میاں محمد شریف مرحوم ،اتفاق،اتحاد و استقلال کی علامت۔۔۔ تحریر:  سردار عبدالخالق وصی

میاں محمد شریف مرحوم کو خلد آشیاں ھوئے بیس سال بیت گئے۔آپ کا انتقال سانحہ ارتحال دوران جلا وطنی 29 اکتوبر 2004 جدہ سعودی عرب میں ھوا نماز جنازہ 30 اکتوبر 2004 کو مسجد الحرام خانہ کعبہ میں ادا ھوئی اور پاکستان میں نماز جنازہ رائے ونڈ  تدفین  جاتی عمرہ رائے ونڈ لاھور میں ھوئی۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔
وقت کے ظالم حکمرانوں کی انا ھٹ دھرمی اور پابندیوں کے باعث تینوں بیٹے اور افراد خانہ ماسوائے حمزہ شہباز شریف جو خاندان کے واحد فرد کے طور پر پاکستان میں موجود تھے پاکستان میں انکی میت کو کوئی کندھا نہیں دے سکا اور نہ لحد میں اتارنے کی سعآدت حاصل کر سکا ۔
میاں شریف مرحوم کی زندگی کی یادیں،  کاروباری کامیابیاں اور سیاسی بصیرت و تدبر آج بھی زبان زد عام ھے۔
میاں محمد شریف مرحوم کا شمار تاریخِ پاکستان کے خوش قسمت ترین افراد میں ہوتا ہے۔ خوش قسمتی محض یہ نہیں ہوتی کہ کسی کو وقتی طور پر اقتدار،دولت اور شہرت مل جائے تو وہ خوش قسمت ہو جاتا ہے بعض افراد یا خاندان تمام آسائشوں و نعمتوں کی فراوانی کے باوجود خوش قسمت و خوش نصیب نہیں ہوتے اور ان کے شب و روز پریشان گذرتے ہیں وہ اقتدار ،تمام تر دولت اور جاہ و حشمت کے باوجود ذہنی سکون و تسکین قلب سے محروم رہتے ہیں۔  ان کی دنیاوی  زندگی عذاب کا ایک عملی نمونہ ہوتی ہے لیکن میاں محمد شریف کو اللہ رب العزت نے خوش بختی کی وہ معراج نصیب کی جو اس صدی میں ان کے ہم عصر کسی بھی شخصیت و خاندان کو نصیب نہ ھوئی۔
 میاں محمد شریف سونے کا چمچ منہ میں لیکر پیدا ہوئے نہ حد درجہ نازو نعم میں پلے، ایک عام اوسط درجے سے بھی کم محنت کش زمیندار گھرانے میں جنم لیا۔ مشرقی پنجاب بالخصوص امرتسر کے حالات بہت کشیدہ و دگرگوں تھے۔1919ءمیں رولٹ ایکٹ کا نفاذ ہوچکا تھا۔ 13اپریل1920ءمیں جلیانوالہ باغ کا رسوائے زمانہ سانحہ رونما ہو چکا تھا ۔ سیف الدین کچلو اور سیتا رام کی گرفتاری کے خلاف اور رہائی کیلئے مظاہرے جاری تھے امرتسر کی مقامی آبادی اور انگریز انتظامیہ میں آگ وخون کی ہولی کھیلی جارہی تھی ایسے ماحول میں میاں محمد شریف نے میاں رمضان کے گھرانے میں آنکھ کھولی اور پرورش پائی۔ آپ7 بھائی تھے ابتدائی تعلیم کے بعد محنت مزدوری پر لگ گئے اللہ رب العزت نے اس خاندان کو رمضان کے صبر و برداشت و استقامت اور مہر و محبت و التفات کے حسین امتزاج سے بدرجہ اتم نوازا ( والد محترم میاں محمد رمضان اور والدہ ماجدہ مہراں بی بی کے نام سے موسوم تھے اوریہ دونوں نام اسم بامسمٰی تھے) میاں محمد شریف نے مقامی سکول و مذہبی اساتذہ سے شرف تلمذ طے کیا۔ پڑھے لکھے اور صاف و شفاف لباس زیب تن کرنے کے باعث اپنے گھر اور محلے میں بابو شریف کے نام سے جانے پہچانے جانے لگے اس دور میں جسے تعلیم و تربیت و صفائی ستھرائی میسر ہوتی تھی اسے پیار و احترام سے بابو کہا جاتا تھا۔
