27 اکتوبر۔ یوم سیاہ … تحریر : سردار عبدالخالق وصی

موجودہ قضیہ کشمیر 03 جون 1947 سے شروع ھوتا ھے جب لارڈ مونٹ بیٹن نے تقسیم ھند کے مںصوبے اور طریقہ کا کا اعلان کیا جن میں راجواڑوں Princely States کو بظاھر یہ اختیار دیا گیا کہ وہ نئے وجود میں آنے والے دو ممالک پاکستان اور بھارت جس کے ساتھ اپنی آبادی کی کثرت رائے اور قربت کی بنیاد پر چائیں الحاق کریں یا آزاد و خود مختار رہیں خود مختاری کا اوپشن محدود اور دو تین بڑی ریاستوں تک ھی زیر غور رکھا گیا جن میں کشمیر،حیدر آباد اور جونا گڑھ تھا۔ کشمیر سے بھارتی کانگریس لیڈر جواھر لال نہرو کی وابستگی تزویراتی بھی تھی اور وہ اپنے آپکو کشمیری کہلاتا بھی تھا جبکہ عملاً صورت حال یہ تھی کشمیر کا روحانی جغرافیائی تہزیبی ثقافتی تعلق پاکستان سے تھا اور تین جون 1947 کے ڈیڑھ ماہ بعد ھی ریاستی اسمبلی پرجا سبھا میں موجود اراکین اسمبلی کی مسلم اکثریت کی حامل قومی پارلیمان جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل نے سری نگر میں 19 جولائی 1947 کو قرارداد الحاق پاکستان منظور کر کے واضع کردیا تھا کہ وہ اپنی ریاست کا الحاق پاکستان سے کریں گے اور انہیں اس میں ھندو لیڈر پنڈت پریم ناتھ بزاز جو اسوقت ریاست کے مزدور کسان طبقہ کی نمائندگی کرتے تھے کا بھی تعاون اور رائے بھی شامل تھی۔
نہرو نے اس دوران کشمیر کا دورہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ شیخ عبداللہ سے جیل میں ملاقات کر کے رائے عامہ ھموار کرے لیکن مہاراجہ کی حکومت نے اسے مظفرآباد میں گرفتار کر لیا نہرو کی ایما پر گاندھی جی نے بھی کشمیر کا دورہ کیا اور نہرو کے رفیق خاص مینن کو بھی کشمیر بھجوایا گیا لیکن کسی کی بھی دال نہ گلی کشمیری عوام بھارت کے ساتھ جانے کو تیار نہ تھے وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کے داعی و علمبردار تھے جبکہ ڈوگرہ مہاراجہ اور اسکا وزیراعظم کاک ریاست کو خود مختار رکھنے کے لئے برسر پیکار تھے اس کے لئے ڈوگرہ نے پاکستان کے ساتھ Standstill معائدہ بھی کیا اور اس نے بھارت کو بھی یہ پیش کش کر رکھی تھی جسے بھارت نے مزاکرات پر ٹال رکھا تھا۔
اس اثنا میں کشمیریوں نے مہاراجہ کے خلاف پونچھ میں با ضابطہ اعلان بغاوت کر رکھا تھا جسکا اثر دیگر اضلاع آزاد کشمیر میں بھی کم و بیش جاری تھا
بھارت کی قیادت نے ڈوگرا مہاراجہ پر دباؤ اور لارڈ مونٹ بیٹن اور ریڈ کلف سے بھی اندرونی ساز باز کیا ھوا تھا ان ھی حالات میں 24 اکتوبر 1947 کو سردار محمد ابراھیم خان کی قیادت میں باغی حکومت کا قیام عمل میں آگیا تھا جسکے نتیجے میں مہاراجہ کشمیر بھاگنے پر مجبور ھوگیا لیکن ایک Accession Deed عجلت میں تیار کیا گیا جس پر 26 اکتوبر کی تاریخ درج کی گئی اور 27 اکتوبر کو گورنر جنرل کے دستخط کروائے گئے جو پہلے ھی نہرو اور دیگر بھارتی قیادت کے جال میں آچکا تھا۔
بھارت نے نے اس جعلی دستاویز کی روشنی میں بھارتی فوج کو سری نگر میں اتارنا شروع کیا اس سے قبل ھی پٹیالہ فورس کو ریاست میں داخل کردیا گیا تھا جسکے شواھد موجود تھے اس پر پاکستانی افواج نے بھی بھارتی فوج کے ریاست سے انخلاء کے لئے کارروائیوں کا آغاز کیا اور قبائلی عمائدین نے بھی پاکستان فوج کا ساتھ دیا 22 اکتوبر کو مظفرآباد میں قبائلی حملہ کا جو تاثر دیا جارھا ھے وہ مقامی آبادی اور عمائدین کی اپیل پر آئے تھے تاکہ مظفرآباد میں ڈوگرا مہاراجہ کی فوج نے جو قتل وغارت کا منصوبہ بنا رکھا تھا اس کو ناک۔ بنانے اور مقامی آبادی کو اس دھشتگردانہ کارروائی سے محفوظ رکھا جائے۔
بھارت کو اقوام متحدہ میں جانے کے لئے ایک بہانہ درکار تھا بھارت نہ صرف اقوام متحدہ میں یہ ایشو لے کر گیا بلکہ اس کے وزیراعظم نہرو نے متعدد بار اعلان کیا کہ وہ کشمیر میں عوام کی رائے لینے کے لئے انکو آزادانہ موقع فراھم کرے گا لیکن بھارت نہ صرف اپنے وعدے اور بین الاقوامی کمنٹمنٹس سے بھاگ گیا بلکہ اس نے تو پاکستان اور چین پر بھی چڑھائی شروع کردی۔
پاکستان کو دولخت کیا تاکہ بانس رھے نہ بانسری لیکن پاکستان نے بھارت کے ھر وار کو ناکام کیا اور پاکستان نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی تحریک کو سیاسی سفارتی اور اخلاقی سطح پر ھر فورم پر بلند کیا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ھر سال تسلسل کے ساتھ اپنے اس موقف کا اعادہ جاری رکھا پا کستان نیں قیادت خواہ کسی بھی حکمران کی ھوئی ھو وہ سیاسی ھو یا فوجی کسی بھی حکمران نے کشمیر پر اپنے روایتی موقف میں کمی نہیں آنے دی لیکن ذولفقار علی بھٹو مرحوم، نواز شریف اور وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف کی جنرل اسمبلی میں حالیہ تقریر نے کشمیریوں کے حوصلوں کو بڑی تقویت دی۔ جب نوجوان انجنئیر برھان وانی کی شہادت ھوئی تو میاں محمد نواز شریف جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں برھان وانی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔
ابھی قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا کہ 27 ستمبر کو اسمبلی سشن بوجہ تعطیل ھفتہ کلوز تھا 25 اکتوبر کو قومی اسمبلی نے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور بھارتی مظالم اور 27 اکتوبر 1947 کو کشمیر میں ناجائز داخلے کے خلاف کشمیریوں کی جانب سےمنائے جانے والے یوم سیاہ پر وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان انجنئیر امیر مقام نے درج زیل قرارداد پیش کی جسے قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا اس سے پاکستان کی کشمیری عوام کے ساتھ مستقل کمنٹ منٹ کا بخوبی اندازہ لگا جاسکتا ھے۔
قومی اسمبلی میں بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر میں یوم سیاہ کے حوالے سے منظور شدہ قرارداد کا متن

