگریس مین کے امریکی صدر کے نام خط پر خوش کیوں ہو رہا ہے؟ آپ نے جس سے آزادی لینی ہو کیا آپ کبھی اس سے مدد لیں گے؟ جب کہ عمران خان امریکا کی مدد سے امریکا سے آزادی چاہتا ہے‘ مجھے یہ باریک نقطہ سمجھ نہیں آ رہا‘ دوسرا آپ کس اسٹیبلشمنٹ سے آزادی چاہتے ہیں؟ یہ اسٹیبلشمنٹ توعمران خان کی ساتھی تھی‘ ملکی تاریخ میں خان پہلا لیڈر تھا جو طویل عرصے تک اسٹیبلشمنٹ کے صفحے پر رہا اور فوج نے خان کی محبت میں باقی تمام جماعتوں اور لیڈروں کو برباد کر کے رکھ دیا‘ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو 2018میں جس طرح اقتدار میں لے کر آئی تھی پوری دنیا اس سے واقف ہے لیکن آج آپ اسی اسٹیبلشمنٹ سے حقیقی آزادی چاہتے ہیں‘ کیا آپ فوج کو ختم کرنا چاہتے ہیں یا اسے ڈرا دھمکا کر اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتے ہیں‘ آپ پہلے یہ تو واضح کریں‘ آپ نے اگر فوج سے لڑنا ہے تو پھر کھل کر لڑیں اور اگر اس سے ہاتھ ملانا ہے تو پھر کھل کر اس سے مذاکرات کریں‘ کبھی ہاں اور کبھی ناں کیوں کرتے ہیں؟‘‘۔

نوجوان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا‘ اس نے کرسی پر پہلو بدلا اور کہا ’’کیا الیکشن جیتنے کے بعد اقتدار خان کا حق نہیں؟‘‘ میں نے فوراً جواب دیا ’’ہاں بالکل ہے لیکن 2022میں عمران خان کے پاس اس سے زیادہ اقتدار تھا‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس کی اکثریت تھی اور پنجاب‘ کے پی‘ آزاد کشمیر اور گلگت  بلتستان میں اس کی حکومت تھی لیکن خان نے کیا کیا؟ قومی اسمبلی سے استعفے دے دیے اور اپنی چاروں حکومتیں توڑ دیں‘ آپ کو اگر اس وقت اقتدار نہیں چاہیے تھا تو آج آپ اس کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں؟ دوسرا آپ کو جب اقتدار ملا تو آپ نے 12 کروڑ لوگوں کا صوبہ عثمان بزدار جیسے نالائق اور ناتجربہ کار شخص کے حوالے کر دیا اور کے پی محمود خان کو دے دیا اور آج آپ نے کے پی علی امین گنڈا پور کے حوالے کر دیا‘ کیا آپ دوبارہ اقتدار اس لیے چاہتے ہیں کہ آپ اس نوعیت کے نمونوں کو دوبارہ لے آئیں‘‘ نوجوان کے پاس اس کا بھی کوئی جواب نہیں تھا‘ میں نے عرض کیا ’’آپ اب تازہ ترین صورت حال دیکھ لیں‘ عمران خان مولانافضل الرحمن اور محمود اچکزئی کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے؟ یہ پھر ان کے دوست بن گئے‘ پی ٹی آئی 26 ویں ترمیم کی پارلیمانی کمیٹی میں شامل ہوئی‘ دس اجلاس ہوئے‘ یہ ان تمام اجلاسوں میں بیٹھے اور اپنی رائے بھی دی‘ مولانا کے ساتھ بیٹھ کر ترامیم کا مسودہ بنایا لیکن جب سیاسی اتحاد نے مولانا کا مسودہ مان لیا تو انھوں نے ووٹ نہیں دیا‘ آپ بے شک مسودے کی حمایت نہ کرتے لیکن آپ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی ووٹنگ میں تو شریک ہوتے‘ آپ مخالفت میں ووٹ دے دیتے لیکن جب مخالفت کا وقت آیا تو پارٹی دونوں ایوانوں سے غائب ہو گئی‘ آج پارٹی 26 ویں ترمیم کو نہیں مانتی لیکن ترمیم سے بننے والی اس 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی میں 3سیٹیں لے لیں جس نے نئے چیف جسٹس کا فیصلہ کرنا تھا مگر جب کمیٹی کا اجلاس ہوا تو کمیٹی کا بائیکاٹ کر دیا‘ آپ اگر جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بنانا چاہتے تھے تو آپ کمیٹی کے اجلاس میں شامل ہو کر ان کے حق میں ووٹ دیتے‘آپ نے کیوں نہیں دیا؟ میری اطلاعات کے مطابق جے یو آئی اور پیپلز پارٹی جسٹس منصور کو چیف جسٹس بنانا چاہتی تھی اگرپی ٹی آئی اجلاس میں شریک ہوتی اور یہ جسٹس منصور کا نام پیش کرتی تو پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ان کی حمایت کر دیتی اور یوں جسٹس منصور چیف جسٹس بن جاتے مگر جب پی ٹی آئی شریک نہ ہوئی تو جے یو آئی اور پیپلز پارٹی حکومت کی بات ماننے پر مجبور ہو گئی اور یوں جسٹس منصور چیف جسٹس نہ بن سکے‘ آج اگر جسٹس منصور چیف جسٹس نہیں ہیں تو اس کی وجہ پی ٹی آئی ہے‘ دوسری طرف گنڈا پور نے پشاور میں اعلان کر دیا تھا اگر جسٹس منصور چیف جسٹس نہ بنے تو ہم پورا ملک بند کر دیں گے لیکن جب جسٹس یحییٰ آفریدی چیف بن گئے تو گنڈا پور ان کی حلف بردار کی تقریب میں سب سے پہلے پہنچ گئے‘ پی ٹی آئی کے وکلاء بھی اب نئے چیف کی عدالت میں پیش ہو رہے ہیں‘ انھوں نے 26 ویں ترمیم کے ثمرات قبول کر لیے ہیں‘ آپ مجھے بتائیں کیا یہ کنفیوژن نہیں؟‘‘ بے چارے نوجوان کے پاس اس کا بھی کوئی جواب نہیں تھا۔

میں نے عرض کیا ’’آپ اب بشریٰ بی بی اور عمران خان کی بہنوں کی رہائی کا معاملہ بھی لے لیں‘ بشریٰ بی بی گنڈا پور کی ڈیل کی وجہ سے رہا ہوئیں‘ گنڈا پور نے اس کا اعتراف بھی کر لیا ہے‘ بشریٰ بی بی کی جیل میں ریاستی عہدیداروں سے 7 ملاقاتیں بھی ہوئیں‘ اسٹیبلشمنٹ نے گنڈا پور کو بتا دیا تھا ہم بی بی کے خلاف کوئی نیا کیس نہیں بنا رہے اور آپ فلاں تاریخ کو ان کے لیے سیکیورٹی بھجوا دیں اور یوں بی بی پشاور پہنچ گئیں‘ خان کی بہنوں کو بھی غیر سیاسی رہنے کے وعدے پر رہا کیا گیا‘گنڈا پور اسٹیبلشمنٹ کی ہر میٹنگ میں شریک ہوتے ہیں‘ یہ ایپکس کمیٹی میں بھی جاتے ہیں اور احتجاج اور دھرنے سے غائب بھی ہو جاتے ہیں اورپھر 12 اضلاع کی پولیس سے چھپ کر پشاور میں ظہور پذیر ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف عمران خان دعویٰ کر رہے ہیں میں کوئی ڈیل نہیں کروں گا‘ ہزار سال بھی رہنا پڑاتو جیل میں رہوں گا‘ میں جھکوں گا نہیں‘ ہار نہیں مانوں گا اور میری جدوجہد حقیقی آزادی تک جاری رہے گی‘ یہ کیا تماشا ہے‘ آپ ایک طرف ڈیل کر کے بشریٰ بی بی کو رہا کراتے ہیں اور دوسری طرف ہزار سال جیل میں رہنے کا اعلان کرتے ہیں‘ ایک طرف ڈی چوک میں دھرنے کا اعلان کرتے ہیں اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرتے ہیں‘آپ کی کون سی بات پر یقین کیا جائے؟ قومی اسمبلی ایک طرف فارم 47 کی پیداوار ہے اور دوسری طرف آپ خود بھی اس میں بیٹھے ہیں اور اس سے تنخواہیں بھی وصول کر رہے ہیں‘ قوم کو باہر نکلنے‘ غلامی کی زنجیریں توڑنے اور انقلاب لانے کی دعوت دے رہے ہیں اور دوسری طرف قائدین انقلاب حماد اظہر‘ اسلم اقبال اور مراد سعید آپ کی مرضی سے چھپے بیٹھے ہیں‘ پاکستان کے اندر انقلاب کی فصل تیار ہے‘ لوگ جانیں دینے کے لیے تیار ہیں اور دوسری طرف آپ کے انقلابی یو ٹیوبر لندن اور نیویارک میں بیٹھے ہیں‘ ایک طرف شاہ محمود قریشی پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین ہیں اور دوسری طرف پارٹی نے ان کے بھانجے ظہور قریشی اور بیٹے زین قریشی کو نوٹس دے رکھے ہیں‘ یہ کیا ہے؟ یہ پارٹی ہے یا سرکس ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ ان تمام لوگوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں جو آپ کو اس کنفیوژن سے نکلنے کا مشورہ دیتے ہیں‘ جو آپ کو بار بار کہہ رہے ہیں آپ اپنی منزل کلیئر کریں‘ آپ جو کرنا چاہتے ہیں آپ اس میں کلیئر ہوں‘ اقتدار میں آنا ہے تو پھر آئیں‘ انقلاب لانا ہے تو پھر انقلاب لائیں‘ آپ فٹ بال کی طرح کبھی دائیں اور کبھی بائیں کیوں لڑھک جاتے ہیں؟‘‘۔

میں خاموش ہو گیا‘ نوجوان مسکرایا اور پھر بولا ’’آپ کی ساری باتیں ٹھیک ہیں لیکن اس کے باوجود خان ہماری جان ہیں اور آپ ان کی مخالفت نہ کیا کریں‘‘۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس