چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحیی آفریدی صاحب کے ساتھ راقم کے دو تعلق نکل آئے ہیں، ایک تو وہ راوین (گورنمنٹ کالج لاہور کے سابق طالب علم) ہیں اور دوسرا وہ ڈیرہ اسمعیل خان سے تعلق رکھتے ہیں جہاں میں دو بار ڈی آئی جی رہ چکا ہوں، اس لیے ان سے براہِ راست مخاطب ہورہا ہوں۔
سب سے پہلے میں نے اس طرح کا کالم اپنے گورنمٹ کالج اور یونیورسٹی لا کالج کے کلاس فیلو جسٹس ثاقب نثار کو اس وقت لکھا تھا جب وہ چیف جسٹس پاکستان بنے تھے۔ اس میں یہ بھی بتایا تھا کہ میں نے اپنے کلاس فیلو کو (جن کے ساتھ میرے سماجی مراسم بہت اچھے تھے) چیف جسٹس بننے پر مبارک نہیں دی، دو سال بعد جب وہ اپنا عرصہ تعیناتی مکمل کرلیں گے تو اس وقت دیکھوں گا اگر انھوں نے اپنے عہدے کے ساتھ انصاف کیا تو پھولوں کا گلدستہ لے کر جاں گا اور انھیں مبارکباد کے ساتھ پھول بھی پیش کروں گا۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے روز میں پھولوں کی دکان کے پاس سے گذرا تو گل فروش فورا ایک خوبصورت گلدستہ لے آیا مگر میں نے گلدستہ واپس کردیا اور سر جھکا کر کہا میں انھیں مبارک باد دینے نہیں جارہا۔
جسٹس فائز عیسی صاحب سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھیں، جب ان کے خلاف فیض حمید اور عمران خان نے مل کر ریفرنس دائر کیا تو میں نے ان کے حق میں کئی آرٹیکل لکھے۔ خوبیاں اور خامیان سب میں ہوتی ہیں، لہذا ان میں بھی تھیں، البتہ ان کی خوبیوں کا اعتراف نہ کرنا بھی بددیانتی ہے۔ ان کے کچھ کام بڑے قابلِ تحسین تھے۔ وہ اپنے پیشر ں کے برعکس نمود ونمائش سے دور رہے اور انھوں نے فنانشل ڈسپلن قائم کیا۔ انھوں نے سپریم کورٹ کے ایک بدنام جج کو نکال کر عدلیہ کے اندرونی نظامِ احتساب کا ثبوت فراہم کردیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے آئین کے منافی کچھ فیصلوں کو کالعدم قرار دے کر بہت اچھی مثال قائم کی۔ کسی بھی سیاستدان کو تاحیات نا اہل قرار دینے والا فیصلہ غیر آئینی تھا، اسی طرح آئین کے آرٹیکل 163A کی غلط تشریح کر کے آئین کو ہی نئے سرے سے لکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج (جسے سپریم جوڈیشنل کونسل نے کرپشن کے الزامات پر نکال دیا ہے) نے جنرل مشرف کا ٹرائل کرنے والی خصوصی عدالت کو ہی غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز صاحب نے ان تمام غلط فیصلوں کو کالعدم قرار دے کر ریکارڈ درست کردیا جو بلاشبہ قابلِ تحسین ہے لیکن ان میں چند ذاتی خامیاں بھی تھیں، وہ غالبا اپنی بات کو حرفِ آخر سمجھتے تھے۔ ان کے چیف جسٹس بننے سے پہلے میں نے اپنے کالم میں انھیں دو مشورے دیے تھے ،ایک یہ کہ وہ اپنی سیکیورٹی کا خیال رکھیں اور اس سلسلے میں SOP پر عمل کریں اور گھر سے عدالت تک پیدل نہ جایا کریں، انھوں نے اس مشورے پر عمل نہیں کیا۔ میرا دوسرا مشورہ یہ تھا کہ ججوں کو غیر جانبدار ہونا چاہیے بلکہ غیر جانبدار نظر بھی آنا چاہیے، اس لیے لاہور میں عاصمہ جہانگیر کی یاد میں سیمینار ہو یا کسی اسلامی تنظیم کی کوئی تقریب ہو، ججوں کو کسی تقریب میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوسکتا ہے کہ منتظمین کے فلاں جج کے ساتھ خصوصی تعلقات ہیں یا یہ کہ فلاں جج کے نظریات فلاں تنظیم سے ملتے جلتے ہیں۔ جہاں تک ان کے فیصلوں کا تعلق ہے، ان کے کچھ فیصلوں سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا خصوصا پی ٹی آئی کو بطور جماعت جنرل الیکشن سے باہر رکھنے والا فیصلہ زیادہ سخت تھا۔ اسی طرح مخصوص سیٹوں والے مسئلے کوtechnicalities کی نذر کر دینا درست نہیں لگتا تھا۔ اس سے لگتا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کی حکومت نے انھیں اور ان کی اہلیہ کو جس اذیت سے گذارا تھا وہ اس کا درد بھلا نہیں سکے ۔
٭نئے چیف جسٹس صاحب سے پہلی گزارش یہ ہے کہ اعلی عدلیہ کا طرزِعمل اور کارکردگی میں اتنی بہتری لائیں کہ عوام کا اعتماد بحال ہوجائے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری جسے بااثر سیاسی وکیلوں کے ذریعے بے توقیر ہی نہیں کیا، برباد کرکے رکھ دیا ہے، اس کی عزت اور احترام بحال کرائیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سمجھتے تھے کہ وکیلوں نے انھیں بحال کرایا ہے، اس لیے وہ اس کے محسن ہیں لہذا اس نے وکیلوں کے کہنے پر ڈسٹرکٹ ججوں کی پت اتارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایک طرف ان کی عزت بحال ہونی چاہیے مگر دوسری طرف ان کا سخت احتساب ہونا چاہیے۔ تنخواہیں بے تحاشا بڑھنے کے باوجود حرص و ہوس میں کمی نہیں آئی اور رزقِ حلال کھانے والے خال خال ہی ملتے ہیں۔
٭جسٹس آفریدی صاحب کے کرنے کے کاموں میں اہم ترین کام ہائی کورٹس میں ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار کو بہتر بنانا ہے، حکومت کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ اس لیے آپ خود initiative لیں اور ایک بہتر طریقہ کار وضع کرکے حکومت سے عملدرآمد کرائیں۔ سی ایس ایس کی طرز پر جوڈیشل سروس آف پاکستان کا اجرا بھی ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ فوری طور پر انتہائی نیک نام سرونگ اور ریٹائرڈ ججوں اور دیگر افراد پر مشتمل سرچ کمیٹی کے ذریعے بھی انتخاب کیا جاسکتا ہے یا مقابلے کے امتحان کے ذریعے لا گریجوایٹس میں سے ایڈیشنل سیشن جج مقرر کیے جائیں، جب ان کی سروس بیس سال ہوجائے تو ان میں سے دیانتدار اور نیک نام ججوں کو elevate کرکے ہائی کورٹس کا جج مقرر کیا جائے۔
٭برطانوی سامراج کے دور میں زیادہ تر جج انگریز ہوتے تھے جو یہاں کی گرمی برداشت نہیں کر سکتے تھے اور بجلی نہ ہونے کے باعث گرمیوں میں تین مہینوں کے لیے برطانیہ چلے جاتے تھے۔ اب تو ججوں کی عدالت، ریٹائرنگ روم، گھر کے ہر کمرے اور کاروں میں اے سی لگے ہوئے ہیں لہذا اب چھٹیاں کرنے کی سامراجی روایت کا خاتمہ کردیجئے۔