25 اکتوبر قومی اسمبلی نے بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر میں یوم سیاہ کے حوالہ سے کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کی قرارداد کی متفقہ طور پر منظوری دیدی۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر امورکشمیروگلگت بلتستان انجنیئر امیر مقام نے اس حوالہ سے ایوان میں قرار دادپیش کی جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دیدی،

قرار دادکے متن میں کہاگیاہے کہ 27اکتوبر1947 کو سری نگر میں بھارتی افواج کے داخل ہونے کی 77 برس کے موقع پر قومی اسمبلی کا یہ اجلاس کشمیری عوام کی اپنے ناقابل انتقال حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد میں ان سے پاکستان کی مکمل،سفارتی اخلاقی اور سیاسی حمایت کا اعادہ کرتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اور استحکام تنازعہ جموں و کشمیر کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرادادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حتمی حل پر منحصر ہے۔

یہ ایوان بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیرکی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت، اسکے آبادیاتی ڈھانچہ،اور سیاسی منظرنامے کوتبدیل کرنے کی بھارت کی مسلسل کاروائیوں کو مسترد کرنے کا اعادہ کرتاہے،یہ ایوان ہزاروں سیاسی کارکنوں کی طویل عرصہ سے نظر بندی اور کئی کشمیری سیاسی جماعتوں پر پابندی کی مذمت کرتاہے، ایوان اس بات کی نشاندھی کرتاہے کہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں وکشمیر میں لوک سبھا /قانون ساز اسمبلی کے انتخابات جموں و کشمیرکے عوام کے حق خودارادیت کا متبادل نہیں ہوسکتے۔

