استعفوں کی توقع اورانقلاب کی بڑھکیں۔۔۔تحریر نصرت جاوید


بہت دنوں سے اصول پرست اور جرأت مند صحافیوں کی کثیر تعداد جو میری طرح روایتی میڈیا کی بندشوں سے آزاد اور معاشی اعتبار سے یوٹیوب وغیرہ کی بدولت صحافتی اداروں کی تنخواہوں کی محتاج نہیں، یہ دعویٰ کررہی تھی کہ اگر قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد الجہاد ٹرسٹ کے فیصلے کے مطابق طے ہوئی روایت کا احترام کرتے ہوئے عزت مآب منصور علی شاہ صاحب چیف جسٹس کے رتبے پر فائز نہ ہوئے تو ان سمیت سپریم کورٹ کے چند عزت مآب جج صاحبان بطور احتجاج اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجائیں گے۔ متوقع استعفے پیش ہوگئے تو وکلاء کا ایک طاقت ور گروہ 2007ء کی طرح ’آزاد عدلیہ‘ کی بحالی کے لیے ویسی ہی تحریک کا آغاز کردے گا جس کے نتیجے میں جنرل مشرف کی فوجی چھتری تلے قائم ہوئے حکومتی بندوبست کا خاتمہ ہوا تھا۔
جس تحریک کے دہرائے جانے کی امید دلائی جارہی تھی اسے میں نے 2007ء کے برس ایک متحرک رپورٹر کی حیثیت میں مسلسل کور کیا تھا۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ پرنٹ میڈیا سے ٹی وی صحافت کی جانب میں عدلیہ تحریک ہی کی وجہ سے منتقل ہوا ۔ ٹی وی کے لیے جو پروگرام کیا وہ ڈٹ کر عدلیہ تحریک کی حمایت میں شعلہ فشانی کا مرتکب ہوتا رہا۔ ڈھٹائی سے جاری رکھی شعلہ فشانی سے تنگ آکر مشرف حکومت نے یہ پروگرام بند کردیا۔ ہمارے بعد مزید کئی اینکر خواتین وحضرات کے شوز بھی بند ہوگئے۔ مجھے سکرین پر لوٹنے کے لیے اگرچہ دوسروں سے کہیں زیادہ مہینوں تک انتظار کرنا پڑا۔
جنرل مشرف عدلیہ بحالی تحریک کی بدولت ایوانِ صدر سے رخصت ہوئے تو ان کی جگہ اس عمارت میں پہنچے آصف علی زرداری نے افتخار چودھری کی بحالی میں لیت ولعل سے کام لیا۔ بالآخر نواز شریف لاہور سے اسلام آباد تک عوامی مارچ کے ارادے سے گوجرانوالہ تک پہنچ گئے۔ وہ ابھی راستے ہی میں تھے تو ان دنوں کے آرمی چیف نے ’سول سوسائٹی‘ کے حتمی نمائندہ قرار پائے میرے دوست اور مربی اعتزاز احسن کو یقین دلایا کہ افتخار چودھری کو ان کے منصب پر بحال کیا جارہا ہے۔ ایسی ہی یقین دہانی امریکا کو بھی دلوائی گئی۔ نواز شریف ان کی وجہ سے گوجرانوالہ سے لاہور واپس آگئے۔ ’ریاست‘ افتخار چودھری کے سپرد کردی جسے عدلیہ تحریک کے ترجمان میرے اور آپ پر مشتمل رعایا کی شفیق ماں میں بدلنے کا وعدہ کرتے تھے۔ چودھری صاحب اپنے منصب پر بحالی کے بعد مگر ریاست کو شفیق ماں بنا نہ سکے۔ عوام کے منتخب نمائندوں کوبلکہ ’چور اور لٹیرے‘ ثابت کرنا شروع ہوگئے۔ ازخود نوٹسوں کے ذریعے انھوں نے یہ پیغام بھی اجاگر کرنا شروع کردیا کہ میرے اور آپ کے ووٹ سے منتخب ہوئے افراد کا چلایا نظام بنیادی طورپر بدعنوان ہے۔ اسے کوئی مسیحا ہی درست کرسکتا ہے۔ دریں اثناء ان کے فرزند جناب ارسلان کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہا۔ ان کے کاروبار میں لگی رونق کے مشاہدے کے بعد میں نے عدلیہ سے ’مسیحاؤں‘ کو ڈھونڈنا ترک کردیا۔