ایک ہندو بنئے کے ہاں لوہے کی ورکشاپ میں تمام بھائیوں نے محنت شروع کی لیکن ایک دوست گھرانے سے 500روپیہ کا قرض لیکر آغاز کاروبار کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے کام چلنا بڑھنا شروع ہو گیا۔ بھائیوں میں مثالی اتفاق موجود تھا سو یہ کام بڑھتے بڑھتے امرتسر سے لاہور منتقل ہو گیا اور قیام پاکستان کے بعد ساٹھ کی دہائی میں اتفاق فاﺅنڈری کا درجہ حاصل کر گیا۔ اس وقت لوہے کے کاروبار پر لاہور میں دو خاندانوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی ایک میاں محمد شریف کی اتفاق فاﺅنڈری اور ایک سی ایم لطیف کی بٹالہ انجینئرنگ کمپنی BECO۔ دونوں شخصیات و دونوں خاندان کی محنت کی کہانی ملتی جلتی ہے لیکن سی ایم لطیف تندی باد مخالف کا مقابلہ نہ کر پائے اور ایک بہت بڑی انڈسٹری جب1972ءمیں بھٹو مرحوم کی نیشنلائزیشن پالیسی کا شکار ہوئی تو وہ یہاں سے نقل مکانی کرکے جرمنی چلے گئے اور پھر وھاں کے ھو گئے اور وھاں ھی انکا انتقال ھوا لیکن میاں محمد شریف کی فیکٹری جس دن نیشنلائز ہوئی دوسرے ہی دن میاں صاحب نے اپنے چھوٹے بیٹے شہباز شریف کو کہا چلو کام پر چلتے ہیں۔ شہباز شریف نے پوچھا ابا جان فیکٹریوں پر بھٹو نے قبضہ کر لیا ہے اب وہاں جا کر کیا کریں گے تو میاں صاحب نے کہا کہ دفتر میں بیٹھ کر مزید کسی کام کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ اس سے قبل مشرقی پاکستان کے بنگلادیش بننے سے وہاں قائم اتفاق فاﺅنڈری کی تمام مشنری جائیداد اور بینک بیلنس ضبط ہو چکے تھے  حسرت موہانی مرحوم کی طرح میاں محمد شریف مرحوم کی طبیعت بھی یکطرفہ تماشہ تھی مشق سخن، چکی کی مشقت اور پہیئے کو رواں رکھنے کیلئے وہ ہمہ وقت کوشاں رہے۔ میاں محمد شریف مرحوم اعلیٰ منتظم، فولادی عزائم کے مالک ،کم گو صاحب بصیرت و صاحب فراست شخصیت کے مالک تھے۔ مذہب شعار، ہمدرد مخلص و ایثار پیشہ ہونے کیساتھ ساتھ فیض رساں و فیض گنجور تھے۔ بیسیوں خاندانوں و اداروں،سینکڑوں افراد و ضرورت مندوں کی مالی اعانت کرتے تھے۔ مجھے لاہور میں پنجاب تو یونیورسٹی میں قیام کے دوران متعدد بار ان سے ملنے کا اتفاق ہوتا رہا اور نیازمندی بھی حاصل تھی بوجہ کشمیری ھونے کے شفقت سے نوازتے۔مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ وہ دینی و سماجی اداروں کی خاموشی سے مدد کرتے تھے اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے تھے۔ جامعہ نعیمیہ لاھور کے مہتمم حضرت مولانا محمد حسین نعیمی مرحوم سے ان کے خصوصی مراسم تھے اور ہماری بھی اس ادارے میں کچھ عرصے کے لئے زیر تعلیم و تربیت ھونے کے باعث ان سے نیاز مندی تھی۔ طاہر القادری کی انہوں نے اسقدر مدد اور پذیرائی کی کہ اس کی مثال ملنا مشکل ہے لیکن بعد میں اس بد طینت شخص نے نمک حرامی اور رذالت کی انتہا کر دی۔ میاں شریف مرحوم نہ
صرف خود صوم و صلواة کے پابند اور تہجد گذار تھے بلکہ اولاد اور افراد خانہ پر بھی ان کی تربیت و سختی کا یہ عالم تھا کہ گھر کے افراد کی ہمت نہ ہوتی تھی کے کوئی نماز و روزہ قضا کرے۔
میاں محمد شریف عملاً سیاست سے دُور رہتے تھے لیکن1970ءکے انتخابات میں انہوں نے لاہور سے جسٹس جاوید اقبال مرحوم کی نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ  الیکشن کے اخراجات میں ان کی مدد بھی کی تھی ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے 1972 میں انکی تمام انڈسٹری کو نشینلائز کردیا تھا بھٹو حکومت کی برطرفی کے بعد جنرل ضیاءالحق مرحوم نے آپ سے رابطہ کیا آپ کی فیکٹریاں واپس کیں اس طرح میاں محمد نواز شریف نے عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ میاں محمد نواز شریف  مزاجاً سیاست اور طبیعت میں اچھل کود اور نمود و نمائش سے بے نیاز تھے لیکن استقامت اور استقلال سے سیاست میں ایسا قدم رکھا کہ وہ پاکستان کی واحد شخصیت بن گئے جو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے ابتدا میں مشیر خزانہ،5 سال تک وزیر اعلیٰ اور تین بار پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ۔ شریف خاندان کو پاکستان کی تاریخ میں یہ واحد اعزاز حاصل ھے کہ میاں شریف کا ایک بیٹا محمد نوازشریف 5 سال وزیر اعلیٰ اور تین ٹرم وزیراعظم ،دوسرا بیٹا محمد شہباز شریف صوبہ پنجاب کی جمہوری تاریخ میں سب سے لمبا عرصہ تقریباً 11 سال تک وزیر اعلیٰ ،دو ٹرم وزیراعظم، پوتا حمزہ شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب،پوتی محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ پنجاب کی تاریخ کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ، تیسرا بیٹا عباس شریف مرحوم ممبر قومی اسمبلی، اھلیہ محترمہ ممبر پنجاب اسمبلی،بہو کلثوم نواز شریف مرحومہ ممبر قومی اسمبلی رھے یہ اعزاز پاکستان ھی نہیں بلکہ برصغیر میں اور ممکن ھے دنیا میں کسی کو نہ حاصل رھا ھو۔ شریف خاندان نے عزت و سیاست کی معراج دیکھی اور جب بھی ان کو غیر جمہوری و ناپسندیدہ طریقے سے اقتدار سے الگ کیا گیا عوام نے پہلے سے زیادہ محبت و اعتماد سے نوازا۔ میاں محمد شریف نے اپنی زندگی میں متعدد فلاحی ادارے قائم کیے جن میں ہسپتال اور تعلیمی ادارے شامل تھے ان اداروں کی نہ صرف وہ سرپرستی کرتے بلکہ ان میں زیر علاج و زیر تعلیم افراد کی خبر گیری اور مدد امداد میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے۔ میاں محمد شریف نے گھر میں اقتدار آتے جاتے دیکھا لیکن ان کی طبیعت و مزاج میں اقتدار کے آنے جانے سے کوئی تبدیلی نظر نہ آئی خود بھی قید ہوئے اور بچوں اور اولاد کی بھی نظر بندی اور قید اور جلاوطنی بھی دیکھی۔ خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ میں عبادت کی سعادت حاصل کی۔ ان کی زندگی ہمہ وقت عجز و انکسار ، محنت و جدوجہد اور نظم و ضبط سے عبارت رہی اتفاق و اتحاد ان کا ماٹو تھا اور یہی ان کا اور انکے خاندان کا طرہ امتیاز رہا اور ماشاءاللہ چشم بد دُور یہ اتحاد و یکجہتی شریف خاندان میں آج بھی قائم و دائم ہے۔ شرافت ، دیانت اور محنت ان کا طرہامتیاز تھا۔ آج جبکہ ہم ان کو ان کی 20 ویں برسی کے حوالے سے یاد کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی مغفرت اور درجات بلند فرمائے اور ان کے خاندان کی عزت و سرفرازی کا چشمہ جاری و ساری رہے۔
شریف خاندان کو جہاں یہ اعزاز حاصل ھیں وھاں انہوں نے سیاسی و معاشی زندگ میں  جو اذیتیں کاٹیں وہ بھی کم نہیں ھیں انکا شمار بھی کیا جائے تو یہ کالم اس کا احاطہ نہیں کر پاتا
میاں شریف مرحوم اگرچہ عملی طور پر سیاست میں  سرگرم عمل نہیں رھے لیکن انکی سیاسی بصیرت، فراست تدبر اور معاملہ فہمی کو دیکھا جائے تو انہوں نے خاندان کی تربیت اس انداز میں کی کہ باوجود سازشوں و ریشہ دوانیوں کے خاندان میں آج تک نفاق نہیں پیدا ھوا بڑوں کا احترام اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت و محبت کا یہ عالم ھے کہ  سیاست میں نہ کاروبار میں آج تک کوئی تفریق و اختلاف منظر عام پر آیا اللہ کرے یہ عدیم المثال یکجہتی و اتفاق تادیر و  تا ابد قائم رھے تاکہ یہ اتحاد ملک پاکستان کے لئے ایک مثال اور ایک تاریخ و روایت بن جائے۔
آج جبکہ مرحوم کی بیسویں برسی انتہائی عزت و احترام اور سادگی سے منائی جارھی ھے دعا ھے اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور بشری لغزشیں معاف فرمائے۔