قبل ازیں انجنیئر امیرمقام نے کہاکہ کشمیریوں کی جدوجہد پوری دنیا کے سامنے ہیں، کشمیریوں نے اپنے پیدایشی حق خودارادیت کیلئے عظیم قربانیاں دیکر ایک تاریخ رقم کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ مسئلہ کشمیر کے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کیا جائے۔ جدوجہد آزادی میں اب تک لاکھوں کشمیری شہید ہوگئے،

ایک لاکھ سے زائد گھروں کو مسمار کیا، بھارت نے کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرکے غیر مقامی لوگوں کو غیر قانونی طور پربھارت کے زیر قبضہ تسلط جموں وکشمیر میں باہر سے لوگوں کو آباد کرنا شروع کیاہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کشمیریوں کی سیاسی،اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا، وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر کشمیریوں اورفلسطینیوں کا مقدمہ پیش کیاہے۔

کشمیری عوام گزشتہ 77 سالوں سے حق خود ارادیت کی جدوجہد میں سر گرداں ھیں اس کے لئے انہوں نے قربانیوں کی ایک لازوال تاریخ رقم کی ھے ان ھی قربانیوں سے ایک خطہ ارضی جو تقریباً 32 ھزار مربع میل پر مشتمل آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان حاصل کیا۔
آزاد جموں و کشمیر کو ریاست جموں وکشمیر کے بیس کیمپ کا درجہ حاصل ھے یہاں مہاراجہ سے بغاوت کے زریعے تقریباً 4 ھزار مربع میل پر مشتمل علاقہ پر ایک حکومت بیرسٹر سردار محمد ابراھیم خان کی صدارت میں 24 اکتوبر 1947 کو قائم کی جن کی قیادت میں یہ خطہ آزاد کشمیر حاصل کیا گیا جسکا یوم تاسیس ھر سال 24 اکتوبر کو ریاست بھر میں تسلسل و تواتر سے بنایا جاتا ہے
آزاد جموں وکشمیر میں شروع میں صدارتی اور 1974 کے بعد پارلیمانی نظام حکومت قائم ھے جہاں ایک صدر،وزیراعظم،مقننہ(قانون ساز اسمبلی)،ازاد جموں و کشمیر کونسل، انتظامیہ اور عدلیہ جو سپریم کورٹ آف آزاد جموں وکشمیر، ھائی کورٹ اور لوئر کورٹس و دیگر عدالتی،آئینی ادارے الیکشن کمیشن، ،پبلک سروس کمیشن، محتسب،احتساب بیورو، بلدیاتی نظام وغیرہ قائم ھیں آزاد جموں وکشمیر کی آبادی تقریباً 45 لاکھ کے لگ بھگ ھے جن میں سے بیس لاکھ کے قریب بیرون ملک اور پاکستان میں مقیم ھیں مہاجرین جموں وکشمیر اس سے الگ ھیں جنکی نمائیندگی آزاد جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں 12 نشستوں (6 جموں/ 6 ویلی کشمیر) پر مشتمل ھے۔

گلگت بلتستان کی تاریخ قدرے مختلف ھے یہ 28 ھزار مربع میل پر مشتمل علاقہ ھے اسکے مکینوں کی اکثریت کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس خطے کو ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے جابرانہ تسلط سے آزاد کرواکر پاکستان کا حصہ بنا لیا ھے جس کے صوبہ بنانے کی جدوجہد کرتے ھیں جبکہ دیگر کشمیریوں کا اظہار ھے کہ ابھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں رائے شماری ھونا باقی ھے اسلئے جب تک با ضابطہ طور پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں رائے شماری ھو یہاں عبوری صوبہ کی گنجائش کے تحت وھاں پر گورنر اور وزارت اعلیٰ کے زیر نگرانی نظام حکومت قائم ھے جہاں ایک قانون ساز اسمبلی عدلیہ اور انتظامیہ موجود ھے جسکی آبادی 16 لاکھ کے لگ بھگ اور زمینی رقبہ 28 ھزار مربع میل پر مشتمل ھے۔