وہ استعفے جن کی توقع باندھی جارہی تھی منظر عام پر نہیں آئے ہیں اور فی الوقت 2007ء جیسی وکلاء تحریک کی امید بھی نظر نہیں آرہی۔ ’اصولوں‘ کی بنیاد پر استعفوںاور حاکموں کے خلاف دلاوری کا ذکر چھڑا تو نجانے مجھے کیوں ڈاکٹر محبوب الحق یاد آنے لگے۔ ان دنوں ’انقلاب‘ کا ماخذ تصور ہوتی نوجوان نسل جو سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے پاکستان کو بدلنے کا ارادہ رکھتی ہے، شاید ان کے نام سے واقف نہ ہو۔ انکل گوگل سے رجوع کرنے کی زحمت کریں تو جان لیں گے کہ آپ عالمی سطح پر مستند مانے معیشت کے ماہر شمار ہوتے تھے۔ جموں کے ایک سکول ماسٹر کے بیٹے تھے۔ محض اپنی ذہانت اور لگن سے 1960ء کی دہائی میں حکومت پاکستان کے پلاننگ کمیشن کے اعلیٰ افسر ہوئے۔ وہاں ملازمت کے دوران انھوں نے دریافت کیا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے نام نہاد ’عشرۂ ترقی‘ نے پاکستان کے محض 22خاندانوں کو ہر نوع کے کاروبار کا اجارہ دار بنادیا ہے۔ ان کی تحقیق نے پاکستان میں سوشلزم کی افادیت کا احساس اجاگر کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پیپلزپارٹی کو ’غریبوںکی جماعت‘ میں بدل دیا۔ بالآخر 1970ء کی دہائی کے آغاز میں برسراقتدار آئے تو ’اجارہ دار‘ خاندانوں سے ’نجات‘ کے لیے صنعتوں کو قومیالیا گیا۔
ڈاکٹر محبوب البتہ اس دوران حکومت پاکستان کی ملازمت چھوڑ کر ورلڈ بینک جاچکے تھے۔ جنرل ضیاء نے 1977ء میں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ملک کو سنوارنے کا فیصلہ کیا تو انھیں بہلاپھسلاکر وزارت منصوبہ بندی کا مدارالمہام بنادیا گیا۔ وزارت خزانہ کا منصب مگر غلام اسحاق خان کے پاس ہی رہا جو معاشیات پر افسرشاہی کے کامل کنٹرول کے بھرپور حامی تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے خیالات لہٰذا عملی صورت اختیار نہ کرپائے۔
1985ء لیکن ’غیر جماعتی بنیادوں‘ پر انتخاب ہوئے تو سندھ سے آئے محمد خان جونیجو کو وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کردیا گیا۔ وہ نامزد ہوئے تو ضیاء الحق نے انھیں مشورہ دیا کہ معیشت میں رونق برپا کرنے کے لیے محبوب الحق صاحب کی ذہانت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ غلام اسحاق خان کو وہ سینیٹ کا چیئرمین بنواچکے تھے۔ محبوب الحق مرحوم کو اس ادارے کا رکن بنوادیا گیا۔ اب ڈاکٹر صاحب ملک میں ’معاشی انقلاب‘ برپا کرنے کے لیے کاملاً آزاد تھے۔
ڈاکٹر محبوب الحق نے جونیجو حکومت کا پہلا بجٹ پیش کیا۔ ’قوم سے چھپائی دولت‘ کو معاشی عمل میں لانے کے لیے ’بانڈز‘ متعارف ہوئے۔ مجھ جیسے جھکی صحافیوں نے انھیں ’منی لانڈرنگ بانڈز‘ کا نام دیا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف وغیرہ مگر ان کا متعارف کروانا ’انقلابی‘ قدم قرار دیتے رہے اور ان کے اسلام آباد میں مقیم نمائندے ہمیں یقین دلاتے کہ مذکورہ بانڈز کے ذریعے ’حلال‘ ہوئی رقوم جب پاکستان میں خرچ ہوں گی تو بازار میں رونق لگنے کے علاوہ حکومت پاکستان کو ٹیکسوں کی صورت بھاری بھر کم رقوم بھی ملیں گی اور ہم آئی ایم ایف جیسے اداروں کے محتاج نہیں رہیں گے۔
بہرحال محبوب الحق مرحوم کو وزارت خزانہ کا منصب سنبھالے چھ ہی ماہ گزرے تھے تو مجھے پارلیمان کی راہداریوں سے گزرتے ہوئے اندازہ ہونا شروع ہوا کہ اراکین اسمبلی کی اکثریت وزیر خزانہ کے ’رعونت بھرے‘ رویے سے نالاں ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ ’ورلڈ بینک کا تربیت یافتہ شخص‘ عوامی نمائندوں سے سیدھے منہ بات نہیں کرتا۔ ان سے بات کرنا بلکہ اپنی توہین گردانتا ہے۔ جو تاثر میں نے پارلیمانی راہداریوں سے اخذ کیا اسے اپنے انگریزی کالم میں بیان کردیا تو ہاہاکار مچ گئی۔ چند ہی دن بعد مگر جونیجو صاحب نے ’اپنی (ضیاء الحق کی نہیں)‘کابینہ کا تاثر دینے کے لیے محبوب الحق کو وزارت خزانہ کے منصب سے ہٹاکر ان کی جگہ میاں یٰسین خان وٹو کو تعینات کردیا۔ یاد رہے کہ وٹو صاحب جونیجو صاحب کے ساتھ ون یونٹ والی مغربی پاکستان اسمبلی میں وزیر تعلیم بھی رہے تھے۔
محبوب الحق مرحوم کو وزارت تجارت کا عہدہ آفر ہوا۔ موصوف نے انکار کردیا۔ حلف نہیں لیا۔ کچھ دن گزرے تو مجھے خبر ملی کہ ضیاء الحق جونیجو مرحوم سے اصرار کررہے ہیں کہ محبوب الحق مرحوم کو وزارت تجارت کے عہدے ہی پر واپس لے لیا جائے۔ مجھے یہ خبر ملی تو مصر رہا کہ ’بے عزتی‘ کروانے کے بعد محبوب الحق مرحوم کسی صورت اس پیشکش کو قبول نہیں کریں گے۔ سینیٹ کا عہدہ بھی بلکہ چھوڑ کر کسی عالمی ادارے میں کام کرنے بیرون ملک چلے جائیں گے۔
میں نے اس ’انقلابی سوچ‘ کا چودھری انور عزیز مرحوم سے ذکر کیا۔ وہ ان دنوں جونیجو مرحوم کے قریب ترین وزراء میں سے ایک شمار ہوتے تھے۔ میرے کئی حوالوں سے مہربان بزرگ بھی تھے۔ انھوں نے محبوب الحق کے بارے میں میرے ’انقلابی خیالات‘ بہت شفقت سے سنے۔ میں نے بات ختم کرلی تو فقط یہ کہا کہ محبوب الحق جیسے لوگ ہماری طرح گلیوں میںدھکے کھاتے سیاستدان نہیں بلکہ پیشہ ور ٹیکنوکریٹ ہیں۔انھیں ریاست یا عالمی اداروں سے بھاری بھر کم تنخواہیں اور مراعات لینے کی عادت ہوتی ہے۔ یہ ان کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ ’گھر جاکر آرام سے سو جاؤ۔ صبح محبوب الحق وزارت تجارت کا حلف اٹھارہے ہیں‘۔ دوسرے دن ایسا ہی ہوا۔ مذکورہ تجربے کی وجہ سے مجھے یہ شک لاحق ہے جن استعفوں کی توقع وطن عزیز میں عدل کا نظام بحال کرنے کی خاطر باندھی جارہی ہے شاید وہ بھی منظر عام پر نہیں آئیں گے۔ اپنے ’بے خواب کواڑوں‘ کومقفل کرنے کا وقت ہے۔ ’انقلاب‘ کی محض بڑھکیں ہیں جن کا پلیٹ فارم ہے سوشل میڈیا۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت