قاضی فائز عیسیٰ سے یادگار ملاقات …. تحریر ڈاکٹر صغرا صدف


قاضی فائزعیسیٰ کے ساتھ رکھے جانے والے ناروا سلوک کی داستان کئی سالوں سے پڑھتے اور سنتے آرہے تھے ،ان کی زندگی، تعلیم ، خاندانی روایات اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بھی کافی کچھ پڑھ اور سن رکھا تھا۔ انکی کمٹمنٹ اور اصول پسندی کے سبب سابقہ چیفس کے ان کے ساتھ ناروا سلوک نے انھیں زیادہ اہم اور معتبر کر دیا تھا ، ایک شخص کو عدل کے نظام سے باہر رکھنے کیلئے پورا نظام متحرک تھا اور ایک وقت ان کا سربراہ بننا ناممکن لگ رہا تھا۔ لیکن قدرت کو منظور ہو تو ساری مشکلات ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہیں جو ذرا سی تیز ہوا چلنے سے نیست و نابود ہو جاتی ہیں۔ایک سال پہلے کی بات ہے میں اور میری دوست صبیعہ شاہین جڑانوالہ میں چرچ جلائے جانے والے دلخراش واقعات کے متاثرین کی دل جوئی اور ان سے ہم آہنگی کا اظہار کرنے کیلئے جڑانوالہ گئے۔ہم نے پورا دن ان لوگوں کے ساتھ گزارا ، گھروں میں گئے ، لوگوں سے بات کی ،جب ہم مرکزی چرچ کے جلے ہوئے در و دیوار دیکھ رہے تھے وہیں بیرونی دروازے کے ساتھ ایک اْجلا اور نفیس سا شخص چرچ کے عملے اور دیگر لوگوں کے ساتھ کھڑا بڑی نرمی و نفاست سے باتیں کر رہا تھا۔ہم نے وہاں مختلف شعبہ جات کے لوگوں کو دیکھا اور کئی ایسے بھی جن کے ساتھ موجود پروٹوکول نفری کے سبب رستے تنگ پڑتے نظر آئے مگر انھوں نے تصویر بنانے اور میڈیا بیان دینے پر اکتفا کیا۔ لیکن اس مختلف شخص کو دیکھ کر لگا، جیسے میں اسے جانتی ہوں ، وہاں سے گزرتے انھیں سلام کیا جس کا شائستگی سے جواب دیا گیا۔ویسے ہی کسی سے پوچھا کہ یہ کون ہیں انہوں نے کہا یہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس فائز عیسیٰ ہیں۔ان کا رویہ دیکھ کر ان کے لیے دل میں موجود احترام کا جذبہ گہری عقیدت میں ڈھل گیا۔ خوشی ہوئی کہ میرا ملک واقعتاً بدل رہا ہے۔ اتنے طاقتور عہدے کے حامل شخص کا رویہ اور لب و لہجہ فرعونیت سے مبرا ہونا واقعی مثبت اور تعمیری تبدیلی لگی۔ ان کے ارد گرد پروٹوکول کی دیواریں ، قطاریں اور حصار نہیں تھے۔ وہ اپنا رعب جمانے کے لیے بلند آواز میں گرج برس کر لوگوں کی تذلیل نہیں کر رہے تھے ،حکومت کو مورد الزام ٹھہرا کر اسکی مٹی پلید نہیں کر رہے تھے بلکہ واقعے کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ دکھی دلوں کی ڈھارس بندھا رہے تھے ، کمزوروں اور ناامیدی کا شکار لوگوں کو انصاف کی یقین دہانی کرا رہے تھے۔

قاضی فائز عیسیٰ کا بطور چیف جسٹس مختصردور کئی حوالوں سے منفرد اور یادگار شمار کیا جاتا رہے گا۔وہ لوگ جو آج ان کے بدترین مخالف ہیں وہ بھی ایک دن ان کی انصاف پسندی کی گواہی دیں گے۔ ہو سکتا ہے کچھ ایسے فیصلے ہوں جن پر کچھ لوگوں کو اعتراض ہو کہ وہ ان کے حق میں کیوں نہیں کیے گئے لیکن جب بھی ایسے کسی بھی فیصلے کا جائزہ لیا جائے گا تو پتہ چلے گا کہ انصاف کے اصولوں کو کہیں بھی مجروح نہیں کیا گیا۔قاضی صاحب کا یہ بھی احسان رہے گا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کی براہ راست کارروائی دکھا کر بہت سارے بھرم توڑے۔انہوں نے ذاتی حوالے سے مراعات لینے کے جاری سلسلے کو لگام دی ، سرکاری پیسوں سے الوداعی دعوت تک قبول نہ کی، سرکار سے جبریہ پلاٹ ، مراعات اور انعام وصول کرنے کی روش ختم کی۔ایک ملک جہاں نوکری میں ایکسٹینشن حاصل کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ بڑے عہدوں والے اس کی مثالیں قائم کرچکے ، وقت پر ریٹائر ہونے کو ترجیح دی۔

ان کی اصول پسندی ، نیک نیتی اور آئین پرستی کی گواہی برطانیہ کے قدیم ترین اور معتبر قانونی ادارے مڈل ٹمپل کا انھیں بینچر منتخب کرنا ہے جو یقیناً پاکستان کیلئے بھی نیک نامی کا باعث ہے۔دعا ہے نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب بھی اسی روش پر چلتے ہوئے انصاف پر توجہ مرکوز رکھیں ، حکومت گرانے، دیگر اداروں کو نیچا دکھانے اور غیر یقینی صورتحال بنانےکیلئے جذباتی فیصلوں اور بریکنگ نیوز سے گریز کیاجائےگا۔انصاف کا نظام متحرک ہوگا اور برسوں سے فیصلے کے متلاشی افراد سرخرو ہوں گے۔

پاکستان میں معاشی اور سیاسی استحکام کیلئے عدلیہ کی غیر جانبدارانہ اور پر وقار حیثیت بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ عدالتیں تماشہ گاہ نہیں ہوتیں جہاں موبائل اٹھائے لوگ کمنٹری کرتے پھریں اور صرف کمنٹس اور لائیکس کیلئے ملک میں ہیجانی صورتحال پیدا کریں۔ کسی جج کے پاس حکومتیں بنانے ،گرانے اور مخصوص افراد کو نوازنے کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہوتا۔یہاں ترازو پر تول کر فیصلے کیے جاتے ہیں لوگوں کی توقعات اور ذاتی خواہشات کی بنیاد پر نہیں۔رب کرے خیر اور آئین پرستی کی جس روایت کا آغاز قاضی فائز عیسیٰ نے کیا وہ سب کی ترجیح بنے۔ اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب دنیا کے چارٹ پر ہماری عدلیہ آخری نمبروں کی بجائے پہلے نمبروں میں جگمگاتی دکھائی دے گی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