٭ اسلامی تہذیب کی علامات ٹوپی اور اچکن چپراسیوں کو پہنا کر انگریز مسلم تہذیب کی توہین کرنا چاہتے تھے، آپکی کرسیاں ہٹانے والوں نے یہی لباس پہنا ہوتا ہے، اس روایت کا خاتمہ کردیجئے۔ ٭اعلی عدلیہ کے ججز کی تنخواہ اور پنشن پاکستان جیسے غریب ملک میں بہت زیادہ اور بلا جواز ہے۔ اسے rationalise کرنے کی ضرورت ہے۔ اگلے دس سال تک پاکستان میں کسی بھی سرکاری عہدیدار کی تنخواہ پانچ لاکھ اور پنشن تین لاکھ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔٭چیف جسٹس صاحب ایک اچھی روایت یہ بھی قائم کریں کہ سماعت مکمل ہونے کے بعد جج صاحبان کو ایک مہینے کے اندر فیصلہ سنانے کا پابند کردیں۔ اس ضمن میں میں ایک ایسے کیس کا ذکر کروں گا جس کے فیصلے کے انتظار میں کئی ریٹائرڈ سول سرونٹس وفات پاچکے ہیں۔
٭فیڈرل گورنمٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن نے سول سرونٹس سے آج سے دس سال پہلے تیس تیس لاکھ روپے وصول کیے تھے اور انھیں ریٹائرمنٹ پر پلاٹ دینے کا وعدہ کیا تھا، اور اس ضمن میں الاٹمنٹ لیٹر بھی جاری کردیے تھے۔الائمنٹ کی صورت میں الاٹیز کو کل اسی لاکھ روپے ادا کرنے تھے۔ دس سال پہلے تیس تیس لاکھ روپے جمع کرا کے صرف ایک کنال کے پلاٹ کا خواب دیکھتے دیکھتے بہت سے ایماندار سول سرونٹس جان سے ہار گئے اور بہت سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے صدمے سے دل کے عارضے اور دوسری بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ان کے اہلِ خانہ بھی مختلف قسم کی سماجی اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس سر چھپانے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
٭آرمی، نیوی ، ائرفورس، سپریم کورٹ، سینٹ، پولیس، ریونیو ، میڈیا اور بیسیوں دیگر سرکاری و غیرسرکاری اداروں نے اپنے ملازمین کو پلاٹ یا مکان دینے کے لیے ہاوسنگ سوسائٹیاں قائم کی ہیں جو اپنے ملازمین کی ویلفیئر کے لیے مختلف رہائشی اسکیموں میں پلاٹ دے رہی ہیں۔ اگر ان پر کوئی قدغن نہیں تو پرائیویٹ مالکان سے زمین خرید کر ریٹائرہونے والے وفاقی ملازمین کوقیمتا پلاٹ دینا کس طرح قانون کے منافی ہوسکتا ہے؟
٭میں بہت سے ایسے سول سرونٹس کو جانتا ہوں جنھوں نے پوری سروس میں صرف رزقِ حلال کھاکر ایمان اور ضمیر کے مطابق ملک کی خدمت کی ہے، مگر ان کے پاس کوئی مکان یا پلاٹ نہیں ہے۔کئی سالوں کے انتظار کے بعد انھیں ایک پلاٹ ملاتھا جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے غیرقانونی قرار دے دیا ۔ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی۔ محترم جسٹس منیب اختر صاحب کی سربراہی میں تین رکنی بینچ اپیل کی سماعت مکمل کرچکا ہے۔ مہربانی فرما کرکے یہ فیصلہ جلد سنا دیا جائے ۔
محترم چیف جسٹس صاحب! ہم نے آپ جیسے جج صاحبان سے ہی سن رکھا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہوتی ہے، اس کیس میں تو تاخیر انتہائی خوفناک ثابت ہوئی ہے۔ سیکڑوں سول سرونٹس اور ان کے اہلِ خانہ پچھلے کئی سالوں سے انصاف کے انتظار میں سولی پر لٹکے ہوئے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس